تاریخ ایک ننھی سی پری جنوبی کشمیر کے گاؤں ترکانجن میں دوسری عید کو چلی ہزاروں خوشیوں کو منانے اپنی سہیلوں کے سنگ ،ننھے اَرمان ننھی خوشیاں سہیلیوں کے ساتھ دن بھر خوشیاں منانے کے بعد رات کے اندھیرے تک گھر نہ آئی
اماں نے لذیذ پکوان بنا کے رکھے، بیٹی آئے گی، بھوک محسوس کر رہی ہوگی، پر بیٹی کو نہ آنا تھا نہیں آئی
اماں نے آس پڑوس میں معلوم کیا ، وہ کہیں نہ ملی، دو دن گزرگئے، چار دن بیت گئے ، ہفتہ گزرا، دل وجگر کی طمانیت نظروں سے دور رہی ، کہیں نہ ملی
اس معصوم پری کا نام مسکان جان
بنت مشتاق احمد گنائی
ساکن لڑی ترکانجن
تحصیل بونیار
معصومہ اسکول جاتی تھی، عید تھی نانہیں گئی پڑھنے لکھنے ۔ ورنہ یہ پری روزاسکول جاتی تھی ۔ پانچویں جماعت کی ایک ہونہار طالبہ تھی، اس کی اماں گر چہ غیر ریاستی خاتون تھی مگر تھی نا ایک مامتا بھری ماں ہی۔ اپنی پری کے لئے ہزاروں ارمان دل میں سجائے جی رہی تھی۔ اماں پر تب قیامت ٹوٹ پڑی جب دوسری عید دن تک وہ تڑپتی رہی ترستی رہی، پری نہ آئی ۔ گیارہ روز بعد اچانک منحوس خبر پھیلی : مسکان تو جنگل میں مقتول پڑی ہے۔ سب نے کہا درندوں نے چیر پھاڑ کی ہے ، درندوں کو خوب کوسا گیا، آنسوؤں اور آہ وبکا کا مقابلہ شروع ہو ا۔ جس کسی نے ننھی پری کی تصویر دیکھی ،آنکھیں ڈر اور خوف سے بند کرنے اور سینہ کوبی پر مجبور ہو ا۔ وائے! اس کا جسم ،ہائے!اس کا ننھابدن ،چیر پھاڑ کی کہانی سنارہاتھا۔ لگتا تھا بیٹا مسکان سوئی ہوئی ہے مگر یہ کیا اس کے جسم کا تو نصف حصہ ہے ہی نہیں، چمڑی کے سوا ۔
گیارہ دن بعد لڑی ترکانجن کے نزدیکی جنگل میں اَدھ کھلی لاش ٹکڑوں میں بٹی تھی ، جس نے دیکھا لرز گیا، تھرااٹھا ، تڑپ گیا، آپ ہی آپ درد و کرب میں ڈوبا اور ڈوبتا ہی گیا۔
میں جب یہ جذبات قرطاس کے سینے پراشک آور قلم سے نچوڑ رہا ہوں، انتہائی آزردہ ہوں ، درد و کرب میں ہوں، اس موضوع پر لکھنا کتنا دشوار ہے ؟؟؟کتنا کٹھن ہے ؟؟؟؟ میں جانتا ہوں میں نے اس بچی کے بارے میں صرف کچھ خبریں پڑھیں مگر جو اس خبر کے چشم دید گواہ ہیں ،انہوں نے اس صدمے کو برداشت کیا؟ کیا وہ انسان ہوسکتے ہیں ؟ ۴ ؍ستمبر شام کو کسی دوست کے توجہ دلانے پر ایک ویڈیو میں دیکھا کہ پولیس اس جرم عظیم کے بارے میں گلوگیر آواز میں کچھ بتا رہی ہے۔واقعی یہ ایک المناک واقعہ ہے جس پر بات کرتے ہوئے آنسو بہہ نکلتے ہیں، جب تفصیلات سن لی جائیں تو کوئی بھی سکتے میں آسکتا ہے ۔ یہ قیامت قصور پاکستان کی زینب ، کھٹوعہ کی آصفہ اور اب مسکان پر گری مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قدر گرے ہوئے ہیں، گئے گزرے ہیں کہ ایسے وحشت ناک مناظر یکے بعد دیگرے دیکھ اور سن رہے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے ؟ کیا یہ قیامت خیزیاں دیکھ کر آسمان کا کلیجہ پھٹ نہ پڑ ہوگا ؟
پہلے پہل جو خبر چلی تھی، وہ اخبارات میں یوں شائع ہوئی:
