فاروق عبداللہ کے بیان کی مذمت
ڈوڈہ// نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے گذشتہ روز کے بابری مسجد کے متعلق بیان کی مذمت کرتے ہوئے پی ڈی پی ضلع صدرڈوڈہ نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس نے ملک کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ پریس ریلیز میں شہاب الحق نے کہا کہ جس جگہ ایک بار مسجد تعمیر کی جاتی ہے وہ ہمیشہ سے ہی مسجد کے حکم میں رہتی ہے اور کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس جگہ مندر یا دیگر کوئی تعمیر کی اجازت دے ،فاروق عبداللہ کا بیان مسلمانوں کے عقیدے کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
آزاد خاندان کو صدمہ
بیگم فاطمہ آزاد انتقال کر گئیں
طاہر ندیم خان
بھدرواہ//سابق وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر غلام نبی آزاد کی پو پھی اور سابق چیئرمین میونسپل کمیٹی بھدرواہ جاوید آزاد اور پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج ڈوڈہ ڈاکٹر طارق آزاد کی والدہ بیگم فاطمہ آزاد مختصر علالت کے بعد بھدرواہ میں اپنے آبائی گائوں میں انتقال کر گئیں۔بیگم فاطمہ مرحوم نیشنل کانفرنس لیڈر بشیر احمد کچلو کی ہمشیرہ اورمشہور ماہر تعلیم اورسابق ڈائریکٹر ایجوکیشن مرحوم غلام رسول آزاد کی زوجہ تھیںان کی عمر 80برس تھی، پسماندگان میں3لڑکے اور 2لڑکیاں شامل ہیں۔انہیں اپنے آبائی قبرستان گائوں چکہ میں سپرد خاک کیا گیا جہاں لوگوں کی بھاری تعداد نے ان کے جنازہ میں شرکت کی ۔
صحافی برادری اور عبدالمجید وانی کا اظہار دکھ
ڈوڈہ// ضلع ڈوڈہ کے میڈیا افراد نے ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں بیگم فاطمہ کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا ۔صحافیوں نے دعا کی کہ مر حومہ کی روح کو سکون ملے اورگھروالوںکے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔اس موقعہ پر طاہر ندیم خان ،راجہ رہبر جمال،سائر حسین،ریاض اندرابی ،فردوس کھانڈے سعداللہ رنگریز،نصیر احمد کھوڑا،فیاض پانپوری،تلک راج اور دیگر موجود تھے ۔دریں اثناء کانگریس لیڈر عبدالمجید وانی نے بیگم فاطمہ آزاد کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے سابق سر پنچ عطا محمد ساکن بھاگواہ کے انتقال پر بھی تعزیت کا اظہار کیا ۔عطا محمد کانگریس کے سر گرم کارکن تھے اور انہوں نے اپنے علاقے کیلئے کافی کام کیا ہے۔
بیگم فاطمہ کی وفات پر تعزیتی پیغامات
