سوا پانچہزار برس قبل جب سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ کی بے آب وگیاہ سرزمین میں خدا ئے واحد کی نشان زدہ جگہ پر ایک مرکز عبادت کی بنا ڈالی، جب سے اب تک برا بر خشکی و تری میں شعور کی آنکھ کھولنے والے ہر خو ش نصیب اہل ایمان کی سب سے بڑی تمنا اس بیت عتیق کی زیارت اور اس کے گرد پروانہ وار گھومنے کی ہے۔ آخر کیوں نہ ہو، مقدس گھر کی تعمیر کی تکمیل کے ساتھ ہی رب جلیل کا سیدنا ابراہیم ؑ کو یہ حکم دینا کہ ’’اور لوگوں میں حج کی منادی کردے لوگ تیرے پاس پاپیادہ وہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دوردراز کی تمام راہوں سے آئیں گے اور (الحج ۲۷)۔کوہ بوقیس سے یہ صدائے ابراہیمی ؑ گونجی اور پھراسے اللہ کی بے پا یا ں عطا و کرم سمجھئے یا پیغمبرانہ صدا کا اعجاز کہئے کہ سوا پانچ ہزار سال سے پورے تواتر اور جو ش و جذبے کے ساتھ سفر کی صعوبتیں اور بے شمار مال و زر کی صرفہ کے ساتھ ہزاروں لاکھوں قافلے ہر سال اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے رواں دواں ہوتے ہیں۔ مشتاقانِ دید کے یہ قافلے پورے جذب و شوق کے ساتھ جون ، جولائی اور اگست کی چلچلاتی دھوپ میں بھی چلتے ہیں اور دسمبر جنوری کی ہوش ربا ٹھنڈ میں بھی، امن وراحت کے ایام میں بھی اور جنگ و جدل کے اوقات میں بھی ۔ ان قافلوں کو نہ صلیبیوں کے لشکر روک پائے ہیں اور نہ قرامطہ جنہوں نے مطاف تک کی سرزمین کو خون سے تربتر کردیا اور نہ مغول جو تیز و تند آندھی کی طرح ہر شے کو تہس نہس کرگئے۔ کروڑوں اربوں انسان آج تک اس گھر کی زیارت سے مستفید ہوکر آسودۂ خاک ہوگئے اور ان میں سے لاکھوں بقید حیات اس عنایت کی دوبارہ عطائیگی کے لئے گریہ کناں ہیں۔ اسے اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہی کہئے کہ اس بند ۂ حقیر و نا چیز کو ماضی ٔ قریب میں دومرتبہ اس سفر سعاد ت کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پہلی بار دنیائے اسلام کے معروف ادارے رابطہ عالم اسلامی کی وساطت سے خصوصی دعوت پر اللہ جل شانہ نے اپنے گھرکی زیارت کے لئے بلایا۔ بلاواعجلت میں تھا عجلت میں ہی رختِ سفر باندھا ،مزید تین اور ساتھی اس خصوصی دعوت پر رفیق ِسفر بنے رہے۔ رابطہ نے بڑی شاہانہ انداز کی مہمانداری کی ہر بات کا خیال رکھا، رابطہ کے گیسٹ ہاوس میں قیام ،طبی سہولیات کی فراہمی، ٹرانسپورٹ کا شاندار بندوبست اور خوردونوش کا اعلیٰ اہتمام کہ سوچا تک نہ تھا کہ مولا ئے کریم اس عاصی پر قدر آمادہ بہ کرم ہوگا۔ روانگی بڑی عجلت میں ہوئی تھی اور پروگرام کچھ اس انداز سے ترتیب پایا تھا کہ واپسی بھی بڑی جلدی یعنی صرف کوئی بیس دن کے اندر اندر ہوئی ۔ تشنگی باقی تھی ، ربِ کعبہ سے واپسی کے موقعے پر پھر بلانے کی وجدانگیز دعائیں کیں ۔ انہیں شرف قبولیت حاصل ہوچکا تھا اور مائل بہ کرم مولا نے ماضیٔ قریب میں پھر سفر محمو د پر بلایا۔ قرعہ اندازی کے عمل میں قرعہ فال مجھ حقیر وکم ما یہ شخص پر بھی پڑا۔ اس مرتبہ میری اہلیہ اور کچھ اور رفقاء بھی ہمراہ تھے ۔ خوشی سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور مسرتوں نے کئی راتوں کی نیندیں اُڑالیںاور پھر وہ دن آہی گیا جب اقبال مندانِ ازلی کے ایک قافلۂ شوق کے ساتھ سرینگر کے طیران گاہ سے سوئے حرم روانگی ہوئی۔ عجب کیفیت اور مسرتوں کا عالم یہ تھا کہ اسے بیا ن کر نے میں الفاظ کا پہناوا شاید برابر نہ آسکے ۔ طیارہ فضا میں اڑنے لگا کہ دل بھی اڑاجارہا تھا۔ مقام میقات پر پہنچنے میں ابھی کوئی دس منٹ کا وقت باقی تھا کہ ایک ائیرہوسٹس نے یہ کہہ کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اٹھئے آپ کو اندر کیبن میں بلایاجارہا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے بھلا کیبن میں کون سا کام اور کیا رشتہ داری ؟ اندر چلاگیا تو پیغام ملا کہ میں ہی جہاز میں نصب مائک کے ذریعے حجاج کرام کو مقام میقات پر پہنچے اور یہاں سے قرآن و سنت کی روشنی میں ان پر عائد لو ازما ت اورآداب سے انہیں آگاہ کردوں۔ اسے بھی خدائے رحیم ورحمان کی عنایت سمجھ کر مائک ہاتھ میں لے کر عازمین حج کو احرام اور اس حوالے سے عائد پابندیوں، شرائط اور آ داب عمرہ اور زیارت بیت اللہ کے مناسک کی ادائیگی کے اسباق کی یاد دہانی کے ساتھ اس عظیم سفر کے حکمت وفلسفہ سے کما حقہ آگاہی دلائی۔ کعبہ ، اس کی تاریخ ،اس کے ساتھ ہمارے اٹوٹ رشتے کو واضح کیا تو ماحول انتہا ئی روح پرور بن گیا ۔ ہر سو سسکیوں اور ہچکیوں کی آ واز یںصاف سنائی دے رہی تھیں اور یوں اشکباردعاؤں کا سلسلہ چل پڑا کہ زائرین حرام داڑھیں مار مار کر روتے نظر آئے۔ میرا اپنا حال تو ناقابل بیان تھا۔ اب ہم کعبۃ اللہ کے قریب تھے۔ آنسوپونچھے جانے لگے ،اس لئے کہ ان آنسوؤں سے اب زمین حرم ، منیٰ و عرفات کو تر بہ ترکردیناتھا۔تلبیہ کی صدائیں گونج رہی تھیں، طیارہ فضا سے نیچے جدہ ائیرپوٹ پر اترا، نماز کی ادائیگی طیران گاہ پر ہوئی، سفری دستاویزات چیک کئے گئے کچھ خوردونوش کا سامان دیا گیااور آرام دہ گاڑی میں سوار ہوکر سوئے منزل رواں دواں رہے۔ راستے میں عربوں نے روایتی انداز میں مہمان نوازی کی ریت کو قائم رکھا۔ حدود حرم میں داخل ہوئے تو دل سینوں میں نہیں بلکہ آ نکھو ں میں رقصاں ہو ئے ، کعبۃ المکرم سے پانچ یا چھ کلو میٹر دور بطحا قریش کی تعمیر شدہ نئی اور عالی شان بستی میں پروگرام کے مطابق ایک شاندا ہوٹل میں ڈیرہ ڈال دیا۔ عشاء کی نماز کی ادائیگی ہوئی، کچھ سستانے بیٹھ گئے مگر دل بیٹھنے پر آمادہ نہ تھا۔ ادائیگیٔ عمرہ کے لئے سوئے حرم چل پڑے۔ اس جانب بڑھنے والا ہر قدم جذب و شوق میں اضافہ کئے جارہا تھا۔ کعبہ وحرم کے دروبام صاف نظر آنے لگے کہ عجیب کیفیت طاری تھی جو بیان سے باہر ہے۔
دُنیا کے مختلف خطوں سے آئے امیر و وزیر و فقیر سبھی ایک ہی لباس میں حرم کو دور سے دیکھتے ہی زار و قطار رورہے تھے اور اب وہ ساعت سعید آہی گئی جب ہم حرم کعبہ میں داخل ہوئے۔ کعبہ شریف پر پڑنے والی پہلی نگاہ نے تو دنیا و مافیہا سے بے خبر کرکے رکھ دیا، میں پسینہ پسینہ ہورہا تھا اور ماتھے سے عرقِ ندامت کے قطرے مسلسل ٹپک رہے تھے اور آنکھیں تھیں کہ اشکوں کا ایک نہ رُکنے والا سیلاب بہار رہی تھیں۔ تلبیہ کا عمل بندہوا کہ یہی حکم ہے اور حکم کی تعمیل ہی عبادت ٹھہری اور حج و عمرہ کے دوران ہر رکن کی ادائیگی کا مقصد ہی بس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ حکم کے سامنے کسی کی کج بحثی اور کٹ حجتی نہیںچلتی ، کسی چیز کی حکمت قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھ میں آئے توخیر ،نہیں تو اپنی کوئی تاویل کا کوئی اختیار و اعتبار نہیں ۔ بس حکم جان کر تعمیل کیجئے، حج کی تکمیل ہوگی۔ یہاں سب خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قواعد و ضوابط چلتے ہیں ،محض نا قص عقل کی ضرورت سے زیا دہ رہنما ئی یا عشق و محبت کے نام پر کوئی اپنی اختراع حج کے سارے عمل کی قبو لیت میں سنگ گراں پیدا کردیتی ہے۔ ہاں، میں کعبہ شریف کو اپنی گناہ گا ر آنکھو ں سے دیکھتا جا رہا تھا،آنکھیں اشکبار تھیں، اپنی سیاہ کاریوں اور بداعمالیوںکی سیاہ کتاب کا ورق ورق اور حرف حرف لرزہ بر اندام کئے دے رہا تھا، اب بس مشتاقانِ دید کے ساتھ مطاف میں کعبہ کے گرد گھومنے والوں کے سمندر میں کودنے کی تیاری کرہی رہاتھا کہ پھر ہچکیاں بندھ ہوگئیں اور لگ رہا تھا کہ سماعت سے یہ صداٹکرارہی ہے ؎
بطواف کعبہ رفتم بحرم ندا بر آمد
تو برون در چہ کردی کہ درون خانہ آئی
ہاں! صاف لگ رہا تھا کہ حرم ِکعبہ صرف مجھ سے مخاطب ہے :کہ اے راندۂ خلق! تو کون سا منہ لے کر یہاں آیا ہے؟ تیری یہ جرأت و جسارت ، اپنی ساری زندگی خدائے وحدہ لا شریک کی نافرمانی میں گزاری ،مادی مفادات کے لئے کون سی چھلانگ ہے جو نہ ماری، باطل و طاغوت سے تعلق و ربط بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ، دنیا کے ایوانوں، محلات اور دہلیزوں کی خاک بھی چھانی اور کوچہ گردی بھی کی، اب اس کوئے دلبر میں کون سا چہرہ لے کر آئے ہو!کتنے ڈھیٹ اور بے شرم ہو! صدا بر حق تھی، میں کچھ بھی بول نہ پارہا تھا ، پیکر شرمندگی و ندامت بن کے کھڑا رہا، قریب تھا کہ غش کھاکر گرجاؤں کہ واللہ صاف محسوس ہواکہ رحمت ِرحمان نے اسی طرح تھام لیا جیسے کوئی ما ں اپنے شیرخوار بچے کی شرارتوں اور بچگا نہ حر کات کو نظرا نداز کر کے اس کا بو سہ لیتی ہے، دل کو ایک ناقابل تصور تسلی سی ہوئی کہ میں گناہ گارخود نہیں آیا ہوں بلایاگیا ہوں، گناہوں کے اعتراف اور بخشش کیلئے ہی میں طواف کرنے والوں میں شامل ہوگیا، عصیاں و نسیاںسے معافی کی بار بار درخواستیںکیں، بہتی آنکھوں کے ساتھ امت مسلمہ کی حالت زار وزبوں بیان کی۔ دین سے دوری اور اس کے نتیجہ میں برسنے والی قہر و ستم کی یورشوں پر رویا ، اس دوران حجر اسود کا استلام بھی کیا۔اس کی تاریخ بھی آنکھوں میں پھر گئی، ملتز م اور رکنِ یمانی کی بیان کردہ عظمتیں آ نکھوں کے اسکر ین کے سامنے آگئیں۔باب کعبہ کے سامنے جانے کی کوشش اور اسے کم نزدیک سے دیکھنے کی کوشش تو کی کہ یہیں سے تو رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فاتح مکہ بن کر اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کرنے کا اعلان عام فرمایا تھا۔باب کعبہ کے نزدیک پہنچنے میں ہائے !