ساتویں صدی سے لیکر پندرھویں صدی تک سات سو سال پر مشتمل اسلامی تہذیب کا سنہرا دور پوری انسانی تاریخ میں بے مثال ہے۔اسی دور میں انسان نے "عروجِ خاکِ آدم" کا مستقل آغاز کیا۔اسی دور میں علم و حکمت نے بغداد، اسپین، سمرقند، ِبخارہ وغیرہ میں ترقی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قدردانی پائی۔اسی دور میں اگرچہ انسان نے چاند پر قدم نہ ڈالا تھا لیکن کرہ ارض کی تسخیر کا منصوبہ مکمل طور پر تیار کیا جس کے طفیل آج انسان چاند پہ جانے کے قابل ہوسکا۔اسی دور کو جدید ترقی کا پیش رو مانا جاتا ہے۔اسی دور میں مسلمانوں نے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جو پوری دنیا کا سائنسی مرکز تھا۔اسی دور میں بے شماز ذہانت و فطانت کے شاہکار پیدا ہوئے جو عالمانہ اور متقیانہ صفات کا مرکب تھے۔اسی دور کے متعلق جارج سارٹن ( Sarton George) نے اپنی کتاب 'سائنسی تاریخ کا ایک تعارف'(Introductio to the History of Science) میں لکھا ہے: "آٹھویں صدی کے نصف آخر سے لیکر گیارھویں صدی کے اختتام تک عربی زبان عالم انسانیت کی ایک سائنٹفک اور ترقی یافتہ زبان تھی۔اس دومسں چند شاندار ناموں کا ذکر کرنا افادیت سے خالی نہیں جن کے ہم پلہ مغرب میں اس وقت کوئی نہیں تھا۔جابر بن حیان، الکہوئیالخوارزمی، الفرغانی، الرازی، حنین ابن اسحاق، الفارابی، علی ابن عباس، التارابی، ابن سینا، البیرونی، ابن الہیثم، الغزالی وغیرہ.شاندار ناموں کی اس فہرست کو طویل کرنا مشکل نہیں۔اگر آپ سے کوئی یہ کہتا ہے کہ قرون وسطی سائنسی اعتبار سے پسماندہ تھا تو آپ صرف ان عظیم ناموں کا ذکر کریں جو ایک قلیل عرصے میں معروف ہوئے".اسی دور میں بغداد میں بیت الحکمت وجود میں آیا جہاں پہ علم و فن کے بے شمار خزانے دریافت کئے گئے۔اسی دور میں علم نے اپنا اصلی مفہوم انسان کے سامنے آشکار کیا اور باضابطہ تھیوری سے آگے بڑھ کر عملی باگ دوڑ سنبھالی۔مسلمانوں نے پہلی مرتبہ تجربے کو علمی میدان میں فیصلہ کن عنصر کے طور پر متعارف کیا۔یہ دور سائنسی ترقی کے اعتبار سے واقعی سنہرا دور تھا جب کہ یورپ اندھیروں میں بھٹک رہا تھا۔یورپ میں نشاۃثانیہ (Renaissance)کا آغاز مسلمانوں کی اس دور میں سائنسی ترقی کے سبب ہوا۔مسلم دنیا نے قرون وسطیٰ میں بے شمار ایسے نام پیدا کئے جن کی ٹکر کا مغرب میں اس زمانے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ تیرھویں صدی تک یورپ میں سائنسی علوم کا انتقال مسلم دنیا کے تین علاقوں سے ہوا :اسپین، جنوبی اٹلی کا سیسلی(Scicily) اور بیت المقدس کے آس پاس کا علاقہ۔ان تینوں میں سے اسپین ہی عیسائی دنیا میں عربی علوم کی منتقلی کا براہ راست ذریعہ بنا۔اسپین مسلمانوں کے دور حکومت میں علوم و فنون کے اعتبار سے ترقی کی بلندیوں پہ پہنچ چکا تھا۔مسلم اسپین کے دارالخلافہ قرطبہ میں واقع لائبریری میں چار لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں۔مسلمانوں نے اسپین کے عیسائیوں اور یہودیوں کو ترقی کے برابر حقوق دے رکھے تھے۔عیسائی مؤرخ ڈیوڈ سی لنڈبرگ( lindberg C David )نے لکھا ہے : "مسلمانوں کا دور حکومت اندلس کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ہماری اس تاریخ کے لئے کچھ اہم ترین حقائق یہ بھی ہیں کہ مسلمانوں نے یہودی اور عیسائی آبادی کا ایک کثیرحصہ نہ صرف برداشت کیا تھا بلکہ علمی اور حکومتی اداروں میں انہیں ایک نمایاں مقام سونپا تھا۔اندلس اس دور میں کثیرالسانی، کثیر النسلی اور کثیرالمذہبی ریاست بن چکا تھا"۔