گندو / / خط چناب کے کئی سیاسی و سماجی لیڈارن نے بیگم فاطمہ آزاد زوجہ مرحوم غلام رسول آزاد اور ڈاکٹر طاروق آزاد کی والدہ کے انتقال پر گہرے دُکھ کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم ایک نیک سیرت خاتون تھیںجن کی موت سے پورے ضلع ڈوڈہ کی عوام کو ایک بہت بڑا نقصان ہو اہے وہ غریب عوام کی مشکلات میں پیش پیش رہتی تھیں ۔ اس موقعہ پرجن لیڈارن نے دُکھ کا اظہار کیا اُن میں سابقہ وزیر داخلہ و ایم ایل سی سجاد احمد کچلو،سابقہ وزیر و ضلع صدر این سی ڈوڈہ خالد نجیب سہراوردی،این سی لیڈر اندروال چوہدری اسلام دین،این سی لیڈر ریاض احمد زرگر،ضلع یوتھ صدر ڈی ڈی فاروق،سید نوید حسین ضلع صدر یوتھ ڈوڈہ،چوہدری محمد حنیف بلک صدر این سی گندو نے جہاں اُن کی موت پر گہر ے دُکھ کا اظہار کیا وہیں غم زدہ کنبہ کے ساتھ بھی ہمدری کا اظہار کیا ہے۔اس دوران بھلیسہ ہیریٹیج سینٹر نے بیگم فاطمہ آزاد کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا ۔ سینٹر کے صدر صداقت ملک نے کہا کہ وہ ایک عظیم خاتون تھیں جنہوں نے برے وقت میں بھلیسہ کی خدمت کی ہے، مرحومہ کی وفات بھلیسہ بھدرواہ کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔انہوںنے ڈاکٹر طارق آزاد ،جاوید آزاد اور دائود آزاد ،شاہینہ آزاد اور ڈاکٹر پمپوش آزاد سے تعزیت کا اظہار کیا ۔
رام بن میں بی جے پی کا ’نو رتن سمیلن‘ منعقد
متعدد سیاسی کارکنان اور سرپنچوں کی پارٹی میں شمولیت کا دعویٰ
ایم ایم پرویز
رام بن //بی جے پی کی طرف سے رام بن میں ’نورتن سمیلن ‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی کارکنان نے بھاجپا میں شمولیت کا اعلان کیا۔ پارٹی میں شامل ہونے والوں میں متعدد سرپنچ اور پی ڈی پی کاایک سینئر کارکن، سوامی راج بھگت بھی شامل تھا جس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ اس تقریب میں مرکزی وزیر مملکت اور مقامی ممبر پارلیمنٹ کی شمولیت بھی متوقع تھی لیکن خراب موسم کی وجہ سے وہ رام بن نہیں پہنچ سکے تاہم پارٹی ریاستی جنرل سیکرٹری اشوک کول اس موقعہ پر موجود تھے اور انہوں نے نئے آنے والے کارکنان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ان کارکنان سے کہا کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں پولنگ بوتھ سطح پر بھاجپا کو مضبوط بنانے کے لئے کام کریں ۔ورکروں کو آئندہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کی تیاری میں لگ جانے کی تلقین کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی کے پروگرام اور پالیسی کو عام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس موقعہ پر راجیو چاڑک سابق ایم ایل اے نیلم لنگیہہ، رمیش شرما، وومن سیل کی سنیتا کماری بھی موجود تھیں۔
نوائے سروش
انسانیت جہالت کی آہنی قبا میں ملبوس تھی۔ہر طرف افراتفری اور بے چینی کا عالم تھا۔حق و باطل کی تمیز ایک خواب تھا۔خالق و مخلوق کا فرق معدوم تھا۔شرم و حیا کے شعلے بجھ چکے تھے۔ظلم و جبر کی آگ بھڑک رہی تھی۔اثم و عصیان کے خارزار ، عفت و عصمت کے دامن کو تار تار کر رہے تھے۔طبیعت کا بگاڑ تھا تو رواداری کا انحطاط، انا و لا غیری کا رواج تھا تو جبر و استعداد کا دور دورہ تھا۔خونریزی ایک مشغلہ تھا تو حق تلفی ایک روایت۔غرور ایک تاج تھا تو ہوس ایک تسکین تھی۔