ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی روایت بہت پرانی ہے ،خاص طور پر گھر کے بڑے بزرگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خاندان کے تمام افراد ایک ساتھ رہیں،اسی وجہ سے اکثر لوگ اپنے بزرگوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس روایت کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،اس نظام سے مراد وہ گھر ہے جہاں ساس ،سُسر ،بیٹے ،بیٹیاں اور بہویںوغیرہ ایک ساتھ رہتے ہوں۔موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے ،ہر چیز اپنی اصل اہمیت تبدیل کررہی ہے لیکن مشترکہ خاندان کی یہ روایت آج بھی بہت سارے خاندانوں کی زندگی کا لازمی جُز ہے،مگر بہت سے افراد اس سے بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔یہ نظام زندگی اس لحاظ سے یقیناًاچھا ہے کہ اس سے خاندانی روایات کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے ،لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوا کرتے ہیںگو کہ آج کی نسل زیادہ سمجھ دار اور باشعور ہے ،مگر جب معاملہ برداشت اور دلوں میں گنجائش کا آتا ہے تو ہم روز بہ روز اس سے محروم ہوجاتے ہیں،اسی لئے دِلو ں میں رنجشیں بڑھتی جارہی ہیں ،بھائی اپنے بھائی کے ساتھ رہنے پر رضامند نہیں ،اور جہاں آج یہ نظام رہ گیا ہے وہاں بھی چپقلش جاری ہے۔کہیں ساس ،بہو میں نہیں بنتی تو کہیں نند اور بھاوج دشمن بنی ہوئی ہیں،کسی گھر میں جیٹھانی دیور انی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔غرض یہ کہ آپس میں نا اتفاقیاں ،لڑائی ،جھگڑے بڑھتے جارہے ہیں ،جس کی وجہ سے بڑی تیزی سے مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹتا جارہا ہے۔اس نظام کے ٹوٹ پھوٹ کی ایک بڑی وجہ مالی وسائل اور آپس کے اختلافات ،عدم برداشت اور عدم تعاون ہے جس کی بنیاد پر ہمیں آج وہ خاندان نظر نہیں آتے جو کبھی مثالی کہلایا کرتے تھے۔خاندان چاہے چھوٹا ہو یا بڑا،اسے جوڑنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔سماجی رویوں ،بے حسی اور خود غرضی ختم کردیں ،جس کے باعث آج ہمیں ایک ہی خاندان کے لوگ مختلف خاندانوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔ضروری ہے کہ آپس میں محبت اور مثبت رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے برداشت سے کام لیں۔
زمانہ کی بڑھتی ہوئی مادی ترقی ،دولت کی ہوس اور نمود و نمائش نے خون کے رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں،ساتھ رہنے کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے ہر شخص اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر خوش ہے۔حالات اس ڈگر تک پہنچ گئے ہیں کہ آج کل کی بہوئویں شادی کے فوراً بعد الگ گھر کا مطالبہ کردیتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نئے گھر میں بہو کے لئے اتنے سارے رشتوں کے ساتھ گزارا کرنا بہت ذمہ داریوں کا تقاضا کرتا ہے ،اگر صبر و تحمل سے کام نہ لیا جائے تو ہر گھڑی ایک نیا امتحان لاتی ہے ،مگر یہی وقت ہوتا ہے جب کسی بھی لڑکی کی ماں کی بہترین تربیت کام آتی ہے اور وہ بہ حسن و خوبی نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ٓہوتی ہے بلکہ وہ اچھی بیوی ،بہو اور بھاوج بن کر سسرالیوں کا بھی دِل موہ لیتی ہے ۔اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو بگڑنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔
مشترکہ خاندانی نظام میں بہوئوں سے سسرال والوں کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں ۔بعض اوقات تو ان پر شوہروں کی طرف سے یہ دبائو ہوتا ہے کہ وہ فوری طور ان کے گھر کے طور طریقے اپنالیں ۔کچھ گھروں میں یہیں سے مسائل کی ابتدا ہوجاتی ہے ،ایسے گھرانوں کو سوچنا چاہئے کہ بہو بن کر آنے والی لڑکی بھی ایک نئے ماحول میں آئی ہے ، اسے خود کو اس ماحول سے ہم آہنگ کرنے میں تھوڑا وقت تو ملنا چاہیے۔اگر ایسا نہ ہو تو شوہر کو اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کو اس امر پر راضی کرنا چاہئے کہ وہ اس کی نصف بہتر کو نئی توقعات پر اترنے کے لئے کچھ وقت دیں ۔موجودہ دور میں اگرچہ مشترکہ خاندانی نظام تیزی سے قصہ ٔ پارینہ بنتا جارہا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مشترکہ خاندانی نظام نسلِ نو کو ایک اعتماد بخشتا ہے،بچوں کو اپنے بزرگوں کی صحبت میسر آتی ہے ۔والدین کے ساتھ رہنا اس دور میں ایک سعادت ہے۔ساتھ رہنے میں جہاں کچھ مشکلیں ہیں ،وہاں بہت ساری آسانیاں بھی ہیں ۔اگر گھر میں کسی سے اختلاف رائے ہوجائے تو گھر کے بڑے معاملہ فہمی کے ساتھ اس کو حل کردیتے ہیں،ایک دوسرے کے مسائل کی بھی خبر رہتی ہے اور وقت پڑنے پر مدد بھی کی جاتی ہے ۔طلاق کا رجحان بڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ مشترکہ خاندانی نظام سے دوری ہے کیونکہ میاں بیوی کے درمیان اختلافات بڑھتے بڑھتے شدید جھگڑے کی نوعیت اختیار کرلیتے ہیں۔
معاشرتی سہولیات کے ساتھ اس مہنگائی کے دور میںگھر کا بوجھ کسی ایک شخص کے کاندھے پر نہیں ہوتا بلکہ سب مل جُل کر بار اٹھا تے ہیں ۔رشتے داروں کے درمیان باہمی اتفاق پایا جاتا ہے ،جب کہ انفرادی طور پر رہنے والوں کو روز گار کی پریشانیوں کے ساتھ بعض اوقات گھریلو مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں ،جب کسی بھی فرد پر کوئی مشکل آتی ہے تو سارے گھر والے اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں ۔ہمارے بکھرتے ہوئے اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے زیادہ قربانیاں گھر کے بڑوں خصوصاًسا س سُسر کو دینا پڑیں گی کیونکہ اگر وہ اپنی عقل مندی اور معاملہ فہمی سے چھوٹوں کی نادانیاں خصوصاً بہو کی غلطیوں کومعاف کردیں تو یہ نظام ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے۔
بہو اور بیٹی کے درمیان فرق روا رکھنے والے والدین پیار بھرے رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ساس ،بہو ایک دوسرے کے مخالفین بننے کے بجائے ایک دوسرے کا سہارا بنیں ،گھر کی عزت پر حرف نہ آنے دیں ۔بہو کو چاہئے کہ وہ سا س سُسر کو اپنے والدین کی جگہ رکھ کر سوچے تو اس کا دل خود بخود ان کی فرمان برداری کرنے لگے گا۔اہل خانہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والی لڑکی کو کھلے دِل سے قبول کریں۔اس کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کی تعریف کریں،اس سے دلوں میںایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا ہوگی ۔اگر بھابی کی کسی بات سے دکھ پہنچے یا دِل برا ہو تو چار لوگوں میں بیٹھ کر اس کا مزاق اُڑانے یا اس پر طنز کرنے کے بجائے الگ بٹھاکر بات کی جائے تاکہ دِلوں میں رنجشیں پروان نہ چڑھیں ،گلے شکوے طول پکڑنے سے قبل ہی ختم ہوجائیں اور مشترکہ خاندنی نظام کسی گُل دستے کی صورت برقرار رہے۔