مزید خبریں

پلوامہ کار بم دھماکہ ……عمل در رد عمل! 

پلوامہ سانحہ نے قو م کو اس قدر جنو نی کر دیا کہ اس نے عوام و خواص کا دماغ ہی مائو ف کر دیا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے اندر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کر ے ۔کوئی مذمتی بیان دے رہا ہے،کوئی ماتمی جلوس نکال رہا ہے ،کوئی فوج کو عملی اقدام کر نے کامکمل اختیار دے رہا ہے، کوئی بیرون ریاست ہندوستانی اداروں میں مقیم کشمیر ی طلبہ کو بے دخل کر نے کی بات کر رہا ہے ۔کوئی موم بتی جلا رہا ہے تو کوئی اس سانحہ کو سیاسی رخ دے کر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہا ہے ۔کوئی دعوت نامہ ٹھکرا رہا ہے تو کوئی ہندوستان و پاکستان کے درمیان میچ نہ ہونے کی بات کر رہا ہے ۔اس موقع پر کوئی ٹھنڈے دماغ سے یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ آخر اس طرح کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں ۔ایسے سانحات کے پیچھے کیا عوامل کار فر ما ہیں ۔سی آر پی ایف پر اس سے قبل بھی بڑا حملہ ہو چکا ہے ۔اپریل ۲۰۱۰ء؁ میں بھی نکسلیوں کی طرف سے سی آر پی ایف پر حملہ کی صورت میں تقریبا ً71 جوان ہلاک ہوئے تھے ۔اس وقت بھی بہت شورو غو غا ہوا تھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا نکسلی حملے بند ہو گئے ؟جواب نہیں کیونکہ ایسے مواقع پر بنیا د ی اسباب و عوامل پر غو ر و فکر کر کے انہیں حل کر نے کے بجائے محض جزوی مسائل پر شو ر شرابا ہوتا تھا جو اب بھی ہو رہا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ کشمیر میں ایسا پہلی بار ہوا ہے بلکہ گذشتہ کئی سال سے اس طرح کے واقعات رونما ہو تے رہے ہیں ۔گذشتہ ایوان پارلیمان میں پیش کر دہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۳ء؁ تا ۲۰۱۸ء؁ کشمیر میں کل ۳۳۹ جوانوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ۔جبکہ سال ۲۰۱۸ء؁ میں بھی یہ تعداد پہلے سے کافی زیا دہ بڑھ گئی ہے ۔یہ کیوں ہوا ؟اور اس کی رو ک تھام کے لئے کیا کیا جائے ؟اگر ان سوالات پر ایوان میں سنجید گی سے بحث ہوتی اورٹھوس اقدامات کئے جاتے تو ممکن ہے کہ پلوامہ کا سانحہ رو نما نہیں ہو تا ۔ ان اعداد و شمار کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان چار سالوں میں فوجیوں کی ہلاکت میں بتد ریج اضافہ ہوا ہے ۔واضح رہے کہ اوڑی حملہ کے بعد سر جیکل سٹرائک بھی ہوئی مگر پھر بھی اعداد و شمار میں کوئی نمایا ں فر ق نہ ہوا بلکہ ہلاکت کی شرح میں اضافہ ہی ہو تا چلا گیا ۔یہ تشویشناک صورت حال تو جہ کی مستحق تھی ۔مگر نظر انداز کی گئی ۔وزیر اعظم لال قلعہ سے گو لی یا گالی کے بجائے بات چیت کا درس دیتے رہے اور بڈگام میں فاروق ڈار نامی نو جوان کو فوجی گاڑی کے سامنے بطور ڈھال باندھ کر گھما یا جا تا رہا ۔جموں و کشمیر میں جاری اس سیاسی عدم استحکام کی بہت بڑی قیمت کشمیریوں نے ادا کی ہے ۔جموں وکشمیر کی مو جو دہ صورت حال پر سنجید گی کے ساتھ غوروفکر کر نے کے بجائے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے ۔لیکن کیا محض الزام تراشی اور گیڈر پھبکیوں سے مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے انٹیلی جینس کے حوالہ سے اپنی واضح غلطی کا اعتراف کر کے سب کو چو نکا دیا ۔دی انڈین ایکسپریس سے بات کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات قبول کر نی ہوگی کہ ہم سے بھی غلطی سر زد ہوئی ہے ۔ہم شاہر اہ پر دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کو پہچاننے میں ناکام رہے ۔گورنر ستیہ پال ملک نے تسلیم کیا کہ ایسی کوئی خفیہ جانکاری ہمارے پاس نہیں تھی جس سے معلوم ہوتا کہ حملہ آور کو خود کش حملہ کی ٹریننگ دی جارہی ہے ۔