عیاشی مطلوب بھی اور مقصود بھی تھی۔انتقام ایک ہتھیار تھا اور بغض ایک قاعدہ تھا۔مے خواری ایک عادت تھی اور جوا بازی ایک کھیل تھی۔عریاں شعر وشاعری ایک تفریح تھی تو توہم پرستی ضابط حیات تھی۔دنیا کا کونہ کونہ شرک کی عفونت میں لپٹا تھا۔خوف خالق کا نہیں مخلوق کاتھا۔کہیں شعلہ، کہیں شبنم اور کہیں شمس و قمر تو کہیں حجر و شجر، کہیں آگ تو کہیں چراغ لوگوں کے معبود بھی اور مسجود بھی تھے۔یہاں رحمت خداوندی جوش میں آگئی تو دنیا کی اس قوم کو قیادت کے لئے منتخب کردیا جو اس وقت کی دنیا کی نگاہوںمیں قابل نفرین ہی نہیں بد ترین بھی تھی۔اس ذلت کا سبب اسکے علاوہ کیا ہو سکتا تھا کہ اسی سرزمین میں خانہ کعبہ موجود تھا اور جس میں اس سے بہت پہلے بھی پتھروں کے مجسمے تب نصب ہوگئے تھے جب لوگ اپنے معبود کو بھول کر دنیا کی متاع قلیل کی عیاشیوں میں کھو گئی مگر خالق کائنات نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم کو مبعوث کر کے اس خانہ خدا کو شرک کی نجاستوں سے پاک کیا۔ رفتہ رفتہ پھر ابلیس لوگوں کی رگ و پے میں گھس گیا اور دین حنیفی انکی راہ و رسم حیات سے نکل گیا۔دینی تعلیمات سے فرار نے ہی پھر اس مقدس گھر کو شرک کی تصویروں سے مکدر کر دیا اور حالت یہاں پہنچی کہ پوری دنیا میں وحدانیت کی صدا کو بلند کرنے کے لئے ایک بھی انسان موجود نہ تھا۔بلا ریب اللہ کریم ہے۔اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اسی قوم سے ایک سعید روح کو منتخب کر لیا اور حکم ہوتا ہے:- اے نبی اپنے قرابتداروں کو ڈرائے۔ اور محب، محبوب کے اس حکم کی تعمیل میں پہاڑ کی چوٹی پے چڑھ کر اعلان فرماتے ہیں:-کہو اللہ کے سوا کوئی نہیں۔کامیاب ہو جاوگے۔صادق الامین نبی معصوم کو اس اعلان کے بعد کتنی ابتلاوں سے گزرنا پڑا یہاں تفصیل کا موقعہ نہیں مگر اتنا بتانا مقصود ہے کہ اللہ اعلان کرنے والے تھے کہ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔لات و منات، عزا اور ہبل بڑے بڑے بے جان خدا عرب کے ریگزاروں میں خاموش حکمرانی سے ابلیس کی کارستانیوں کو تقویت پہنچا رہے تھے۔صنف نازک کے وجود کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور نو مولود بچییوں کو زندہ درگور کرنا غیرت و حمیت کی روح سمجھا جاتا تھا۔اس کہرام اور شورش کے سیل بے پناہ پے بند لگانے کے لئے مشیت ایزدی میں ایک آخری پیغام اور آخری پیغمبر کامنصوبہ تکمیل پا چکا تھااور ابراہیم خلیل اللہ کی دعاوں کا ثمرہ آنا بھی یقینی تھا۔آمنہ کے وجود میں ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ کی پشتوں سے نسل در نسل منتقل ہونے والا نطفہ بطریق احسن پرورش پا رہا تھا۔ولادت کے روز تیرہ سو سال سے مسلسل جلتی آگ کے شعلے اچانک بجھ جاتے ہیں اور کیسر و کسری کے محلات کے کنگارے دفعتاً زمین بوس ہو جاتے ہیں نئی روشنی اور نئی صبح کا آغاز ہوجاتا ہے۔غار حرا میں گوشہ نشین آخری پیغمبرؐ کے پاس روح الامین ؑ پہلا پیغام لے کے پہنچ جاتے ہیں ۔