مشرق و مغرب میں سائنسی تحقیق کا معیار

مغرب میں سائنس کے زور پکڑتے ہی ایک غفلت ِعام کا دور دورہ شروع ہوا جس میں مذہب کے روایتی مفہوم سے کھلم کھلا بغاوت کے ساتھ مذہب بیزاری کا رواج چل پڑا۔کلیسا نے اپنی شدت پسندی کا خمیازہ لادینیت کی صورت میں بھگتا اور اپنے وقار کو دائوپر لگا کے لادینیت کے پیدا ہونے کے لئے ایک موافق ماحول فراہم کیا۔وہ کلیسا جو چند پادریوں کی شکم پروری کا ضامن بنا ہوا تھا اپنے وجود کو بچانے میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا تاکہ اپنی رہی سہی ساکھ کو برقرار رکھ سکے لیکن کلیسا بیچارہ اپنے سابقہ جرائم کے تناظر میں اندرونی طور شکست سے دوچار تھا۔کلیسا کی سائنس مخالف بہیمانہ رویہ نے مغرب میں ایک انقلابی ردعمل کو فروغ بخشا جس نے ریفارمیشن اور نشاۃثانیہ کو میدان عمل میں فعال کیا۔کئی صدیوں کے کلیسائی جبر و تسلط سے عوام کے اندر مذہب کے تئیں کوئی صحیح تصور نہیں تھا۔یورپ میں زندگی کے ہر شعبہ میں کلیسائی پادریوں کو آزادانہ دخل حاصل تھا۔علم و آگہی سے ظمن میں کلیسا کا رول عین چنگیز خان کا تھا۔کلیسا کے اس ظلم کے متعلق ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں "یورپ کے قرون وسطیٰ میں قائم ہونے والے تفتیشی محکموں اور تحقیقی عدالتوں ( Inquisition  of  Court) اور کلیسا کے کشتگان ستم کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے ان لرزہ خیز سزاؤں سے جو ان عدالتوں نے تجویز کیں۔آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں"۔یورپ میں دراصل مذہب شدید مخاصمت کا شکار تھا۔مارٹن لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک نے عیسائیت میں ایک تفریق پیدا کی جس سے ڈیڑھ سو سال تک یورپ مذہبی فسادات کی زد میں رہا۔مغرب میں اصلاحِ مذہب کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا سے منتقل شدہ سائنسی علوم نے ایک انقلاب پیدا کیا۔اس سائنسی انقلاب کے نتیجے میں جو مادی ترقی یورپ میں شروع ہوئی اس کا براہ راست مقابلہ مذہب سے پڑ گیا پھر کیا تھا کہ بلکہ ایک نا تھمنے والا الحادی ریلا آیا جس نے اکثر و بیشتر مغربی عوام کو مذہب بیزار بنا دیا۔
کیا وجہ ہے کہ آسمانی کتب کے حاملین میں وہ درماندگی پیدا ہوئی کہ یورپ کو خانہ جنگی کی دلدل میں ایک عرصہ دراز تک اپنا جسم پھانس کے رکھنا پڑا، خوفناک جنگیں لڑنی پڑی اور بے حیائی کی وہ نمائش کی کہ جانور بھی شاید جس سے شرما جائیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ مغرب میں مذہب نے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کی تھیں اور لوگوں کے سامنے مذہب کا ذکر چھڑتے ہی کلیسا کی عمارت اور پادریوں کا مذہبی لباس ذہن میں آتا تھا جس سے مذہب نہایت محدودیت کا شکار تھا۔اب جب فطرت کے راز کھلنے لگے تو لوگوں نے جہاں بڑے بڑے پہاڑوں، دریاؤں، بادلوں اور زمین کے گہرے اندھیروں میں کمند ڈالنے کی صلاحیت پائی تو کلیسا کو چیلنج کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ رہا۔
مغرب میں اس نام نہاد مذہب کا سائنس کے ساتھ معرکہ جو ایک دو صدی پر مشتمل رہا نہایت فیصلہ کن رہا جس میں سائنس فتحیاب ہوئی اور مذہب اپنی روایتی حیثیت کھو بیٹھا۔مغرب میں مذہب کی رہی سہی رکاوٹ کو ختم کر کے سائنس کی ترقی نے ایک الحادی ماحول پیدا کیا جس سے مغرب میں ایک مذہب بیزار معاشرہ وجود میں آیا۔مغرب میں آکر سائنس نے الحادی سفر شروع کیا اور ان مفکرین کے خیالات و تصورات کو امداد فراہم کی جو صرف مادیت کارجحان رکھتے تھے۔سائنس کے الحادی سفر سے مراد سائنس دانوں کا مادی کائنات کو حیات انسانی کا مرکز و محور اور ابتداء و انتہا سمجھنا۔سائنس بحیثیت ایک ٹول کے جس ہاتھ میں آئے اس کا استعمال اسی طرح ہوگا۔سائنس بذات خود انسان کو خدا سے غافل نہیں کرتی بلکہ انسان کا اس سے فائدہ حاصل کرنا اسے مذہب کی گرفت سے آزاد کرنے کا محرک بنتا ہے۔جیسے انسان کو جن صلاحیتوں اور انعامات سے نوازا گیا ہے انہی سے انسان فرمانبرداری اور نافرمانی کے کام انجام دیتا ہے اسی طرح سائنس بھی انسان کے لئے بحیثیت ِ ایک آزمائش اور نعمت کے خیر اور معاصی کے کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔مغرب نے سائنس کا استعمال الحادی نظریات، مذہب بیزار تصورات کو پھیلانے اور غیر فطری اعمال کی نمائش کے لئے استعمال کیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ سائنس جو اپنی ہر نئی ایجاد اور دریافت سے اللہ کی وحدانیت اور اسلام کی حقانیت کی تصدیق کررہی تھی مغرب اور پوری دنیا کے لئے ذریعہ نجات بنتی لیکن ناہنجار مغرب نے ان انکشافات سے ہدایت حاصل کرنے کے بدلے انسانیت کو خدا سے مزید دور کرنے کا مکرو فعل انجام دیا پھر ایسا ہواکہ مغرب نے سائنس کا جو بھیانک استعمال ابتداء سے کیا ہے وہ اس کے فساد ِ قلب ونظر پر دلیل اتم ہے۔