مشتاق مہدی کا افسانوی مجموعہ۔’’آنگن میں وہ ‘‘

کشمیر میں اردو افسانہ آج کامیابی کے جس پائیدان پر ہے ،اس کو یہاں تک پہنچانے میں جن انشا پروازوں نے قلم کی جولانیاں دکھائیں۔ اُن میں مشتاق مہدی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ مشتاق مہدی پانچ دہائیوں سے اردو اور کشمیری ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔پہلے مشتاق احمد مشتاق کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے،1977 ء میں یہ نام ترک کرکے مشتاق مہدی رکھ لیا۔ مشتاق مہدی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزلوں اور ڈراموں کے علاوہ ٹی وی سریل بھی لکھے ہیں لیکن بطور افسانہ نگار ادبی حلقوں میں پہچان بنائی۔ اب تک آپ کے دو افسانوی مجموعے مٹی کے دِیے  1975ء ( یہ افسانوی مجموعہ تین دوستوں نے مل کر شائع کیا تھا اور اس مجموعے میں مشتاق مہدی کے علاوہ سید یعقوب دلکش اور غلام نبی شاہد کے افسانے بھی شامل ہیں) اور’’ آنگن میں وہ‘‘2010ء میں شائع ہوچکا ہے۔
’آنگن میں وہ‘ کو مہدی پبلی کیشنز ملہ باغ حضرت بل سرینگر نے چھاپا ہے۔ مجموعے کا انتساب ’’ تاریک رات کے ان مسافروں کے نام جو راہ میں کھو گئے اور ان آنکھوں کے نام ،جو سحر کے انتظار میں بیدار ہیں‘‘ کے نام کیا گیا ہے۔کتاب میں کل اکیس افسانے شامل ہیں۔پہلا افسانہ ’رنگ ‘اور آخری’ میرے دوست‘ ہے۔’’ایک نظر‘‘کے عنوان سے ابتداء میں پروفیسر حامدی کاشمیری نے مختصراً مشتاق مہدی کی افسانہ نگاری پر ایک نظر ڈالی ہے۔مشتاق مہدی کی افسانہ نگاری کے حوالے سے پروفیسر حامدی کاشمیری اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’ ان کے افسانے روایتی اور سکہ بند افسانوی آداب سے ایک حد تک احتراز کرکے افسانے اور افسانوی تجربے کے مطابق افسانوی تکنیک کو برتتے ہیں۔ان کے لئے یہ اختراعی رویہ برتنا اور اسے جاری رکھنا آسان نہ تھا۔ذرا بھی لاپرواہی یا غفلت سے افسانہ ، انشائیہ بن کر رہ جاتا یا ادبِ لطیف کا کوئی مسترد کردہ نمونہ قرار پاتا ۔ان کے بیشتر افسانے فن کے پل صراط سے گزرتے ہیں۔‘‘
’’پہلی بات‘‘ کے عنوان سے مصنف نے اپنے ادبی سفر کے آغاز کے بارے میں خامہ فرسائی کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ میری پہلی کہانی’’ کمینہ ‘‘ کے عنوان سے  1974ء میں بمبئی فلم سنسار میں شائع ہوئی ہے۔ساتھ ہی مصنف نے کہانی کے ارتقاء ، اسلوب  اور ’’ میں کیوں لکھتا ہوں ‘‘ سوال کا جواب بھی لکھا ہے۔
’آنگن میں وہ‘ میں مشتاق مہدی کہیں ’رنگ ‘سے مہدی کا رنگ چڑھاتے ہیں اور فضا رنگین کرتے ہیں تو کہیں مرد کی مجبوری اور بے بسی کو بزدلی کا نام دیتے ہیں۔ان کے یہاں’’ دیوتا ‘‘بھی ہے ،’’مندر کے اندر کا رقص‘‘ بھی اور ’’عبادت ‘‘بھی۔۔۔’’پیاسا‘‘ شخص جب زندگی کی’’ کشمکش‘‘ میں مبتلا ہوکر زندہ ’’لاش‘‘ بن جاتا ہے تو اس کی ایک ہی خواہش رہتی ہے کہ وہ ’’ نروان‘‘ حاصل کرے۔پیاس سے نروان تک کا سفر مشتاق مہدی کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔’’آخری کتاب‘‘ میں جب کوئی قاری محبت کی کہانی پڑھتا ہے تو اس کے دل سے آدھی ادھوری آہ نکلتی ہے کہ’’ اے محبت تیرا انجام‘‘ ۔ جب ’’ کوا ‘‘من کے آنگن میں بولنا شروع کردیتا ہے تو قاری ضرور سوچتا ہے کہ ’’ سچ کیا ہے؟۔’’میرا لال‘‘  جب ’’جنگل کا قیدی‘‘ ہوجائے تو ’’میرے دوست‘‘ چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور رہائی کے بعد ’’ آنگن میں وہ‘‘ سارے لوگ جمع ہوجاتے ہیں جن کو اس ’’ کہانی ‘‘ سے دلچسپی تھی۔افسانوی مجموعے ’’ آنگن میں وہ ‘‘ میں داستان جیسی طلسماتی دنیا بھی ہے اور حقیقت نگاری کے رنگ بھی،یہاں مکالماتی انداز بھی ہے اور کہانی پن بھی۔زندگی اور اس کے گوناگوں مظاہر کی ترجمانی ، شعور اور لاشعور کی جھلکیاں کسی روایتی اور حتمی اسلوب میں بیان نہیں ہوئی بلکہ کہیں اختصار ہے تو کہیں ایجاز ، کہیں علامت، تہہ داری اور کہیں راست بیانی سے کام لیا گیا ہے، کہیں نشانیاں ہیں جو معنی تک لے جاتی ہیں تو کہیں خود بخود معنی کے پھول کھلتے نظر آتے ہیں۔کہیں تجربہ ہے تو کہیں مشاہدہ ،کہیں روایت کی پاسداری ہے تو کہیں بغاوت کی علم لہرا رہی ہے، یہاں جدا اسلوب بھی ہے اور نرالاو منفرد اندازِ بیان بھی۔
’آنگن میں وہ ‘میں زندگی کی مختلف کیفیات دکھ درد ،مسرت بخش ایام ، روشنی ،تاریکی ، یگوں کی داستان ، روح کی اداسی ، محرومیوں ، تلخیوں ، زیادتیوں ، انسان کی بے بسی ، دل کی   باتوں اور معاشرے کے حالات کو فن کا لبادہ اوڑھ کر بیان کیا گیا ہے۔یہاں مخصوص نظریہ بھی ہے اور خاص پیغام بھی ۔افسانہ شکر بابا میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انسان خود غرض سہی بے ضمیر اور بے حس نہیں ہے۔ بھلائی کے کام کرنے والے کو پہلے مشکلات کا سامنا رہتا ہے لیکن بعد میں اس کی محنت رنگ لاتی ہے ۔بدلاؤ بھی فطری ہے اور یہ مختلف طبقوں کی رائے میں بھی آتا ہے۔ایک وقت میں جس فرد کو وہ دشمن سمجھتے ہیں دوسرے لمحے محسن مانتے ہیں۔ جو پیار ،محبت اور اخوت کا پیغام دیتا ہے اس کی سراہنا ضرور ہوتی ہے۔شکر بابا کچھ عرصے بعد کندھے پر شکر کی بوری لئے نمودار ہوا۔کبھی شہر کے بڑے چوراہے پر نظر آتا تو کبھی سڑک یا گلی میں۔اس کا موڈ اچھا ہوتا تو گا گا آواز لگاتا، شکر لے لو ، میٹھا شکر ،مفت میں۔ وہ بلا مذہب و رنگ شکر تقسیم کرتا۔سیاست دان اُسے جاسوس کہتےاوردانشور ڈھونگی ، فلسفی خاموش تھے۔ بڑے بزرگ اُسے جعلساز گردانتے ، جوان حسیناؤں کا موقف تھا کہ شکر بہانہ ہے اصل میں ہم پر دانا پھینک رہا ہے۔ مائیں بچوں کو تاکید کرتی کہ اس کے پاس نہ جانا، وہ بوری میں بھر کر لے جائے گا لیکن شکر بابا اپنی دھن میں مست تھا،دن بھر شکر بانٹتا اور شام کو خدا کا شکر بجا لاتا کہ جس کے مقدر میں جو دانا تھا اُس تک پہنچا دیا۔