داعی حق کی بعثت کا مقصد سوائے اسکے کیا ہو سکتا تھا کہ اللہ کی زمین پے اللہ کا نام بلند ہو۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے اللہ رب العزت نے ایک ضابطہ حیات بھی نازل کردیا۔امانت من و عن اس امت تک پہنچ گئی اور حج الوداع میں اپنی کسوا نامی ناقہ پے عرب کے تاجدار ؐسوار تھے اور حکم ہوا اعلان کر دو۔آپؐ صحابہؓ کے جم غفیر سے تصدیق لیتے ہیں کیا امانت پہنچ گئی صحابہ بیک زباں صادق المصدوق کی تصدیق کرتے ہیں۔منزل من اللہ اس آفاقی پیغام کی ضیا پاشی دیکھتے ہی دیکھتے جہالت اور گمراہی میں ڈوبی اس قوم کو خلافت ارضی کی سیادت و قیادت کے لئے آراستہ کر دیتی ہے۔عادات بدل گئیں، اخلاق سدھر گئے،معاملات درست ہو گئے،رقابت رفاقت میں بدل گئی، بخیلی سخاوت میں بدل گئی۔انسان تو انسان تھے جانوروں کے حقوق کو بھی احترام کے دائرے میں جگہ ملی۔صنف نازک کا تقدس بحال بھی ہوا اور اسکے مساوی حقوق کا تعین بھی ہوا۔سیاہ و سپید کی پہچان میں قرآن کو معیار بنایا گیا اورایک معاشرہ تیار ہوا جسکے ضمیر خمیر میں رب کی کبریائی کا عقیدہ شیر و شکر ہو چکا تھا، جس نے رہزنوں کو رہبروں کی صفوں میں لا کھڑا کردیا، جس نے طاغوت کے خیموں کو توحید کے شعلوں سے راکھ کر دیا اور اللہ کی اس سرزمین میں اللہ کی کبریائی کے پرچم لہرانے لگے۔خلافت ارضی کے دبستاں میں امن اور خوشحالی کی کلیاں مسکرانے لگیں اور عزت کا معیار تقویٰ ٹھہرا۔مگر وقت گذرتا گیا نفس امارہ نے خیر امت کے منصب سے وابستہ اس طبقے کو دنیا کی زیب و زینت کی تجارت میں اسقدر مدہوش کر دیا کہ رفتہ رفتہ امت کی اکثریت دینی تعلیمات سے دور ہوتی گئی اور جوں جوں یہ بعد بڑھتا رہا اور آج کے مسلم معاشرے میں دور جہالت کی تماتر روایات پلٹ کر آئی ہیں گو بانداز دیگر !!!ضرورت اس بات کی ہے کہ اس امت کے تعلیم یافتہ نوجوان جو مغربی تہذیب اور مغربی طرز فکر سے فریب خوردہ ہیں اور جن کی رگ و پے میں مادہ پرستی کی سوچ سرایت کر چکی وہ اپنی زندگی کے گرانقدر اوقات کو اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے وقف کریں اور اس مقصد کے حصول کے لئے قرآنی تعلیمات اور فرمودات نبوی ؐکے روشن چراغوں کا سہارا لیں ورنہ اس غفلت شعاری کے نتیجے میں اس امت کی ترقی اور سرخروئی کے مستقبل کے آفتاب کا نور جہالت کے گہن میں دفن ہو جائیگا۔اللہ رب العزت کا اعلان ہے دنیا کچھ بھی نہیں چند روز کا کھیل تماشا ہے۔لہذا اس دنیا کی آرائش اور زینت کے حصول میں متاع حیات کا زیاں بہت بڑا نقصان ہے اور جبکہ ہم بچشم سر روز مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آشیاں جل رہے ہیں کیسے کیسے، جواں مر رہے ہیں کیسے کیسے۔آہیں ہیں کراہیں ہیں۔ظلم و جبر کی فضائیں ہیں، آہ و فریاد کی صدائیں ہیں۔خودی کی تربیت ممکن نہیں جز اینکہ دینی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کیا جائے اور جب اس فکر کو تخت مغز اور گوشہ قلب میں جگہ ملے گی تو رنگ و بو کی حقیقت کھل کے سامنے آئیگی اور حقیقت سے آشنا انسان ہی جانتا ہے کہ ۔دنیا ابتلاوں وآزمائشوں کا گھر ہے یہاں ہر خوشی کا انجام حسرت اور ہر عروج کا زوال۔اسلئے ابدی فلاح کیلئے اللہ اور اسکے نبی کی اطاعت لازمی ہے۔اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پے چلنے کی توفیق دے۔آمین۔
