مسلمانانِ وطن سے

اسلام کے خلاف استعماری قوتوں اور عالم ِ کفر کی ریشہ دوانیاں ،سازشیں اور رخنہ اندازیاں کوئی نہیں بات نہیں ہیںاور نہ دین فطرت کے مبنی بر عدل وعقل تعلیمات کے خلاف زہر افشانیاں آج کا قصہ ہے بلکہ یہ گھناؤنا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ اس کے باوجود یہ دین آج بھی اپنی حقانیت اور صداقت کے بل پر سکون و راحت کے متلاشی اَن گنت لوگوں کو اپنے دامن ِعاطفت میں جگہ دئے جا رہا ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دین مبین میں حیات ہے ، لچک ہے، اعتدال ہے ، توازن ہے ، ا س لئے اسے جتنے زور سے دبانے کی نامراد کوششیں ہوتی رہیں ، اُتنی ہی قوت سے یہ اُبھر کر سامنے آتارہا ۔تاتاریوں نے کونسا داؤ اس کے خاتمے کے لئے نہیں کھیلا، لیکن پھر اُن ہی میں سے کعبے کو پاسبان مل گئے۔مختلف انسان دشمن نظریات کے حامل لوگوں اور قوت و طاقت سے لیس حکمرانوں نے اسلام کو اپنے بُتانِ نفس کا مخالف پاکر اسے زیرکرنے کی جی توڑ کاوشیں کیں لیکن وہ خود یادگارِپارینہ بن کے رہ گئے جب کہ اسلام پوری قوت وسطوت کے ساتھ اُبھر تاگیا ۔ عالم ِکفر نے بھی ہار نہ مانی ،اس نے صدیوں اسلام بیزار محاذوں پر پسپائی کے بعد یہ مشترکہ لائحہ عمل اپنایا کہ دین کے خلاف باہر سے ہی یلغار نہ ہو بلکہ اس کے اندر سے بھی عام خام میں انتشار و افتراق ، بدعقیدگیاں اور کج فہمیاں پروان چڑھائی جائیں اور نت نئے فتنوںکا جال بچھانے کا ایسا ابلیسی کام کیا جائے کہ مسلمان اُنہیں میں اُلجھ کر بکھر کر رہیں ۔ اس نوع کی ریشہ دوانیوں میںخداوندانِ باطل اور دجالان ِ وقت نے کبھی نبوت کے جھوٹے دعویدار وں اور ان کے عیار ومکار مددگاروں کو بطور مہرہ استعمال کر کے مسلمانوں میں اضطرابی کیفیات پیدا کیں، کبھی خانہ ساز ’’مہد وِیت ‘‘کا عَلم اٹھانے والے بدباطنوں کے ہاتھوں دجل و فریب کی آبیاریاں کیں ، کبھی مسلم اُمہ کو ترقی ، جدیدیت ،قومیت وغیرہ کے نام پرالحاد و زندقہ کے دام ِ ہمرنگ ِ زمیں میں پھسانسنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت وقت کے علمائے حق نے جہاں تحفظ ختم نبوت کا فریضہ جی جان سے انجام دیا، وہاں انہوں نے الحادی  بغاوتوں کا عالمانہ، مجاہدانہ اور داعیانہ تعاقب کیا۔ تاریخِ اسلام تاقیامت ان علمائے کرام اور صلحائے اُمت کے علمی تفوق ،استقامت ، پامردی اور عزم و ارادے کو عقیدت کا سلام پیش کر تی ر ہے گی۔گو باطل کے کار پردازوں کو علمائے حق کے مجاہدات وعزیمت کے ہاتھوں ہر زمین و زمن میںمنہ کی کھانا پڑی لیکن افسوس ہماری صفوں میں موجود بعض کندہ ٔ ناتراشوں ،اُ لٹی کھوپڑیوں اور دام ودرہم کے غلاموں کاایک چھوٹا سا طبقہ بالضرور باطل کے دامِ فریب میں آکر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق پوری اُمہ کے لئے پریشانیوں کا باعث بنتارہا ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ مسیلمہ کذاب اور اَسود عنسی جیسے کارکنانِ کذب وافتراء اور جھوٹے مدعیانِ نبوت صدرِ اسلام سے لے کر آج تک اپنا بدنما سر اُبھارتے رہے ہیں جن کی سرکوبی کرنے میں بندگانِ خدا نے دین ِ حق کی حفاطت کی نیت سے اپنی جانیں تک نچھاور کیں ۔