موسم بدلا تو لوگوں کی رائے بھی بدل گئی۔سیاست دانوں نے شکر بابا کو انسانیت کا دوست اور محبت کا علم بردار مانا، دانشوروں نے ایک نیک ، مہان انسان اور درویش کہا، بزرگوں نے سخی کہا اور حسیناؤں نے ایک مہربان جانا۔ایک روز جب شکر بابا نیند سے بیدار ہوا تو نظر شکر کی بوری پر پڑی جو قریب قریب خالی ہونے والی تھی تو سوچنے لگا کہ لگتا ہے اس شہر کو چھوڑنے کا وقت آگیا ہے۔شکر کی بوری کندھوں پر اُٹھائی اور آخری دانہ تقسیم کرنے کے بعد مسرت اور اطمینان سے شہر کو دیکھنے لگا جو اسے اپنا سا اور پیارا لگا۔اس نے بوری بغل میں چھپائی اور چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ شہر سے نکل پڑا۔کچھ دور جاکر اسے خیال آیا کہ جانے لوگ کہاں گئے، بھیڑ بھاڑ کہاں گئی،ساتھ ہی خود کو تسلی دی کہ مجبور انسان کام میں مشغول ہوں گے۔وہ حیران تھا کہ دانشوروں اور سیاست دانوں کی آنکھوں میں اجنبیت کیوں جھلکتی ہے، ماؤں نے بچوں کو اندر چھپایا، عورتیں بدلی بدلی نظر آتی ہیں، شہر والوں کی بے حسی اور بے رخی سے اسے گہرا زخم لگا۔وہ جلد اس بے وفا شہر کو چھوڑنا چاہتا تھا ۔جب شہر کے آخری موڑ پر پہنچا تو ایک آواز اس کے کانوں تک آئی ۔ وہ اس پر خوش ہوا کہ انسان خود غرض سہی لیکن بے ضمیر اور بے حس نہیں، وہ اپنے محسن کو یاد رکھتا ہے۔
’آنگن میں وہ ‘میں اپنے آنگن کے حالات کو موضوع بنایا گیا ہے اور ’’ وہ ‘‘ کی تخلیق سے لے کر قضا تک کا سارا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہاں حقیقت کی دنیا کو فنکاری سے تخلیق کیا گیا ہے جس میں لوگوں کے دکھ درد ، مسائل ، پریشانیاں اور مصیبتوں کا بیان ملتا ہے۔کشمیر میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر فرد کو اپنی شناخت قدم قدم پر ثابت کرنی پڑتی ہے۔غیر مقامی افراد کو شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے۔ اس موضوع کو مشتاق مہدی نے ’’سچ کیا ہے؟‘‘ میں بیان کیا ہے۔ جس کا مرکزی کردار اشفاق سرحد پار اپنے رشتہ داروں سے مل کر آرہا تھا۔ اپنی دھرتی میں پہنچ کر اُسے شناختی کارڈ دکھانا پڑا اور سامان کا معائینہ کرانا پڑا۔چیکنگ کرنے والا غیر مقامی، اشفاق سے سوال کرتا ہے کہ کیسا رہا پاکستان کا سفر، تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں پاکستان نہیں بلکہ آزاد کشمیر گیا تھا۔بنگالی آفیسر سے اشفاق نے کہا کہ میں چکوٹی ، مظفر آباد اور راولا کوٹ گیا، میری کوئی چیکنگ نہیں ہوئی،وہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ یہاں ہی یہ مصیبت اور عذاب ہے کہ ہر نکڑ ،ہر گلی کوچے میں چک پوسٹ لگے ہیں۔مجموعے میں علامتی طرز بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور بیانیہ انداز بھی۔افسانوں کی زبان دلکش ہے، تخلیقی جملے پڑھ کر لطف بھی آتا ہے اور معنی کی نئی نئی پرتیں بھی کھلتی ہیں ۔ہندی کے الفاظ کا جملوں میں استعمال نہایت دلکش ہے۔مجموعے میں املا کی غلطیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں ،جن کو دوسرے ایڈیشن میں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو آنگن میں وہ میں کچھ بہترین افسانے جن میں کلیدی کہانی آنگن میں وہ ، شکر بابا ، کوا، نروان ، جنگل کا قیدی ،کہانی ،میرے دوست، شامل ہیں جو اس مجموعے کی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔
(رابطہ:-8493981240)