طارق ابراہیم سوہل… 8493990216
نیل چدوس تحصیل بانہال
با صلاحیت کشمیری خواتین کوخراج
ٰٓٓٓماضی و حال کی کشمیری باصلاحیت خواتین کو خراج پیش کرنے کیلئے9جوان سال خواتین کلاکاروں نے بطور ’’ کشمیری خواتین کے ڈیزائن کلکٹیو‘‘کے ساتھ ہاتھ ملایا اور سال 2019کے لئے ایک خوبصورت تخلیقی واختراعی سوچ کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔کلینڈر کشمیر کی اُن خواتین کو خراج ادا کرتی ہے ،جنھوں نے مقام پیداکیا ہے۔شہرت اور کامیابی نہ صرف کشمیر میں مختلف شعبوں میں بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی کشمیرکے نام کوچارچاندلگائے ہیں۔کلینڈر نے بعض اُن خواتین کی تصویر کھینچی ہیں ،جنھوں نے اپنی زندگی کے دوران قابل ستائش کام انجام دیا ہولیکن عام لوگوں کو ان کے بارے میں کم ہی جانکاری ہے۔کلینڈر کا تصور ’’سونتھ کشمیر ‘‘ایک کشمیری یاد گاری برانڈکی جانب سے تشکیل دیا گیا ہے ،جسے سرینگر کی ایک لڑکی اونائزہ درابو نے کوشئر لائف اسٹائل ۔ ایک کشمیری آن لائن سودا گر اسٹورجسے اننت ناگ کی ایک لڑکی سما بیگ چلا رہی ہے کے اشتراک سے چلایا جا رہا ہے۔سما نے کہا کہ ’’ہم ان خواتین کی عزت افزائی کیلئے کُچھ نیا کرنا چاہتے ہیں،جنھوں نے ہماری زندگی کو متاثر کیا ہے‘‘۔’’اونینزا اور میں نے اس خیال پر کافی مباحثہ کیا اور کشمیر کی بعض ذہین جوان سال خواتین کلاکاروں کے ساتھ رابطہ کیا۔ہم نے اس پروڈکٹ پر مل جل کر کام کیا اور اسے کامیاب بنایا ‘‘سما نے کہا کہ ’’خواتین کی کام کو ہمیشہ سے ہی کم درجہ دیا گیا ۔انہیں کشمیر میں زیادہ شہرت نہیں ملی۔کلینڈر اُن بہت ساری خواتین پر روشنی ڈالتا ہے جنھوں نے مشکل ترین حالات میں مختلف شعبوں میں کام کی ہے‘‘۔ ہمہ گیر خواتین میںوہ خواتین بھی ہیں جن کو کلینڈر میں جگہ دی گئی ہے، وہ حبہ خاتون ،لل دید ، ارنیمال، عتیقہ بانو، ڈاکٹر گرجا دھر، راج بیگم ، حنیفہ چپو،مورائیل پالیون(عام طور سے مس میلنسن )اور بعض دیگران ہیں۔ سما نے کہا کہ ’’ہم نے پہلے تحقیق کی۔ہم نے ان خواتین کی اصلیت سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لئے مختلف قسم کے لوگوں سے رابطہ کیا‘‘۔’’ نہوں نے مختلف شعبوں جیسے کہ شاعری، موسیقی،تعلیم وغیرہ میں زندگی بھر مثالی کام انجام دیا‘‘۔ کلینڈر نے کم جانکاری حاصل کرنے والی خواتین کو بھی خراج عقیدت ادا کیا ہے ،جنھوں نے سماج کو بہت کُچھ دیا ہے لیکن کبھی بھی انکو اُجاگر نہیں کیا گیا۔