 یہاںان فتنوں او ر فتنہ گروں کی کارستانیوں کو بیان کرنا فی الوقت بیان راقم کا مقصود نہیں، بلکہ یہ باور کر انا مطلوب ہے کہ دیار ِ ہند میں مسلمانوں کو ا سی نوع کے فتن ہائے دہر( فتنۂ قادنیت اور اب فتنۂ شکیلیت یعنی مرزائیت کا ایک نیا برانڈ) سے باخبر اور چوکنا ر ہنا چاہیے ۔ آج تک یہ دیکھا گیا ہے کہ ان فتنوں کے زیادہ تر شکار عقائد کے کچے ، توہم پرست ،سادہ لوح، دینی شعائر کی سدھ بدھ نہ رکھنے والے ، علم کی روشنی سے بے بہرہ دیہی لوگ خصوصاً بنتے ہیں اور کہیں کہیں دینی شعور سے محروم تعلیم یافتہ لوگ بھی ان کے مطلبی گرویدہ بن جاتے ہیں۔چونکہ ملکی فضا سیاسی سطح پر کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ ہندی مسلمان سیاست و سیادت کے ایوانوں سےdis-empower کئے گئے ہیں اور اُن کی جان تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں ،اس لئے اب اُن کے دین و ایمان تک میں گھر کے بھیدیوں سے سیند ھ لگوانے کا کام مقتدرطبقے اپنی سر پرستی  میں کروارہے ہیں تا کہ مسلمانوں کی شُدھی کا دیرینہ خواب شرمندہ ٔ تعبیرہو۔ ویسے ارتدادی فتنے مسلمانان ِ ہند کے خلاف انگریزوں کے دور سے تاحال آزما جارہے ہیں ۔ ان چومکھی حملوں کا ایک مقصد یہ ہے کہ بے بسی کے عالم میںمسلمان اپنے دین و ایمان کے تئیں شبہات و شکوک میںپڑ کر من حیث القوم ارتداد کی رومیں بھٹکنے کو ہی اپنی ’’ نجات اور ترقی‘‘ کا وسیلہ سمجھنے لگیں۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے باقاعدہ طور بکاؤ میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہی فتنہ ٔارتداد کے ذریعے علی الخصوص مسلمانوں کی غربت و پسماندگی ، لاچاری اور لاعلمیت کاناجائز فائدہ اُٹھاکر اُنہیں ایمان و عقیدہ سے برگشتہ کیا جارہاہے ۔اس سلسلے میں مالی امداد کا لالچ اور پُر کشش مراعات ، سہولیات ، ترغیبات کا شیطانی دروازہ کھول کر اُن کی متاع ِایمان چھیناجاتاہے ۔ ان ابلیسوں کی مردود کاوشیں کوئی سربستہ راز نہیں ہیں ۔یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ دین و ایمان کے اِن دُزدان ِ دلاور کے ارتدادی مراحل وتدریج بھی ملاحظہ فرمائیں: یہ کسی کالج یایونیورسٹی وغیرہ میں کسی زیر تعلیم مسلم نوجوان کے ساتھ سب سے پہلے خوش اخلاقی سے دوستانہ راہ ورسم بڑھاتے ہیں،بطور خاص اطمینان کرتے ہیں کہیں اس طالب علم کا کسی دینی ادارے،مدرسے یا دینی اُنجمن سے کوئی ربط و تعلق تو نہیں ، کیونکہ وہ جانتے ہیں ایسی صورت میں اُس کی اپنی ذاتی دین فہمی یا کسی دینی ادارے سے اُس کے مراسم مرتدین کا ابلیسی مشن پہلی ہی فرصت میںچوپٹ کر کے رکھ دے گا ۔ یہ لوگ اپنی اصلیت کو تکیہ والوں کی طرح چھپاتے ہوئے گندم نما جو فروشی کر نے کے لئے اپنی شکل و صورت اور ظاہری وضع قطع اس انداز کی بناتے ہیں کہ دیکھنے والے کو ان کے بارے میں سنت کا پیروکار ہونے اور پُر خلوص انسان ہونے کاخاصا مغالطہ لگ جائے۔ آپ ہی بتایئے جب کسی ایمان فروش کا گفتار بظاہر دین دارانہ ہو، چہرے پر سجی لمبی داڑھی ہو،لباس کی مسلمانانہ تراش خراش ہو ، سرجھکائے چلنے کی ادا ہو ، مسکراہٹیں ہوں، تو یہ سب فریب کاریاں اور مکاریاں کیا دین کے حقیقی مفہوم سے  ناآشنا اور سادہ مزاج شخص کو اپنے جال میں نہیں پھانس سکتیں؟ اس پر بھی کیا دنگ رہ جائیے کہ اگر کوئی سطح بین شخص جھوٹ اور مکاری کے ان پرستاروں کی گفتگو میں بار بار الحمدللہ ،ماشاء اللہ،سبحان اللہ اور انشاء اللہ سن کر انہیں دین دار اور پارسا سمجھ بیٹھے،؟ ہاں یہ اللہ کا کرم ہی کہلائے گا اگر کوئی ان کے شروفتن سے بچ جائے۔ بہر حال ان مرتدوں کو جب یقین کامل ہوجاتا ہے کہ ہمارا شکارہم سے اب پوری طرح متاثر ہے تو پھر اپنے اصل کام کا آغاز کردیتے ہیں۔بات علاماتِ قیامت سے شروع کرتے ہیں اور پھر ’’نئے انکشافات ،جدید ایجادات اور دنیا میں رونما ہورہے بعض حالات و واقعات‘‘ کو علاماتِ قیامت کا مصداق قرار دیتے ہیں کہ سننے والے لاعلم شخص کا عقیدہ ٔ آخرت ڈنواں ڈول ہوکر رہ جاتا ہے ۔اس دوران یہ مرتد شاطرانہ کوشش کرتے ہیں کہ مخاطب کا اتناذ ہنی برین واش ہو تا کہ ُاس کے ذہن میں علمائے دین کی ایک ایسی گھٹیا تصویر بیٹھ جائے کہ حقیقت ِحال جاننے کے حوالے سے وہ اُن کی جانب رجوع ہی نہ کرے۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ علمائے دین کو ان علاماتِ قیامت کے معنی ومفہوم کا کچھ زیادہ علم نہیں ،اُنہوں نے بس حدیث کی چند کتابوں کے کچھ ابواب پڑھے ہوتے ہیں ، جن کا تعلق بس روزہ،نمازو حج سے ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مُدرس بن سکیں ۔ اس لئے کائنات کی یہ بڑی باریک سائنسی باتیں اُن کی سمجھ سے باہر ہیں۔ یوںدینی عقائد میں کچا اور لاعلم و سادہ لوح شکار ان مرتدین کے ’’استدلال ‘‘سے ذہناً اتنا ماؤف ہوتا ہے کہ مرتدین کو دینی علوم کاماہر سمجھنے لگتا ہے اور ان کے سحر میں اس قدر آتا ہے کہ ہر ارتدادی خیال بھلا اور ہر زعمِ باطل’’ دُرست اسلام‘‘ لگتا ہے۔اس منزل سے نکل کر پھر مر تدین اپنے شکار سے کہتے ہیں کہ دیکھو دجال کی آمد ہوچکی ہے، امریکہ اور فرانس دجال ہیں ،اور یہ جو کہتے ہیں کہ دجال ایک آنکھ سے کا نا ہوگا، اس کا مصداق کوئی گوشت پوست والاانسان نہیں بلکہ سیٹلائٹس اور فائٹر پلین ہیں ۔ آگے چل کرجب مر تدوں کو یقین ہوجاتاہے کہ اُن کا شکار کاملاً اُن کے سحر کی مٹھی میں آچکا ہے اور ہمارے’’ تبحر علمی‘‘ سے اتنا مرعوب ہے کہ ہمارے مقابلے میں اب کسی عالم کو خاطر میں نہیں لاتا ،تب جاکر اُس سے کہتے ہیں کہ دیکھو اب جب دجال آچکا ہے اور دجال کی آمد کے بعد ایک مہدی موعود اور مسیح کے آنے کی بھی پیش گوئی ہے، سو وہ بھی آچکا ہے، جو اب نجات کا واحد وسیلہ ہے ، اب ہم اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے پابند ہیں۔اگر پر بریدہ شکار اپنا دِل ودماغ ان کے قبضے میں پورے کا پورا دے چکا ہو تو وہ فوراً اُس سے ملنے اور بیعت ہونے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ آخری مرحلے پر یہ کم سواد شخص مرتد اعظم ( شکیل )کے پلید ہاتھ پر بیعت کرکے اپنا قلب و ذہن اُس کے سپرد کرکے ارتدادی مشن کی آبیاری میں تن من دھن سے جٹ جاتا ہے ۔ یوں دین وایمان سے بے بہرہ ہونے کی ایک بڑی قیمت چکاتا ہے ۔