جبکہ ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے قبل از وقت حملہ کی بابت اطلاع دے دی تھی ۔ یہ حملہ آور ہمارے مشتبہ افراد کی فہر ست میں تھا مگر ہم اس کو تلا ش نہیں کر پائے ۔گورنر صاحب اور ہندوستانی حکمرانوں کو اس سوال پر غور کر نا ہو گا کہ وہ کو ن سے سماجی و سیاسی عوام ہیں جو عادل ڈار جیسے کشمیر ی نوجوان کو اپنی جان پر کھیل کر خو دکش حملہ کی تر غیب دیتے ہیں ۔کہیں یہ عمل کا رد عمل تو نہیں ۔اگر امن وامان کی صورت حال کو بر قرار رکھنا ہے تو ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے ہونگے اور جب یہ گتھی سلجھ جائے گی تو ہلاکتوں کا سلسلہ خو د بخود بند ہو جائے گا ۔ہندوستانی حکومت کو تسلیم کر نا چاہئے کہ اب سر جیکل سٹرائک کا مو قع نہیں ہے ۔بلکہ عالمی برادری بشمول چین و پاکستان کو ساتھ لے کر اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ مو قع جذباتی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لینے کا ہے ۔یہ مو قع سیاسی بیان بازی اور سیاسی روٹیان سینکنے کا نہیں ہے بلکہ مصیبت کی اس گھڑی میں متاثرین کے گھروں کو جاکر تعزیت کرنے کی ضرورت ہے ۔اس مو قع پر حکومت پر تنقید اور پارٹی بازی کے بجائے پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر سیاسی پختگی کا ثبوت دینا چاہئے ورنہ ایک مر تبہ پھر انتخاب بنیادی مسائل کے بجائے جذباتیت کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اس کی قیمت کشمیر ی عوام کو چکانی پڑے گی ۔کشمیر ی قو م آزدی کے بعد سے ہی ظلم و ستم کی شکار ہے اور اب پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے ۔ہندوستانی فوج ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کر چکی ہے۔اور نوبت ایں جا رسید کہ اب ہندوستانی فوج کشمیر یوں کی نسل کشی پر اتر آئی ہے ۔اہل کشمیر پر اتنے ظلم و ستم ڈھانے کے بعد ہندوستانی ظالم فو ج اورنام نہاد حکمران یہ تو قع رکھیں کہ انہیں لوگ پھولوں کے گلدستے پیش کریں گے ۔ ایں خیال است و محال است و جنوں!۔ہندوستانی حکومت کو گذشتہ تاریخی حقائق کو مد نظر رکھ کر گہرائی کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر غور کر نا چاہئے تھا اورملکی و ملی مفاد کے پیش نظر کشمیر ی عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کر لینا چاہئے تھا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بین الاقوامی طور پر متنازعہ ریاست قرار دیئے جانے کو ہندوستانی فو ج دہشت گر دی قرار دے کر ایک لاکھ سے زائد کشمیر یوں کو شہید کر دے ۔مطالبہ آزادی کو انتہا پسندی اور بغاوت سے تعبیر کر کے نسل کشی شروع کر دے۔ان کی املاک کو تباہ و بر باد کر دے۔اپنے پیاروں کے جنازوں میں شر کت کر نے اور پر امن احتجاج کر نے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دے۔نہتے اور معصوم بچوں کو پیلٹ کا نشانہ بنا کر معذور کر دے ۔کشمیر یوں کو سر چ اپریشن کے عذاب میں مبتلا کر کے ہراساں و پریشان کر ے ۔ان کے پیاروں اور ہیروئوں کو پھانسی پر لٹکا کر جذبات کو کچلیں اور باقیات کی واپسی کا مطالبہ کر نے پر گولی چلا دے تو پھر مظلوموں سے یہ تو قع رکھی جائے کہ وہ آپ کا احترام کر ے ۔یہ ناممکن ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مکافات عمل کا پیش خیمہ ہو ۔عمل کا رد عمل ہو۔ہندوستانی حکومت جوا پنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے اسے یہ جمہوریت جموں و کشمیر میں بھی لاگو کر نی چاہئے ۔