رام بن میں ہلکی بارش،گرمی سے قدرے راحت
محمد تسکین
بانہال// بدھ کی شام دیر اور جمعرات کی دوپہر ہوئی ہلکی بارشوں کی وجہ سے لوگوں نے گرمی کی شدت سے راحت کی سانس لی ۔ جمعرات کی صبح سے دھوپ اور چھاؤں کا سلسلہ دوپہر تک جاری رہا تاہم بعد میں تیز ہوا اور بارشوں نے گرمی کی شدت سے لوگوں کو راحت دلائی۔ تفصیلات کے مطابق رواں برس بانہال جیسے سرد علاقے میں پارہ تیس سے اوپر ہے جبکہ رام بن میں گرمی کی تپش 40 ڈگری کے پار بھی چلا جاتا ہے۔ اس دوران جموں سرینگر قومی شاہراہ پر ٹریفک جام کے اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر مجموعی طور ٹریفک کی نقل وحرکت معمول کے مطابق جاری رہی۔ مسافر گاڑیوں کو دوطرفہ اور مال گاڑیوں کو سرینگر سے جموں کی طرف چلنے کی اجازت تھی۔
بانہال کے سنگڑی گائوں میں ریچھ کی موجودگی
علاقے کے لوگوں میں خوف و ہراس
محمد تسکین
بانہال// بانہال سے دس کلومیٹر دور نوگام کے سنگڑی گائوں میں ایک ریچھنی دو بچوں جے ساتھ آبادیوں میں گھوم رہی ہے جس کی وجہ سے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس ریچھنی نے حال ہی میں سنگڑی ناڑ گاؤں کے اوپر دو بچوں کو جنم دیا ہے اور اب پچھلے کئی روز سے یہ ریچھنی بچوں کو ساتھ کیکر گائوں میں گھوم رہی ہے اور عام لوگوں کی نقل وحرکت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریچھنی کی بے جھجھک نقل وحرکت نے لوگوں میں ڈر بٹھا دیا ہے اور صبح اور شام کے اوقات بچوں اور مال مویشیوں کا باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں بات کرنے پر انچارج کنٹرول روم وائلڈ لائف بانہال نجم الدین نائیک نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سنگڑی گاؤں کے لوگوں کی شکایت کے بعد ایک ٹیم کو علاقے میں روانہ کیا گیا اور انہوں نے پایا کہ گوجر بستی سنگڑی گاؤں کے اوپری جھاڑیوں سے یہ ریچھنی اپنی اسی جگہ پر بیٹھی ہے جہاں پر اس نے بچوں ہو جنم دیا ہے۔ وائلڈ لائف کی ٹیم نے لوگوں کو مطلع کیا کہ وہ راستے چلتے وقت ٹولیوں میں چلیں اور چھوٹے بچوں کو اکیلا نہ چلنے دیں۔ انہوں نے گاوں والوں کو بستی کے اس پاس کی جھاڑیوں کو صاف کرنے کی بھی تلقین کی تاکہ جھاڑیوں سے کسی اچانک حملے سے بچا جا سکے۔ ٹیم نے لوگوں میں پٹاخے بھی تقسیم کئے تاکہ ریچھنی کے بستی میں انے کی صورت میں پٹاخوں کا استعمال کرکے اسے بستی ںسے دور بھگایا جاسکے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ریچھنی سے آمنا سامنا کی صورت میں شور نہ مچائیں بلکہ راستہ کاٹ کر خطرہ کے علاقے سے نکل جائیں۔
جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تعزیتی اجلاس
گوپی چند نارنگ کا انتقال اردو زبان و ادب کا بڑا نقصان : پروفیسر ریاض احمد
جموں//اردو کے معروف ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کے انتقال سے پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔شعبہ اردو جموں یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو پروفیسر ریاض احمد کی صدارت میںتعز یتی اجلاس کا انقاد کیا گیا۔ اس موقع پر پروفیسر ریاض احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر نارنگ کا اس دنیا سے جانا دراصل ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ ایک رجحان ساز نقاد تھے۔ انھوں نے تقریباََ ساٹھ برسوں تک اردو زبان و ادب اور تنقید کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔اردو ادب میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے ان کی خدمات نا قابل ِ فراموش ہیں۔وہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الا اقومی سطح پر بھی اردو کی شناخت کے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے تھے ۔انھوں نے کُل ہند انجمن اساتذہ اردو کے فعال اور متحرک رکن کی حیثیت سے بہت ہی اہم خدمات انجام دیں۔پروفیسر نارنگ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی اور جامعہ اسلامیہ میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔وہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس بھی رہے ہیں۔نارنگ تقریباََ پانچ درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ادب کا بدلتا منظر نامہ،اردو افسانہ روایت اور مسائل،ادبی تنقید اور اسلوبیات،ہندوستان کی تحر یک آزادی اور اردو شاعری، ترقی پسندی، جدیدیت ،مابعدجدیدیت وغیرہ قابل ِذکر ہیں۔اس موقع پر پروفیسر شہاب عنایت ملک،ڈاکٹر چمن لال،ڈاکٹر عبدالرشید منہاس،ڈاکٹر فرحت شمیم نے بھی اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کمی کو ایک عرصے تک پورا نہیں کیا جا سکتا اور ان کی زبان و ادب کے تئیں خدمات نا قابل ِفراموش ہیں۔اس تعزیتی اجلاس میں ڈاکٹر قیوم،ڈاکٹر رضا محمود،ڈاکٹر جاوید احمد شاہ،ڈاکٹر عجاز احمد، عمر فاروق،یاسر عرفات،پرتاپ سنگھ،سنجے روشن اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے دیگر اسکالرز بھی موجود تھے۔
گول میں ایم جی نریگا ملازمین کا احتجاج
ملازمتوں کی مستقلی اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ
زاہد بشیر
گول//ضلع رام بن کی سب ڈویژن گول میں تعینات محکمہ دیہی ترقی کے عارضی ایم جی نریگا ملازمین نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مستقل کیا جائے اور ان کے مشاہرے میں اضافہ کیا جائے ۔ کئی دنوں سے لگا تار احتجاجی ہڑتال پر بیٹھے منریگا ملازمین نے کہا کہ جموںو کشمیر کو یوٹی میں کرنے کے بعد انہیں یقین تھا کہ سرکار انہیں باقی یوٹی ریاستوں کی طرح کی مراعات سے نوازے گی لیکن سرکار کی جانب سے جموںو کشمیر کے منریگا ملازمین کو یکسر نظر انداز کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے ملازمین کے ساتھ سرکار سوتیلا سلوک کر رہی ہے ۔ اسی دوران احتجاجیوں نے کہا کہ پنچایتوں اور پنچایتی راج کو زمینی سطح پر لاگو کرنے اور زمینی سطح پر تمام کام کی دیکھ بھال کے لئے ایم جی نریگا ملازمین دن رات کم اجرت کر سالہا سال سے کام کرتے آئے ہیں اور گھروں کا تمام اخراجات بچوں کی پڑھائی وغیرہ اس قلیل تنخواہ سے پوری نہیں ہوتی جس وجہ سے انہیں فاقہ کشی کا شکار ہونے کاخدشہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ ملک کی باقی یوٹی میں ایم جی نریگا ملازمین کی اجرت یہاں کے بر عکس کافی زیادہ ہے اور انہیں مستقل بھی کیاگیا لیکن صرف جموںو کشمیر میں تعینات ایم جی نریگا ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں مستقل کیا جائے اور ان کے مشاہرے میں بھی اضافہ کیا جائے تا کہ گھروں کا خرچہ اٹھایا جا سکے ۔