ان جواں سال کلاکاروں نے اپنے کو کُچھ دینے کا بھی سوچا۔ اس کٹیگری میںکُچھ مثالیں ہیں ،جیسے کہ حنیفہ چپو،جو ضلع اننت ناگ میں سکول انسپکٹر تھی۔ بارہمولہ کی ایک خاتون گیانی موہن کور ، جو کہ ایک سرکاری سکول کی ہیڈ مسٹرس تھی۔ 1947 میںجب کشمیر ایک خطر ناک دور سے گُذر رہا تھا،کور نے گھر گھر جاکر لوگوں کو خصو صاً نئی مائوں کو صحت اور مقوعی خوراک کی جانکاری دی اور مس میلنسن ،ایک عیسائی مشنری خاتون ،جس نے خواتین کی تعلیم کیلئے کافی کام کیا ،خصوصاً سرینگرشہر میں۔وہ ایک ایسی خاتون تھی،جس نے کشمیر کے سکولوں میں غیر نصابی کاروائیاں شروع کیں۔اُس تاریخ سے کلینڈر کا ہر ایک صفحہ کُچھ نہ کُچھ تخلیقی تحریک پیش کرتا ہے۔اس میں ایک خاص خاتون کی تصویر ہے،جس کے نیچے متن ہے جو کہ خاتون کے ساتھ مفصل تفصیل دیتی ہے۔کلینڈر میں آرٹ ورکس 8خواتین کشمیری کلا کاروں بشمول مہوعیش مسعود ، اونینزا درابو، نوصاعیبا خان ،سُمارئع چودھری، طیبہ نسیم، غزل قادری، کیہاں انجم خان اور زویہ خان، اور سما بیگ نے خواتین کو اپنی تحریروں سے خراج پیش کیا ہے۔’’اسکے علاوہ ‘‘سما نے کہا ’’ کلینڈر میں یہ بھی دکھایاگیا ہے کہ کشمیر میں کتنا زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ ایسی جواں سال خواتین کلا کاروں کے ساتھ کام کرنا ایک عظیم تجربہ تھا‘‘۔کلینڈر کا ایک اضافی صفحہ ہے ، جو کشمیر کی اُن تمام خواتین کو خراج پیش کرتی ہے جنھیں موجودہ شورش سے کافی مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس صفحہ میں خیالی تصاویر اور چھوٹی سی متن ہے۔’’صدیوں سے کشمیر کے تمدن کو سنوارنے میں خواتین نے ایک اہم کردار نبھایا ہے۔لیکن اب انکے اس کام کو وہ مقام نہیں دیا گیا جسکی وہ مستحق تھیں۔کلینڈر ایک چھوٹا خراج ہے ان کشمیر کی چند خواتین کیلئے جنھوں نے۔۔۔کسی بھی طریقہ سے۔۔۔۔ہماری تمام زندگیوں پر اثر ڈالا ہے‘‘۔سما نے ویب سائٹ پر کلینڈر کا تبصرہ تحریر کیا ہے’’ہم بطور کشمیری وومنز ڈیزائن کلکٹیو ہر ،منتخبہ خاتون کلاکار کو جنھوں نے مختلف قسم کے آرٹ کا ذریعہ اپنی شخصیت اور کام کو پیش کرنے کے لئے استعمال کی ہے،کو بدلنے کیلئے اکٹھا ہوئی ہیں‘‘۔ اُس نے کہا کہ’’جیسا کہ آپ مہینوں سے دیکھ رہے ہیں،ہمیں توقع ہے کہ آپ نئے سال کے موقعہ پر تخلیقی تحریک پائیں گے،جیسا کہ ہم نے پائی ہے۔یہ صفحہ اُن تمام خو اتین کو خراج ادا کرے گا،جنھوں نے شورش کی وجہ سے کافی کُچھ برداشت کیا ہے‘‘۔ کلینڈر کو 3o دسمبرکو جاری کیا گیا۔یہ دونوں صورتوںیعنی دیوار اور ڈیسک کلینڈر میں دستیاب ہے۔ڈیسک کلینڈر کی قیمت 475روپے ہے اور دیوار کلینڈر کی قیمت 545روپے ہے۔لوگ اسے www.koshurwear.com یا www.koshurlifestyle.com سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔سمانے کہا کہ ’’ہم ابھی آرڈر ہی لے رہے ہیں،ہمیں پہلے ہی بہت سارے آرڈر موصول ہوئے ہیں ‘‘۔ کلاکاروں کی مختصر تفصیل :مہویش مسعود: مہوش مسعود سرینگر کی ایک کلاکار ہیں۔