مزاحمتی قیادت بات چیت کی مخالف نہیں، 2010 تجویز مذاکراتی عمل کی بنیاد

سرینگر//مزاحمتی خیمے کی طرف سے2010 کی تجویز کوتازہ مذاکراتی عمل کیلئے بنیاد بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے بزرگ مزاحمتی لیڈر اور حریت(گ) چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ کشمیر کو متنازعہ خطہ قرار دیا جائے۔ حریت(گ)کے اہتمام سے حیدرپورہ میں نزولِ قرآن کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں سید علی گیلانی کے علاوہ ، محمد یٰسین ملک اورمحمد اشرف صحرائی نے بھی شرکت کی۔ سید علی گیلانی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی لیڈرشپ مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں ہے،اور اس وقت اگر نئی دہلی حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہے،تو انہیں پہلے کشمیر کو متنازعہ قرار دینا چاہیے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل میں بنیادی حقائق کا اعتراف کرنے کے بغیر شمولیت ماضی کی طرح فضول مشق ثابت ہوگی۔بزرگ مزاحمتی لیڈر کی طرف سے یہ بیان صرف ایک دن بعد آیا،جب مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا کہ نئی دہلی پاکستان اور حریت کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہے،’’اگر وہ بات چیت چاہتے ہیں‘‘۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ انہیں اخبارات سے معلوم ہوا کہ بھارت کے وزیر داخلہ نے یہ بیان دیا ہے۔انہوں نے سمینار میں موجود لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا’’ دیکھیں تب تک بات چیت کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے،جب تک نہ کہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے،ہم کھبی بھی بات چیت کے مخالف نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا’’اگر نئی دہلی سنجیدہ ہے تو انہیں کشمیر کی متنازعہ حیثیت تسلیم کرنی چاہیے،اور جب تک بات چیت میں سنجیدگی نہ ہو،تو اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ2010 کی ایجی ٹیشن کے دوران مزاحمتی قیادت نے بھارت کو ایک تجویز پیش کی تھی،جس میں کشمیر کو متنازعہ قرار دینے،فوجی انخلاء،تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور تمام کالے قوانین کو کالعدم قرار دینا شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ماضی میں بات چیت کے قریب150رائونڈ ہوئے،مگر کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیںہوا اور فضول مشق ثابت ہوئی۔گیلانی نے حقِ خودارادیت کی جائز اور مبنی برحق تحریک کی کامیابی کے لیے آپسی اختلافات کو ختم کرکے اتحاد واتفاق بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپسی اختلافات کو ہوا دینے اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے سے ہماری تحریک کو لاتلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، لہٰذا عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو اسلامی کردار کے ساتھ انتہائی نظم وضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے جووقت کی ضرورت ہے۔انہوں نے نوجوانوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ پوری ہوشمندی اور بالغ نظری کے ساتھ تحریک کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیں۔انہوں نے کشمیری قوم پر افواج کی طرف سے ظلم وبربریت کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک معصوم قوم کو فوجی طاقت کے بل پر پنجۂ استبداد میں جکڑنا ایک تکلیف دہ سانحہ ہے جسے نجات حاصل کرنے کے لیے پوری قوم نے عظیم قربانیاں دی ہیں اور بھارت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے طاقت کا بے جا استعمال کرے۔ اس موقعہ پر لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے نئی دہلی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی خیمے اور لوگوں کو مزاحمت سے دستبردار رکھنے کیلئے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ملک نے کہا’’2016میں حزب کمانڈر برہانی وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد صورتحال خراب ہوئی،ہم سب کو(مزاحمتی لیڈرشپ) اغوا کر کے بند کیا گیا،کلینڈر اجر ا ہوئے اور انکا تعاقب ہونے لگا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت صورتحال اس سے ابتر ہو چکی ہے کہ اب تعزیت اور جنازوںمیں بھی شمولیت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔محمد یاسین ملک نے کہا کہ جن لوگوں نے قیدخانوں میں20 برس  یا25برس گزارے ہیں انہیں مختلف جیلوں میں اسیر رکھا جا رہا ہے،جن میں ڈاکٹرقاسم فکتو،طارق ڈار، فیروز احمد،ایوب ڈار اور شوکت احمد کے علاوہ کئی لوگ شامل ہیں جنہیںعدالتی ہدایات کے برعکس بیرون ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسرت عالم بٹ،جن پر35 پی ایس اے نافذ کئے گئے،ابھی بھی جیل میں ہی ہے،اور کوئی بھی سرکار سے یہ پوچھ نہیں رہا ہے کہ انہیں بند رکھنے کے پیچھے کیا منطق ہے۔ملک نے کہا کہ رفیق احمد کو10برسوں کے بعد رہا کیا گیا تھا،پر ایک مرتبہ پھر پی ایس اے نافذ کیا گیا،اور انکی خطا یہ تھی کہ انہوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی تھی،اسی طرح جس طرح فرنٹ کے ضلع صدر بارہمولہ سراج الدین کو تعزتی اجلاس میں شرکت پر پابند سلاسل بنا دیا گیا۔ صحرائی نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اِس میں موجودہ زمانے کے نئے تقاضوں کا پورا پورا احاطہ کرنے کی وسعت موجود ہے اور دورِ جدید کا مسلمان کِسی بھی مسلے کے حوالے سے عاجز اور مجبور نہیں ہوسکتا۔ ایک صالح معاشرہ کی تعمیر کے لیے قرآن کی تعلیمات کو عام کرنا بہت مفید ہے۔کانفرنس میں  غلام نبی سمجھی، مولانا الطاف حسین ندوی، ایڈوکیٹ زاہد علی، حکیم عبدالرشید، مولوی بشیر احمد عرفانی نے خطابات کئے۔ حریت ترجمان غلام احمد گلزار نے نظامت کے فرائض انجام دئے، جبکہ کانفرنس کا آغازتلاوت سے ہوا جس کا فریضہ بشیر احمد قریشی نے انجام دیا۔