انفرادی سطح پر عربی علوم کی نقلیں بے شمار صلیبی کارکنان، تاجر وں ، سفیروں اور پادریوں کے ذریعے یورپ میں پہنچ چکی تھیں۔یورپ میں مسلمانوں کی حیرت انگیز ترقی کے چرچے عام ہو چکے تھے جس کی وجہ سے یورپی علماء میں مسلم دنیا کی سیاحت کا اشتیاق پیدا ہوا۔یورپی اہل علم کے لئے قدرتی طور پر سب سے نزدیک اسپین پڑتا تھا اس لئے اکثر نگاہیں اسپین پہ ٹک گئیں۔بے شمار یورپی اور نسلی ہسپانوی اسکالرز نے عربی کتابوں کاترجمہ لاطینی اور عبرانی میں کیا۔یورپ سے آئے ہوئے اسکالرز نے عربی زبان سیکھی ، عربی کتابوں کا ترجمہ کیا اور بعد میں ان تراجم کو واپس اپنے متعلقہ علاقوں میں لے گئے۔ان غیر ملکی وغیر ہسپانوی علماء میں معروف فرانسیسی پادری جربرٹ (Gerbert) قابل ذکر ہے۔جس نے 967ء میں حصول علم کے لئے پیرینیز (Pyrenees) پہاڑی سلسلے کو پار کرکے اسپین میں قدم رکھا۔اسپین میں اس نے عربی ریاضیات اور فلکیات میں کافی مہارت پیدا کی۔کئی سال قیام کرنے کے بعد جربرٹ نے اسپین سے واپسی پر شمالی فرانس کے ریمس میں ایک کیتھیڈرل (Cathedral) اسکول میں منطق کا طالب علم ہونے کے طور پر داخلہ لیا اور بعد ازاں وہیں پر ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہوا۔جربرٹ نے کئی کتابوں کا ترجمہ کرکے یورپی لوگوں کے لئے حصول علم کے مواقع آسان کئے۔بعد میں یہ شخص ترقی کرتے کرتے پوپ کے عہدہ ( Second Sylvester Pope )پر فائز ہوا۔جربرٹ نے مغرب کی نشاۃ ثانیہ میں ایک اہم ترین رول ادا کیا ہے۔ڈیوڈ لنڈبرگ اپنی کتاب "مغربی سائنسز کا آغاز"(The beginings of Westen Science) میں لکھتا ہے :"المختصر جربرٹ نے استاد اور پوپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بااثر منصب کو استعمال کر کیمغرب میں ریاضیات کوفروغ دینے کیساتھ عیسائی یورپ اور مسلم دنیا کے مابین سائنسی تبادلے کو ممکن بنایا ۔"اس طرح سے مسلم دنیا سے یورپ کی طرف انتقالِ علوم و فنون کا آغاز ہوا۔
اس کے علاوہ جب گیارہویں اور بارھویں صدی میں اسپین پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو اسپین میں مسلمانوں کا علمی ورثہ عیسائیوں کے ہاتھ لگ گیا۔1085میں عیسائیوں کے ہاتھوں جب سقوطِ طلیطلہ(Toledo) واقع ہوا تو اس شہر کے علم وفن اور تہذیب و تمدن کی ذرخیزی نے شمالی یورپ کے ویلز (Wales) اور اسکینڈیوینیاسے معروف مترجم جریرارڈ آف کریمونا (Gerard of cremonia) کا استقبال کیا۔1140ء کے آس پاس اس نے جنوبی اٹلی سے اسپین کا رخ کیا۔اسپین میں آکے اس نے عربی زبان سیکھی اور 30یا 40سال کے اندر تقریباً 80کے قریب عربی کتب کا لاطینی ترجمہ کیا۔ان تراجم میں یوکلیڈ (Euclid)کی ایلمنٹس،الخوارزمی کی الجبرا، ابن سینا کی کینان آف میڈیسن (Canon of Medicine) قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ بے شمار کتابوں کا ترجمہ کرکے یورپی علماء نے اپنے اپنے وطن کو علم کی تحریک فراہم کی۔اس ترجمے کے عمل کے دوران کئی عربی الفاظ کو یورپی زبانوں میں استعمال کیا جانے لگا۔جیسے الکیمی(Alchemy)،الکھول(Alcohol) ،ٹَریف(Tariff) وغیرہ۔
مسلمانوں کا رول
یورپ نے مسلمانوں سے علم وفنون سیکھے ، تہذیب وتمدن کے اصول سیکھے،آزادی کا تصور سیکھا، عقل ومنطق کے اسراررموز معلوم کئے۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ مسلمانوں کی مرہون منت ہے۔مسیولیٹری لکھتے ہیں کہ "اگر تاریخ میں عرب منصہ شہود پر نمودار نہ ہوتے تو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن مین یورپ کی بیداری کئی صدی اور موخر ہوجاتی۔‘‘ بریفالٹ اپنی کتاب’’ انسانیت کی تعمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ "عربوں کے بغیر جدید یورپی تہذیب کا ارتقاء ناممکن تھا۔یورپی تہذیب کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں پر عربی موئثرات کی نشاندہی نہ کی جاسکے "۔پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے:"میڈیول یورپ کی علمی تاریخ میں مسلم اسپین نے شاندار اسباق رقم کئے ہیں۔آٹھویں صدی سے لیکر تیرھویں صدی تک پوری دنیا میں تہذیب و تمدن کی مشعل بردار عربی مسلمان ہی تھے۔ان ہی کے ذریعے قدیم علوم و فنون محفوظ ہوئے اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ ممکن ہوا"۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا بانی روگر بیقن (Bacon Roger ) نے کہا تھا کہ اسلامی علوم ہی حقیقی علم کا ذریعہ ہیں اور اسی بیقن کو ایم۔این روی(M.N.Roy) نے اپنے مضمون 'اسلام کا تاریخی رول'میں مسلمانوں کا شاگرد کہا ہے۔
(مضمون جاری ہے ۔ایک نئے پہلو کے ساتھ اگلی قسط انشاء اللہ اگلی سوموار کو شائع کی جائے گی)