مسلم خواتین اورفرہنگی خرافات! دینی تعلیم سے دوری کا نتیجہ

محمد حامد رضا
یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو کسی حکمت کے تحت ہی پیدا کیا ہے اور غبن جتنی بھی چیزوں کو پیدا کیا ہے، اس کے لیے ایک نظام اور اصول بنایا ہے تاکہ وہ مخلوقات اصول اور ضوابط پر عمل پیرا ہو کر خود کی بھی اصلاح کرلے اور اپنے خالق کائنات کو بھی راضی کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں دو طرح کے صنف میں پیدا فرمایا ہے۔ ایک تو عورت اور دوسرا مرد۔ اور ربّ تبارک و تعالیٰ نے ہر ایک کیلئے ایک نظام اور ثواب پر رکھا ہے تاکہ وہ بندہ اسی پر عمل کرکے سعادت دارین حاصل کرے۔ لیکن ہائے افسوس!آج کے زمانہ میں اُنہی قوانین و ضوابط کی پابندی نہیںکی جارہی ہے،بلکہ رب کو ناراض کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ خالق کائنات، جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کے لیے تمام چیزوں پیدا کیں تاکہ وہ ضابطوں کے تحت اُن سے فائدہ اٹھا سکے،لیکن ہر سطح پر اور ہر معاملے اللہ کے  احکامات ،ضابطوں اور قواعدکی حکم عدولی کی جارہی ہے۔ اگر مردوں میں دیکھا جائے تو طرح طرح کی برائیاں اور طرح طرح کے خرافات جنم لے رہے ہیں اور دوسری جانب عورتوں میں تو یہ بُرائیاں اورخرافات عام ہوچکی ہیں۔سجنے اور سنورنے کے لئے ایسے ایسے آلات کے استعمال کئے جارہے ہیں جو نہ صرف ربّ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں بلکہ ایک عام سا انسان اگر اسے دیکھ لیں تو اس کے بھی ہوش اُڑ جائیں گے اور وہ بھی اسے قبیح سے قبیح تر سمجھیں گے۔ مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد میں نت نئے ایسے خرافات جنم لے رہے ہیں جو نہ صرف خلاف شرع ہیں بلکہ خلاف اصولِ زندگی بھی ہیں۔ ایسے ایسے فیشنز کئے جارہے ہیں جو کہ سراسرخالق کائنات کو ناراض کرنے کا سبب و باعث ہے۔ 

ہائے افسوس ! زمانۂ حاضرہ کی خواتین اسلامی تہذیب و تمدن سے بہت دور ہوچکی ہیں،اپنے اقدار اور میراث کو بھول چکی ہیں۔جنتی خواتین کی سردار حضرت فاطمہؓ کی طرز زندگی کو اپنانے کے بجائے غیر اسلامی تہذیبوں کی دلدادہ بن چکی ہےاور ہر معاملے میںمغرب کے ہر بُرے کلچر کو اپناتے ہوئے نظر آ تی ہے۔ حالانکہ  بحیثیت مسلمان ہونے کے ناطےہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کو اپنا رول ماڈل بناتیں،اُن کی سیرت کو پڑھتیں اور اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتیں، لیکن آج ہماری بیشتر مائیں، بہنیںاور بہو بیٹیاںاپنے دینی ، اخلاقی اور تہذیبی اقدار و روایات سے بالکل ہٹ کے ایک الگ ہی رخ اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ خدا کی قسم اگر یونہی زمانہ چلتا رہا، اور ہماری خواتین کا ایسا طرز عمل جاری رہا تو مسلم معاشرے میں نہ جانےاور کتنے خرافات جنم لیتے رہیں گے اور بدعات فروغ پائیں گے۔مسلم خواتین کا بذات ِ خوداپنے اوپر مغربی تہذیب کا نفاذانتہائی تشویش ناک امر ہے، جس کے نتائج کسی بھی وقت انتہائی شرمناک ہی نہیں بلکہ انتہائی خوفناک شکل میں سامنے آسکتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کئی غیر مسلم خواتین اسلامی تعلیم اور اسلامی تہذیب و تمدن کی سے متاثر ہوکر اس کی دلدادہ بن چکی ہیںمگر ہماری خواتین شرم وحیا کی تما م تر حدیں پار کرکے تہذیب ِ اغیار کی یاری میںہی اپنی بڑھائی سمجھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سےشاید کسی بڑے عذاب کی منتظر ہیں۔اللہ بچائے۔

کپڑوں سے لے کر چلنے،پھرنے اور بولنے تک ،سَر سے لے کر پیر تک جہاں بھی ہم نظر دوڑائیں ہمارے مسلم معاشرے خواتین کی ایک خاصی تعداد جن میں مائیں، بہنیں،بہو اور بیٹیاں شامل ہیں ،خرافات میں پڑی ہوئی ہے۔ہاں!مسلم معاشرے میںایسی بھی پاکیزہ خواتین ہیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی طرز زندگی کو اپناتے ہوئے زندگی گزار رہی ہیں اور  مغربی تہذیب اور دیگر خرافات سے بالکل دور ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں آج ہمارا معاشرہ میںحقارت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔نہ معلوم کیوں؟  انہیں یہ بول کر حقیر سمجھا جا رہا ہے کہ یہ زمانہ تو ماڈل ہو چکا ہے مگر آج بھی تم نہیں بدلی۔ تعجب کا مقام ہے۔کہ جہاں ان پاکیزہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والی خواتین کو داد و تحسین ملنی چاہئے تھی اور اُن کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے تھی وہاں اُن پر کیچر اچھالا جاتا ہے اور اُن کی تنقید کی جا رہی ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ آج بھی ہم حقیقی معنوں دینی تعلیم سے کوسوں دورہیں۔ ہم دنیاوی تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن دینی تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں بلکہ اسے حاصل میں شرم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ہم دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تاکہ ہم اپنی اصلاح خود کرسکتے۔ خود کو ایک اچھے تہذیب میں ڈھال دیتے۔ظاہر ہے کہ تعلیم ہی ہمیں اوج ثریا تک پہنچا سکتی ہےاور تعلیم سے بیزاری ہمیں ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ تک لے جا سکتی ہے۔ افسوس صد افسوس !دورِ حاضر میںہمارے مسلم معاشرےکی بیشتر مائیں اور بہنیں فاطمتہ الزہرہؓکے نام تک سے واقف نہیں۔ چہ جائیکہ وہ اپنی زندگی میںکس طرز زندگی کو اپنائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ کریںاور اپنے تہذیب و تمدن کو جانیںاور اسلامی شریعتی قوانین و ضوابط کو سمجھیں۔آج اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدارس کھولے جائیں ، اچھے مدرسین سے اپنے بچوں کو پڑھوائیں۔ہماری مائیں اور بہنیں بھی اپنے دینی حدود میں آکر اپنی زندگی کا گذر بسر کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے دینی اقدار کو سمجھیں اور اُن کا خیال رکھ سکیں۔

[email protected]>