انہوں نے متعدد ذرائع میں پشمینہ سے لیکرپیپر معاشی ،لکڑی کے ساتھ ساتھ آئیل اور acrylic یا کینوس پر کام کیا ہے۔اُن کا ماننا ہے کہ آرٹ مدعوں پر بات کرنے کے لئے ایک طاقتور ذریعہ ہے اور خواتین کے طاقت اور اختیار کو دکھانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔موصوفہ NIFT سرینگر میں بطور گیسٹ فیکلٹی پڑھا رہی ہیں۔اونینزا درابو:اونینزا درابو ایک امیچر نقاش ہیں اور انہوںنے آرٹ کو بطور ایک رد عمل کے طور پر لیا ہے، بطور ایک بچہ کے معیاری کتابیں نہ پانے والی اور کشمیری ؎ لوگوں کے لئے ایک مطمئن ٹیلرکے۔اسکی پرورش سرینگر میں ہوئی ہے اور 2010سے پینٹنگ کر رہی ہیں۔وہ سونتھ کشمیر کی اسٹیشنری برانڈ کی بانی ہیں۔نوصبا خان:نو صبا خان سرینگر کی ایک آرٹسٹ اور آرچیٹکٹ ہیںاور سونتھ کشمیر کی شریک اسٹیشنری برانڈ ہیں۔وہ کینوس پر واٹر کلرس اور سیاہی سے کام کر رہی ہیں۔ سُمریا چودھری:سُمریا چودھری ایک آرچیٹکٹ اور از خود سیکھی ہوئی پونچھ کی ایک کلا کار ہیں۔وہ کینواس پر واٹر کلرس اور آئیل سے کام کرتی ہے۔تاحال وہ دہلی میں مقیم ہے،وہ پروجیکٹوں پر اصلی نمائندگی کے لئے کام کر رہی ہیںاورجموں و کشمیر کے خانہ بدوشوں کے در پیش مدعوں کو اُجا گر کر رہی ہیں۔ سما بیگ: سمع بیگ اننت ناگ کی ایک مصنف ، اینٹر پرینور اور منیجمنٹ کنسلٹینٹ ہیں۔انہوں نے کشمیری پیداوار کی بہتات کو دیکھ کرجن کو مقامی طور سے ز یادہ بدیشیوںمیں مانگ تھی کے لئے 2017میں ایک آن لائن کشمیر سودا گر اسٹور’’ کوشئر لائف اسٹائل‘‘ شروع کیا۔کوشر لائف اسٹائل کشمیر کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔طیبہ نسیم: طیبہ نسیم سرینگر کی ایک کرافٹ فن کار ہیںجو پیپر کے ساتھ کام کرکے ہاتھ سے بنی ہوئی کٹ پئیس آرٹ بنا رہی ہیں۔ وہ’’پیپر سٹی‘‘ ، ایک آرٹ اسٹڈیو جو ہینڈی کرافٹس سے بنی ہوئی پیپر آرٹ اور دیگر پروڈکٹ بنا رہی ہیں،کی بانی ہیں۔غزل قادری : غزل قادری سرینگر کی ایک نقاش، پروڈکٹ ڈیزائنر ہیں۔وہ ویجول آرٹ اور ہنسی مذاق کی شائق ہے، جس نے ایک مقبول کشمیری واٹس ایپ سٹکِرس ’کتھ باتھ‘ بنائی ہے۔غزل تا حال بنگلور میں’’لالی پاپ ڈیزائن اسٹیڈیو ‘‘ میں بطور ایک نقاش کام کر رہی ہے۔کیہن انجم خانـ: کیہن انجم خان دوبئی میں مقیم ایک کشمیری کلا کار ہے۔وہ واٹر کلرس ،قلم اور سیاہی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اپنے ہنر کے ذریعہ سے وہ دُنیاوی کشمیر کے انسانی مراحل کی عکاسی کرتی ہے،جو اکثر شورش میں کہیں کھو گئے ہیں۔ زویہ خان: زویہ خان سرینگر میں مقیم ایک آرچیٹکٹ ، انٹیرئیر ڈیزائنر،سٹی پلانر اور ڈیجیٹل امیجنگ آرٹسٹ ہے۔انکی کام انکی سمجھ سے کافی متاثر ہوئی ہے،جس میں اسنے بتایا ہے کہ کس طرح سے انسان اپنے بنائے ہوئے ماحول کے ساتھ تبادلہ خیال کرتا ہے۔زویہ کے دلچسپی کے بنیادی علاقے ہیرئٹیج اور کشمیر کا مقامی آرچیٹکچر ہے۔