یہ درد کمر رکاوٹ بنا رہا، یہ خواب شرمندۂ تعبیر پہلے ہوا تھا نہ اب کے ہوا، نظریں جھکائے ، پلکیں بچھائے، کعبہ کے ارد گردمستانہ وار طواف کر رہا تھا، اور تصور کی دنیا میں سیدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے مبا رک ومقدس ہا تھو ں اس گھر کی بناء کی قیاسی تصویر بنا رہا تھا اور پھر وہ خوں آشام زمانہ بھی آنکھوں کے سامنے آنے لگا جب محبوب خدؐا نے دعوت حق کی پاداش میں اپنوں کی جانب سے گرائی جانے والی قہر و ستم کی مسلسل یورشوں اور بارشوں کے درمیان ایک مدت تک صبر و ثبات کے اظہار کے بعد یہاں دو رکعت نماز کی ادائیگی کی اور ہجرت کا آغاز کیا تھا اور وائے ! کعبہ شریف کے ارد گر کئی بار اس غم خوار امت، محسن انسانیت ؐ کو شبِ غم کی ظلمت کے محافظوں کے دست جفا کیش کا شکار ہونا پڑا تھا۔تاریخ کے یہ چشم دید واقعات صحنِ کعبہ میں ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے اور دل میں ایک طوفان بپاکئے جارہے تھے اور پھر وہ دن بھی بے اختیار یاد آگیا جب اس مظلوم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتح اعظم بن کر قل جاء الحق وزھق الباطل کا مژدہ ربا نی سناکر حرمِ کعبہ میں شکم پرستوں کی جانب سے رکھے بتوں کونکال باہر کیا اور پھر دوئی پسند باطل کو ایسی شکست ہوئی کہ مدتوں کراہتا رہا، پھر توحید کا غلغلہ ہوا، ہاں توحید و سنت ہی تو مسلمان کا مقصودِ زندگی بھی ہے اور متاعِ حیات بھی ، اس کلمۂحق کے بول با لاکے لئے کبھی جان کی بازی لگانی پڑتی ہے، کبھی مال و دولت ، دنیا و رشتہ وپیوند سے کٹ جانا پڑتا ہے اور کبھی سرزمین وطن کو بھی خیر باد کرنا پڑتا ہے، مسلمان ہونا کوئی حلوہ خوری اور شیرین فروشی کا عمل نہیں یہاں قدم قدم پر سختیاں اور مصائب ہیں اور پھر حق پر جم جانا ہی اسلام کی روح ہے اور یہی لبیک اللھم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک کا مطلب و مفہوم ٹھہرا۔
یہ شہا دت گہہ ٔ الفت میں قدم رکھنا ہے
لو گ آ ساں سمجھتے ہیں مسلما ں ہو نا
ہاں تو ذکر کعبہ شریف کا ہورہا تھا جس کے بارے میں محققین و شارحین نے کہا ہے کہ یہ کر ہ ٔ ارض کے وسط میں واقع ہے۔ یہی بات چوتھی صدی میں مسلم جغرافیہ داں ابو علی البحیہان نے او ر دسویں صدی میں مصر ی جغرافیہ داں الصفاقسی نے اپنی تحقیق میں کہی ہے اور پھر ۱۳۹۳ھ میں مصری سائنسداں ڈاکٹر کمال الدین کا نتیجہ ٔ فکر یہ ہے کہ کعبہ شریف ہی تمام براعظموں کا مرکز ہے ۔بہر حال طواف کی وار فتگی میں اضافہ در اضافہ ہو رہا تھا ۔اس عاشقانہ وعارفا نہ عمل سے فراغت ہوئی تو مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے دو رکعت نمازیں ادا کیں، سجدوں میں لرزاں و ترساں تھا، کعبہ کی مقدس زمین تھی اور میری گناہوں سے آلودہ یہ جبیں ! نہ جانے کتنے صالحین اور صدیقین کی مبارک پیشانیاں یہاں سجدہ ریز ہوئی ہوں گی، پھر سجدوں میں اپنی سیاہ کاریوں نے رُلادیا۔ شرمندہ تھا، اور حال یہ تھا ؎
بہ زمین چو سجدہ کردم زِ زمین ندابر آمد
تو مرا خراب کردی کہ بہ سجدہ ریائی