جوں جوں مغرب میں سائنس نے اپنی شاہکاریاں دکھانی شروع کیں تو کم ظرف اور خود غرض مغرب نے سامراجیت کے دور کا آغاز کیا۔مغرب سے نکل کر ایشیائی اور افریقی مفلس ممالک پر قبضہ جمایا۔اس کے بعد خود ایک دوسرے کے ساتھ بھیانک جنگیں لڑیں جس میں کروڑوں کی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں پھر یہیں پر بات ختم نہ ہوئی بلکہ ہم تو ڈوبے ہیں سنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے کے مطابق دنیا پر مختلف طریقوں سے جنگیں مسلط کیں۔مغرب نے سائنس کے بل بوتے پر عیاشی کی تمام سہولیات دستیاب رکھیں اور شرم وحیا کی چادر کو اتار پھینکا۔ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیار اور نہایت تباہ کن آلات مغربی سائنس کی دین ہے جن کے متعلق یہ خدشہ برحق ہے کہ منٹ کے منٹ کیا ،سیکنڈوں میں پوری دنیا کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔مغرب میں سائنس نے مذہب سے مکمل جدائی حاصل کرکے ایک خطرناک راستے پر دنیا کو ڈال دیا ہے۔
اس کے برعکس سائنس جب مسلم دنیا میں متعارف ہوئی تو اس کے قدردان وہ پاک نفوس ٹھہرے جنہوں نے خالص انسانیت کی خدمت کے لئے حیرت انگیز ایجادات اور اکتشافات کئے۔مسلمان سائنس دان مذہب کے نہایت پابند تھے۔رازی، فارابی، ابن علی سینا، البیرونی، غزالی، الادریسی وغیرہ تمام کے تمام مذہب سے انتہا کا شغف رکھتے اور نہایت پاکباز زندگی گذارنے کے حامل تھے۔سائنس نے مسلمانوں کی دورِ عظمت میں عوام کو زندگی کے اصلی حقائق کی طرف متوجہ ہونے اور جاننے کا موقعہ دیا۔مسلم محققین علم کے ساتھ عمل کے  قائل تھے۔حکیم فارابی کہتا ہے؛ "جس شخص کا علم اس کے اخلاق و عادات کی اصلاح نہ کرے اور اسے سچا اور باعمل نہ بنائے! اس کا علم ناقص اور بیکار ہے وہ آخرت میں سعادت کا مستحق نہ ہوگا".اوپتھیلمالوجی کا مایہ ناز محقق ابن الہیثم نہایت درویشانہ زندگی گذارتا تھا۔حیاتیات کا ماہر، علم سماجیات اور معاشرت کا محقق اور علم نفسیات کا ماہر ِ خصوصی احمد بن محمد علی مسکویہ خدا کی ذات پر کہتا ہے؛"اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھنا انسانی عقل و فہم سے باہر ہے بھلا مخلوق انسان خالق کو کیا سمجھ سکتا ہے، اس کی عقل کی رسائی وہاں تک کیوں کر ممکن ہے۔اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو صرف مثالوں کے ذریعے عام لوگوں کو بتا اور سمجھا سکتے ہیں"۔شیخ ابن علی سینا حافظ قرآن اور قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والا بلند پایہ سائنس دان تھا۔شیخ نہایت عمدہ اخلاق کا مالک تھا، تضرع اور انکساری کا پیکر تھا۔علم اخلاق(Ethics)، روحانیت پر فلسفیانہ انداز سے بحث کرنے والا اور علم نفسیات کا محقق امام محمد بن احمد غزالی کے زہد و تقی اور خداترسی سے کون واقف نہیں۔بے شمار ایسے مسلم مشاہیر کے نام ہیں جو دینداری کے حقیقی نمونے تھے۔مریم جمیلہ لکھتی ہیں :"اسلامی تہذیب میں مثالی دانشور خالص ایک میدان کا ماہر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ وہ حکیم کے منصب پر فائز ہوتا تھا جس میں فلسفی، دانشور، محقق، درویش اور طبیب کی صفات موجود ہوتی تھیں "۔
یہ تو اسلام ہی کی دین تھی کہ قرونِ وسطیٰ میں سائنس مذہب کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور دیگر تمام علوم کی طرح سائنسی علوم نے بھی عزت و معیار اور اعلیٰ قدرو منزلت پائی تھی۔اس زمانے کی تاریخ کو پڑھ کر کوئی بھی مؤرخ سائنس اور مذہب کے آپسی معرکہ کے بارے میں سوچنے کی جسارت بھی نہ کر سکا کیونکہ سائنس بیچاری اس زمانے میں خود مذہب کی پیروکار تھی یعنی محقق اور سائنس دان مذہبی تھے۔اس کے برعکس مغرب کی گزشتہ دو تین صدیوں کی تاریخ کو دیکھ کر امریکی مصنف ویلیم ڈریپر کو معرکہ مذہب و سائنس(Covflict between Religion and Science) ایک مستقل کتاب لکھنی پڑی۔
(مضمون جاری ہے ۔ایک نئے پہلو کے ساتھ ایک اور قسط انشاء شائع کی جائے گی)