واضح رہے’’مہدویت‘‘کے یہ دعاوی کوئی نئے نہیں بلکہ ایک تسلسل کے ساتھ عالم اسلام میں ان کا گردوغبار اٹھتا رہاہے۔ اس بارے میں احادیث میںہی بہ تفصیل پیش گوئیاں موجود ہیں کہ اُمت میں کتنے جھوٹے مدعیانِ بنوت ، ضال و مضل اورکاذب لوگ مرسل من جانب اللہ ہونے کا جھوٹاد عویٰ کریں گے، مگر چونکہ اللہ کریم نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود اپنے اوپر لیا ہے اور نبی ٔ مہربان، پیغمبر آخرالزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ کی نبوت قیامت تک کے لئے قائم و دائم ہے،اس لئے جھوٹ کے ان غباروں سے ہوا بہت جلدضرور نکل جاتی ہے مگر افسوس کہ بہت سارے سادہ لوح ان بدقماشوں کے جھانسے میں آ کر ہی  رہتے ہیں ۔
بہر حال امام مہدی اور مسیح موعود کے حوالے سے دعوؤں کو جانچنے پرکھنے کے لئے ہمیں دفتر احادیث کی جانب رُخ کرنا ہوگا ،اُن کی وہ تشریحات سمجھنا ہوںگی جن پر جید علمائے دین اور اُمت کا چودہ سوسال سے اجماع تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ ہمیںاُس وقت کے سبھی حالات و ظروف اور پس منظر و پیش منظر کی جزئیات وکلیات کو سمجھنا ہوگا جب امام مہدی اور مسیح موعود کا نزول من جانب اللہ ہو گا ۔ اس کے لئے دینی علوم و معارف سے بہرہ مند ہونا شرط اول ہے، ساتھ ہی ساتھ اس باب میں مستند علماء سے گفتگو ئیںاور سوال وجواب کی صورت میں اشکالات دور ہوسکتے ہیں ۔فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان والدین جہاں خود اسلام اور دینی عقائد کو اپنے شب وروز کا وظیفہ بنا ئیں ،وہاں اپنی اولاد کے دین کو بچانے کے تعلق سے خصوصی طور متوجہ ہوں ۔اسلام کو مسخ کر کے پیش کر نے میں جہاں اس وقت عقائدی، ثقافتی ،تہذیبی اور میڈیائی یلغار زوروں پر ہے، وہاں ارتدادی فتنے بھی شرق وغرب میں اُٹھ رہے ہیں ۔ بلا شبہ داعیانِ حق ان طوفانوں کا توڑ کر نے کا کام بڑے پیمانے کرتے جارہے ہیں ، واقعی انہیںہر نئے فتنے کا حکمت و تدبر اور علم وآگہی سے لیس ہوکر مقابلہ کر تے ہوئے ملت کی دُرست رہنمائی کر نا ہو گی۔ ہمارے جن نوجوان علمائے کرام میں بولنے ،لکھنے کا دم خم موجود ہو ، جودعوتِ اسلامی کے جدید اسالیب سے کما حقہ واقف ہوں، جو فتنہ ہائے دہر کو کلی طور جانتے ہوں ، جو وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوں ، جو اپنی زبان اور قلم کو اسلام کی حقانیت و صداقت کی تبلیغ کے لئے وقف کر نے کا سلیقہ رکھتے ہوں ،اُن کو دفاع اسلام کے لئے ہر حال میں آگے آنا ہی ہوگا ۔ اگر خدانخواستہ اس نازک موقع پر بھی ہم آپسی سر پھٹول اور حُبِ جاہ میں مست رہے تو پھر داورِ حشر کی عدالت میں ہماراکوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہمارے سامنے ایک مثال برمی مسلمانوں کی ہے ۔ یہ آج بے چارگان وبے سہارا ہوکر در بدر پھر رہے ہیں کہ اُن کی حالت ِزار ہم سب کو خون کے آنسو رُلارہی ہے۔ برصغیر کے ایک نامور عالم دین نے 1961ء میں برما میں ہی برمی مسلمانوں کے دینی حالات دیکھ کر اُن سے کہا تھا ’’یہ پونے دو کروڑ انسانوں کا شہرہے ،جس کو برما کہتے ہیں ِ‘اور تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہاں کیا کیا اور تم سمجھتے ہو کہ ہم کمانے جارہے ہیںلیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ تم یہاں آکر ہدایت و تبلیغ کا کام کرو۔آج حالت یہ ہے کہ اٹھارہ بیس کروڑ کی مسلمانوں کی قوم ہے، اس کے ایمان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اس میں ارتداد پھیل رہا ہے ،ہم نے سنا ہے کہ یہاں بہت سے علاقوں میں ارتداد پھیل رہا ہے ،لوگ دین سے ہٹتے جارہے ہیں ،بدھ مت اختیار کرتے جارہے ہیں ،مسجد یں چھوڑ کر کلیساؤں اور پیگواڑوں میں جارہے ہیں۔ آپ پر دوہری ذمہ داری ہے ،ایک اپنے ایمانی بھائیوں کی جو اٹھارہ بیس لاکھ قوم ہے اور ایک دوسرے برادرانِ وطن کی جو آپ کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں ،ایک ہوا میں سانس لیتے ہیں ،ایک ہی پانی سے پیاس بجھاتے ہیں۔اگر تم نے اپنے کاروبار سے وقت نکال کر ہدایت وتبلیغ کا اپنے اندر طریقہ پیدا کیا اور پھر اس کے لئے کوشش کی تو اللہ تعالیٰ تمہیں انعام میں دنیا میں بہت کچھ دے گا اور آخرت میں جنت عطا کرے گا ۔اگر ایسا نہ کیا تو یاد رکھوکہ تم اس ملک میں رہ نہیں سکتے‘‘_____ اور ہاں!آج برمی مسلمانوں کی بدترین صورت حال ہم سب پرعیاں ہے ۔ جہاں بھی مسلمان دنیا سازی، عیاشی اورحصول ِدنیا کو ہی بس اپنا مقصدزندگی سمجھ کردعوت ِدین سے اعراض برتیں ، اپنی نئی نسل کی ذہنی ،فکری اور دینی تربیت سے غفلت کریں ، اس کا نتیجہ کس قدر بھیانک ہوتا ہے ، آج برمی مسلمان چیخ چیخ کر بالفعل وہی داستان سرائی کررہے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنی اپنی سطح پر دینی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنی طرف بڑھتی ہوئی آندھیوں کو روکنے کے لئے حق وصداقت اور انسانیت وعدالت کا چراغ روشن کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں، متحد و منظم ہو جائیں ، زیادہ سے زیادہ توحید و سنت سے اپنا رشتہ جوڑیں۔ نیز فی زماننا جوفتن و فساد ات ہم اپنے گردوپیش میں دیکھتے ہیں ،ان میں ہمارے لئے یہ سبق پو شیدہ ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو ذاتی اصلاح اور دعوت و طہارت کے کا م سے جوڑ یں ۔ خاص کر ایسے گھمبیر حالات میںداعیا نِ حق کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں کہ وہ زمانے کے فتنوں اور ارتدادی لہروں کا مقا بلہ علمی دلائل، دینی حمیت ، ذہنی بیدا ری اور د ل جمعی سے کریں ،بصوررت دیگرخدا نخواستہ ہما ری دا ستا ن بھی داستا نوں میں نہ ہو گی۔ بایں ہمہ ہم قطعی نا اُمید نہ ہوں، حق اپنا وجود منوا کے ہی رہتا ہے ،ہم بس حق کا بول بالاکر نے کے تعلق سے اپنے حصے کا کا م کرتے ہیں تو دونوں چیزیں آزمائشیں اورنصرت ِالٰہی قدم قدم ہمارے ہمراہ ہوں گی۔  
فون نمبر9419080306