زمین کعبہ و حرم سے یہ صدائیں قوت سماعت سے صاف ٹکرارہی تھیں کہ اے خاطی و ریا کا ر! بند کر یہ رونا دھونا، تمہاری سیاہ کاریاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں، کتنے دنیا پرستیو ں، اِزموں فلسفوںاور ابلیس کے بنا ئی مختلف دہلیزوں پر سرجھکاکے اب زمینِ حرم کو آلودہ کرنے چلے آئے ہو۔ یہ سن کر میں زمین میں گڑاجارہا تھا کہ پھر خدائے رحیم کی شفقتوں اور رحمتوں نے ڈھانپ لیا اور یو ں لگا کہ یہ رحمتیں میری پیٹھ تھپتھپارہی ہیں کہ غم نہ کر تو میرے بلاوے پر آیاہے ۔ آج معافی مانگ اور پھر آ گے حین حیات میں مسلم کے معنی سمجھ کر مسلم بن کر رہ۔ میں تجھے اپنے دریائے رحمت میں دھوڈالوں گا۔ اس تسلی سے ایک دم سکون سا محسوس ہوا تو آنسو بہائے صفا و مروہ کی جانب چل پڑا۔ ایک بار پھر تاریخ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی، ہاں! یہاں ہی تو پیاس کی شدت سے بے بس و بے تاب معصوم اسماعیلؑ کو چھوڑ کر حضرت حاجرہ ؓ پانی یا کسی قافلے کی تلاش میں صفا مروہ اور مروہ سے صفا کی جانب بے قرار ی اور اضطرار و اضطراب کا عملی مظہر بنی تھی اور یہاں ہی معصوم اسماعیل ؑ کی صدائے العطش نے رحمتِ الٰہی کو یوں جوش دلایا کہ معصوم نے ایڑی رگڑی کہ زمزم کا بحر بیکراںتب سے پورے آب و تاب سے جاری ہے۔ صفا پر مسنون کلمات پڑھے ،مروہ کی جانب چلا ، دمیان میں دعائیں بھی ہوئیں اور مناجات بھی۔ سات چکروں کے بعد یہاں سے فراغت ہوئی تو اب باہر آئے، سرمنڈوایا کہ یہی حکم ہے۔ قیام گاہ پر پہنچ گئے، سفید لباس بدن سے اترگیا اور اب معمول کی زندگی بحال ہوئی۔ اب روز ہم تھے اور حرم و کعبہ ! ۔ رحمتِ رب برستی رہی اور ہم اپنے اپنے ظرف کے مطابق دامنِ مراد بھرتے رہے، کبھی کھبار اپنی رہائش گاہ کی مقامی مسجد میں نمازوں کی ادائیگی ہوتی رہی، عرب مالداروں کی اس جدید بستی کے کیا کہنے ، پیر و جوان ہی کیا معصوم بچے بھی نمازوں کے پابند اور جھوٹ و دجل و فریب سے سخت متنفر ۔ ہزاروں سال کی مہمان نوازی کی ریت کا بھرم اب بھی نہیں ٹوٹا ہے ۔کئی بار اس بستی میں قیام پذیر حجاج کرام کی مسجد میں ضیافت کا بندوبست کیا اور خود اپنے مرتبوں کا لحاظ کئے بنا میزبانی کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ اپنے ہوٹل کی اوپر والی منزل سے’’ثور‘‘ کا تاریخی غار دیکھا جاسکتا تھا، جہاں سے نبی دوعالم صلعم نے اپنے رفیق محترم حضر ت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ ہجرت کا مقدس سفر شروع فرمایا تھا۔ افتاں و خیزاں اس کوہ کے دامن تک تو پہنچ گیا لیکن یہاں بھی نقاہت و درد کمر سدراہ بنے رہے ، دور سے اسے دیکھتا رہا اور اس کی تاریخ کی ورق گردانی تصوارت کی دنیا میں کرتا رہا ،پھر غار حرا تو غار حرا ٹھہرا، وحیٔ ربانی نے ظلمت کدہ دہر کے سینہ کے چیرنے کے لئے سب سے پہلے اسی تاریک غار کو منور کیا تھا اور یہیں سے صاحب قرآن صلعم نے وہ نسخۂ کیمیا دنیا کے سامنے لاکے رکھ دیا جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو کج کلاہوں کا سردار اور خشکی و تری کا حکمران بناکے رکھ دیا۔ بقول اقبال ؎
در شبستان حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکوت آفرید
9419080306
(بقیہ منگل کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)