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے بونیار اوڑی میں پیر کے روز 9؍سالہ کم سن بچی کے مبینہ قتل کے خلاف مکمل ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے دوران بونیار اور اس سے ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد نے سری نگر مظفرآباد روڈ پر احتجاجی دھرنا دیا۔ وہ کم سن بچی کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔خیال رہے کہ بونیار اوڑی کے تری کانجن جنگل سے اتوار کے روز ایک 9 ؍سالہ کمسن بچی کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔ ہلاک شدہ کم عمر بچی 23 ؍اگست کو اپنے گھر سے لاپتہ ہوئی تھی۔ بارہمولہ ڈسٹرکٹ پولیس نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ پر کہا تھانوسالہ لاپتہ لڑکی کو بونیار بارہمولہ کے جنگلی علاقہ میں مردہ پایا گیا ، ہلاک شدہ بچی کی شناخت مسکان جان کے بطور کی گئی۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ لڑکی کو ظاہری طور پر کسی جنگلی جانور نے حملہ کرکے مارا ڈالا ہے۔ تاہم بونیار کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کم سن بچی کا انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔
اب جب قتل کا معمہ حل ہوگیا ، پولیس تفتیش کے نتیجے میں جو لرزہ خیز حقائق سامنے آئے ،وہ اس قدر اذیت ناک ہیں کہ سن کر درندے بھی شرمندہ ہوں ں گے ۔ کہاجاتاہے کہ پہلے معصوم بچی کی عصمت دری کی گئی ،اس کے بعد بد نصیب کے اعضاء کو زخم دئے گئے، اس پر چاقو سے وار کئے گئے ، پھراس پر تیزاب ڈالا کر جلایا گیا۔ ۔۔میں اور کچھ لکھنے سے قاصر ہوں کہ یہ ظلم کی کہانی کس نے قلم بند کی ، کیوں کی ، کیسے کی ؟ کیا یہی ہے ہمارا مسلم سماج ؟ کیا ہمارے درمیان ایسے درندے اور شیطان صفت لوگ رہتے ہیں؟ کیا ہم ملوثین کو انسانوں میں شمار کرسکتے ہیں؟ کیاسماج کے وہ ذی شعور لوگ اس سنگین جرم کے بارے میںلب کشائی کر سکتے ہیں؟ کیا اس ناقابل معافی جرم کا ذمہ دار کوئی غیر ریاستی یا غیر مسلم ہے ؟ قطعی نہیں ،یہ ذلت وشرم ناکی ہمارے اپنے سماج میں پروان چڑھی ہے ۔یہ ہمارے اپنے صفوں میں رہ بس رہے بدطینت لوگ ہیں جنہیں مسکان کی چیخیں، مسکان کا درد و کرب بھی ہوش میں نہ لاسکا ۔ افسوس صد افسوس! اس معصوم کی مسکان کو چھیننے والے کیسے بد دماغ مجرم ہیں؟ ہم جانتے ہیں اگرمجرم کوئی غیر ہوتا کسی ، یہ سفاکی سی اورکی حرکت ہوتی تو ہم نے زمین و آسمان میں کہرام مچایا ہوتا جیسا کہ بیٹی آصفہ کے معاملے میں ہوا ۔ مگر مسکان پر ہمارا ردعمل اتنا پھیکا کیوں رہا ؟ کی وہ ہماری معصوم بیٹی نہیں ؟ کیا ہمیں مسکان کی چیخیں سن کر بھی را ت کو نیند آتی ہے ؟ ہم خود سے پوچھیں کہ کیا ہم اتنے بدمست ، غافل اور خود غرض ہیں کہ آج کسی دوسری کی مسکان موت اور ظلم کے ہاتھوں چھن گئی تو ہم خاموش رہے لیکن اللہ نہ کرے اگر کل کو میری اپنی مسکان کےساتھ ایساہو تو کیا میںٹرپ کر تل تل نہ مروں گا ؟ ہمیں سوچنا ہوگا، اور سوچ سمجھ کر گناہوں کے دیوتاؤں کا جینا سماج میں حرام کر نا ہوگا ۔ تب ہماری خیرہوگی ۔
ایسی گھمبیر صورت حال میں حقائق کا دلیرانہ سامنا کیجئے، دوہرے معیار کو مت اپنائیں ۔ کیوں کہ کوئی بھی معاشرہ جب تک صحیح طور مضبوط اخلاقی بنیادوں پرا ستوارنہیں ہوتا، جب تک اس کے سوچنے اور عمل کر نے کا ڈھنگ انصاف سے ہم آہنگ نہ ہو گا، اللہ اس سماج پر عذاب اور ذلت کے کوڑے برساتا رہے گا ۔ اس لئے ہمیں خود اپنے مفاد میں مسکان کے لئے انصاف کاوہی مطالبہ کر نا چاہیے اور وہی سب کچھ کرنا چاہئے جو ہم نے بہ حثیت مجموعی آصفہ بیٹی کے لئے کیا تھا ۔ہم سب نے بہ یک آواز چیخا چلایا کہ ظلم ہوا ہے، انصاف چاہئے ۔ مسکان بھی ظلم وجور کی شکار ہو ئی ، غیروں کے ہاتھ نہیں ،اپنوں کے ہاتھ، ہم اسے انصاف دلانے کے لئے ممکنہ حد تک دل کی پوری تائید اور جذبات کی حمایت کے ساتھ قانونی کوششیں کریں ، ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہی بدطینت لوگ پھر سے اسی جنگل میں کسی اور مسکان کی مسکان کو مسل ڈالیں گے ۔ یاد رکھئے بیٹیاں سب کی پیاری ہوتی ہیں، یہ پوری دنیا کی معصوم پریاں جیسی ہوتی ہیں، انہیں درندوں کے نرغے میں مت رہنے یا آنے دیجئے، قبل اس کے کہ کوئی اور مسکان مسلی جائے، سماج کے اخلاق کی فکر کیجئے ، انسانیت کی فکر کیجئے ، رشتوں کا تقدس پامال نہ ہونے دیجئے ، انسانیت کے باغی مجرموں کا جینا حرام کر نے کے لئے ٹھوس اصلاحی کام کیجئے ۔ کاش ہم پہلےاس فکر میں منہمک رہتے تو یقیناً نہ زینب ، نہ آصفہ ، نہ مسکان ، نہ تابندہ غنی ، نہ رومانہ جاوید ، نہ صبرینہ فیاض جیسے مظلوم کردار ہماری عصری تاریخ کےاوراق اجتماعی ضمیر پر واویلا صد واویلا کرتے پڑھے جاتے۔میں سوچتا ہوں اگر میرے سامنے میری چھوٹی سی پری اس وقت ہوتی تو ضرور میری آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر کہتی بابا !کیوں رو رہے ہیں آپ؟ بابا! یہ دنیا کھٹور ہے، کیا پتہ آگے میرا کیا ہوگا، کیوں نہ آپ مجھے دورِ جاہلیت کے عربوں کی طرح خود ہی بے رحمی سے زندہ قبر میں گاڑ دیں ؟
جنت سے مسکان کی صدائے درد
ماں یہ جو عید کے بعد میں اپنوں کے ساتھ گئی تھی نا
انہیں میں نے کچھ نہیں کیا تھا نا
یقیناً وہ اپنے گھر کو لوٹ آئے ہوں گے
یقیناً پاپا کو بھی اب اطمینان مل گیا ہوگا
ماں معاف کرنا لوٹ کر میں واپس نہ آپائی آپ کے پاس
تم اکثر کہتی تھی نا تیز نہ دوڑا کر بٹیا
تمہیں تو کہتی تھی ہرنی کی طرح چال ہے میری
مگر اس بار وہ ہرنی کے جیسے پیر میرے
کہیں پہ جاکے ساقط و صامت ہوگئے اَ ماں
کوئی دہشت ووحشت پیچھا کر رہی تھی
کئی وحشی تھے تعاقب میںتھے
وہ انسان نما بھیڑیے تھے
نہ ان کو سینگ تھی ،نہ پنکھ تھے ،نہ خونی پنجے
بتاؤں تم کو کیسے ماں کہ وہ کیسے بھوکےدرندے تھے
میری بے بسی پر پتھر پیڑ پودے پھول سبزہ زار سب سہم رہے تھے
وہ جن سے کھیلتی تھی ، جنھیں دوست کہتی تھی، پہروں باتیں کرتی تھی
کسی نے کچھ نہ بولا
کوئی آگے نہیں آیا مجھےبچانے کے لئے
یہ سبھی مجبور و مظلوم تھے شاید
ماں تیر ی قسم ! میں نے بہت منتیں کیں ، خشک آنسوؤں کا واسطہ دیا
وہ میری ایک بھی نہ مانے
میں بہت چیخی چلائی، ٹوٹے ہوئے ہاتھ پیر چلائے ،
مگر وہ طاقت ور تھے، جنگل میں اُن کے چنگل سے میں اَدھ موا کیابھاگ سکتی ؟
مجھے معلوم ہے آپ آئی تھیں مجھے ڈھونڈنے
میرے کانوں سے آپ کی چیخ بھی ٹکرائی ۔۔۔مسکان مسکان مسکان ،تم کہاں ہو؟
ابھی بھی گونجتی ہے یہ آواز جنگل میں ہرسُو
مگر ماں مجھ میں طاقت نہیں تھی کہ یہ کہ سکوں ماں! ادھر مری پڑی ہوں
درندوں نے مرے ہر ہر عضو کو چیر ڈالا تھا
مجھے انسانوں کی دنیا سے اب نفرت ہے
مگر ماں فکر نہ کرنا
میں اب جنت میں ہوں
یہاں بھی باغ ہیں، جھیل جھرنے بھی ، سبزہ زار بھی
یہاں تتلیاں ہیں ،پھول بھی
میں ان سے کھیلتی ہوں
میری سہیلیاں بھی ہیں ، زینب ، آصفہ، رومانہ ، تابندہ۔ صبرینہ
مگر ماں کیا وہ وحشی اب بھی جنگل میں ہیں
مجھے ان سے ڈر سا لگتا ہے
بہت خون خوار ہیں یہ آدم خور درندے
تم اپنا اور ابا کا خیال رکھنا
ہاں آخری بات بھی سن
میری قبر پر وہ لوریاں سنانے ضرور آنا
جو تم ہر شام مجھے سلانے کے لئے تھپکیاں مار کربڑے پیار سے سنا کر تسلی پاتی