بھارت کو اٹو ٹ انگ کی رٹ چھوڑ کر اس مسئلہ پر سنجید گی سے غور کر نا چاہئے اور اس بات کو بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ کسی بھی قو م کو طاقت کے زور پر ہمیشہ کے لئے زیر اثر نہیں رکھا جا سکتا ۔یہ مسئلہ جو نا گڑھ و حیدرآباد کی طرح نہیں ہے کہ بقول نہر و وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا ۔بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ میں شدت آئی ہے ۔جس کی واضح مثال ضلع کھٹوعہ کا واقعہ ہے ۔جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی ہے۔70 سال گذرنے کے بعد حالات بہت بدل چکے ہیں ۔مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قو می انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اورجرات مندانہ فیصلے کر نا ہونگے جس میں تیسرے فریق کی بھی منشا شامل ہو ۔تاکہ جمو ں و کشمیر کے عوام سکھ کے ساتھ جی سکیں ۔اس دور میں بھی اگر معاشی طور پر آگے بڑھنے میں مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو پھر سب کو مل کر اس کو حل کر نے کی کو شش کر نی چاہئے ۔اس مسئلہ پر سیاست کر نے کے بجائے دیگر معاشی شعبہ جات میں تر قی کر نے کی ضرورت ہے ۔جس میں صحت ،زراعت ،تعلیم ،صنعت و حر فت قابل ذکر ہیں ۔بہتر ہے کہ اس مسئلہ کو پندرہ سے بیس سال کے لئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے ۔ٹر سٹی شپ کو نسل اقوام متحدہ کے چھ مر کزی اداروں میں سے ایک ہے ۔جو آرٹیکل ۷۵ اور ۷۶ کے تحت کام کر تی ہے ۔اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی متنازعہ خطہ کے لئے ٹر سٹی شپ کو نسل تشکیل دی جاسکتی ہے ۔اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک گیارہ ممالک یو این اے ٹر سٹی شپ میں رہے ہیں ۔واضح رہے کہ اس واقعہ سے کئی سوالات جنم لیاہے ۔آئی ای ڈی سے بھری گاڑی کی تیاری میں مہینوں لگتے ہیں ۔ایسے میں اتنے عر صہ تک منصوبہ بندی کہا ں ہو تی رہی ۔؟جگہ جگہ تلاشی اور کڑی سکیورٹی کے با وجود بقول ہندوستانی میڈیا اکیس بر س کا نوجوان تنہا وہاں تک کیسے پہونچا ؟ جب سر جیکل سٹرائک اور اپریشن آل آئوٹ سے تمام بیس کیمپ ختم کر دیئے ہیں تو پھر اتنا بڑا حملہ کیسے ہوگیا ؟کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بی جے پی کی گر تی ساکھ کو لاشوں کے سہارے کھڑا کر نے کی کو شش کی جارہی ہو ؟پچیس سو سے زائد فوجی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں تو اس کے لئے روٹ کیوں کلیئر نہیں کر وایا گیا ؟کسی ایڈوانس سکیورٹی یا سر چنگ پارٹی کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا ؟یہ ایسے سوالات ہیں جو ہندوستانی عوام ،میڈیا اور مر نے والے فوجیوں کے لواحقین کو ہندوستانی حکومت کا گریبان پکڑ کر جواب طلب کر نا چاہئے ۔
تنویر احمد راجوروی …9797574282
ای میل ۔[email protected]
 
 
 

موجودہ حالات پر سیاست

میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان ایک امن پسند اور جمہوری اور آزاد ملک ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ1947کی آزادی کے بعد ہم آج بھی غلام کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اگر میں انگریز دور حکومت میں دنیا میں آیا ہوتا اور آج زندہ ہوتا شاید میں انگریزوں کے ظلم سے آج کے ظلم و بربریت کو کچھ زیادہ محسوس نہیں کرتا ۔ جموںو کشمیر اگر ایک متنازعہ ریاست ہے جس کے حل کا اقوام متحدہ کی اُن قرار دادوں میں بھی موجود ہے تو پھر لڑائی کس بات کی ہے ۔ اس کا حل دلی میں چلنے والی حکومت کیوں نہیں کرتی ۔حل کی بات جل میں کیوں ہے ، ہر روز جموں و کشمیر میں 6نمازیں پڑھی جاتی ہیں ، وادی کشمیر ایک جنازہ گاہ میں تبدیل ہوئی ہے ۔ اگر دلی کی حکومت کو ان جنازوں کا دکھ ہوتا تو کشمیر میں پلوامہ جیسا واقعہ پیش نہ آتا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ کوئی پہلا واقعہ ہے ۔اس سے بڑھ کر نکسلواد یوں نے کار نامے انجام دئے ہیں اُن کو ہندوستان میں کوئی سوگ نہیں منایا گیا ، دکھ نہیںمنایا گیا ، کسی ہندو کو مارا نہیں گیا بلکہ آج اگر ملی ٹینٹوں نے یہ واقعہ دوہرایا تو مسلمانوںکو براہ راست اس کا نشانہ بنایا گیا ، مسلمانوں کی املاک کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ، پورے ملک میں کشمیری مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا ۔ ہمارے گول میں بھی ایک ایسا ہی حال ہے کہ جب شیڈی کا نڈ ہوا تو اُس وقت بھی یہاں کے کچھ مفاد پرست چپ تھے جب کوہلی کانڈ ہوا تو کوئی ہڑتال نہیں ہوئی ، جب جموں میں گاڑیاں جلائی گئیں تو ایک دم ہڑتال ہوئی ۔ گول کے مفاد پر ست لوگوں کو آخر کرنا کیا ہے۔ کب تک گول کے غریبوں کا ستیا ناس کرتے رہیں گے ۔ غریبوں کی بات کو اچھالنے والی ایک میڈیا ہے مگر افسوس یہ ہے جب میڈیا حقیقت کو لے کر چلنا شروع کرتی ہے تو اُن کو بھی ڈرانے دھمکانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ہے ۔ میڈیا ہماری نمائندگی کرتی ہے اور ہم نے اُسی میڈیا کا ساتھ دینا چاہئے جو حقیقت کو بیان کرتی ہے ، یہاں کی عوام کی پکار بیان کرتی ہے ۔ یہاں انتظامیہ اور پولیس بھی غریبوں کی مدد کرتی ہے مگر صرف چند ٹھیکیدارہیں جو غریب عوام کو بلی کا بکرا بنا کر ان کے حقوق کا استحصال کرتے ہیں ۔ یہاں کا نوجوان طبقہ جو مختلف ذہنی کا شکار ہو رہا ہے ۔ جہاں انہیں بات کرنے کی آزادی نہیں ہے وہیں بیروزگار ی کی وجہ سے یہ طبقہ کافی تنگ آ چکا ہے ۔ اگر اپنے حقوق کے لئے نوجوان کوئی آواز بلند کرتا ہے تو اُسے پی ایس اے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارے گول میں اظہار حق اور اظہار رائے پر مکمل طور پر پابندی ہے اور نوجوان طبقہ سسک سسک کر جی رہا ہے ۔نوجوانوں کے مسائل پر آج تک کسی سماجی تنظیم یا بیو پار منڈل نے اُن کا ساتھ نہیں دیا ہے ۔ 2017ء میں جب ہماری غریب عوام کو اپنی زمینوں سے ایک سازش کے تحت بے دخل کیا جا رہا تھا اُس وقت کے جنگلات وزیر چوہدری لال سنگھ کی قیادت میں یہ فیصلہ کیاگیا تھا یہاںکا نوجوان طبقہ اور نیشنل کانفرنس کے ورکران نے جب اُن غریب لوگوں کی جن کا گزر بسر صرف اسی اراضی پر تھا اور اُس وقت بھی بیو پار منڈل نے غریب زمینداروں کا کوئی ساتھ نہیں دیا جبکہ باقی تمام یہاں تک کہ انتظامیہ بھی عوام کی شانہ بشانہ کھڑی رہی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب اپنی باری آئی تو یہ لوگ بناء کسی مدعے احتجاج کی کال دے کر سڑکوں پر اُتر آئے ۔ سمجھ نہیں آتی یہ انسانیت ہے یا سیاسی پلائو ۔ ریاست میں تین سال سے حالات خراب ہیں ہر روز کسی نہ کسی کی جان جاتی ہے ۔ وادی کشمیر ایک قید خانہ بن کر رہ گئی ہے اور وادی میں قتل وغارت گری پر پوری ریاست میں ہڑتال ہوتی ہے ۔ بانہال، خطہ چناب ، پیر پنچال میں ہڑتال ہوتی ہے لیکن گول ایک ایسی جگہ ہیں جہاں انسانوں کی جانوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئے ہڑتال کی جاتی ہے ۔ یہاں کی عوام کو میں ایک نیشنل کانفرنس کا چھوٹا ورکر ہونے کی حیثیت سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ حق کا ساتھ دیں یہ نہ دیکھیں کون کس ذات سے تعلق رکھتا ہے جس نے ہمارے گول کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے ۔ اللہ کا واستہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ حق کا ساتھ دیں تا کہ یہ نوجوان طبقہ ذہنی پریشانی سے باہر نکل آئے اور ایک خوشحال گول کی تعمیر ہو سکے ۔
انتظار احمد ملک موئلہ،گول
   بلاک سکریٹری نیشنل کانفرنس گول