مزاج کی خوبیاں ذہنی صحت کی ضامن

Mental health symbol conceptual design isolated on white background

یہ بات تو بالکل طے ہے کہ جو انسان بُرائی کا نقصان نہیں جانتا وہ اُس کے واقع ہونے سے نہیں بچ سکتا اور جو انسان بھلائی کا فائدہ معلوم نہیں کرتا ،وہ اس کے کرنے پر قادر نہیںہوتا اور جس انسان کا علم اس کی عقل سے زیادہ ہوجاتا ہے وہ اس کے لئے وبال ہوجاتا ہےکیونکہ انسان کی سرشت میں جتنی دانائی ہے ،اُس سے زیادہ حماقت بھی بھری ہے۔ حالانکہ ہمارے ایمان و یقین کا یہ حصہ ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا،ہونا وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہےاورنتیجہ وہی نکلے گا جو تقدیر میں لکھاہوا ہے، گویاہماری تمام جدوجہد اور تدابیر کا حاصل اس قدر ہے کہ ہمیں اسباب کا پابند کیا گیا ہے اور اللہ کی مرضی اور تقدیر میں درج فیصلوں کا ہمیں بالکل علم نہیں ہے،تاہم تدبیر کے درجہ میں ساری توانائی لگا دینی ہے اور پھر اللہ سے مانگنا بھی ہے کہ ہمیں کامیابی عطا فرما۔اس کے برعکس جب ہم اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیںتو ہم سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں،ہم کسی بھی کام میں اللہ پر اعتماد کا سہارا نہیں لیتے،تقدیر کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتےاور جب ناکامی ہاتھ آتی ہے تو ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں،یہاں تک کہ ہم اپنے اقدام کی صلاحیت تک کھو دیتے ہیںاور بعض اوقات کسی کام کے بھی نہیں رہ جاتے ہیں،جس کی سب سے بڑی وجہ اللہ سے دوری اور دین سے بے زاری ہے۔نتیجہ منافق ہو یا مخالف انسان کوہر معاملے میں تن بہ رضائے الٰہی رہنا چاہئےتاکہ اُس کے ذہنی سکون اور دماغی سوچ میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔اس وقت معاشرے میں اکثرہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر لوگ تنہائی کے شکار ہوکر مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔نہ وہ نفسیاتی ڈاکٹروں سے پاس جاتے ہیں اور اپنے علاج پر توجہ دیتے ہیں،کئی تو اپنے معاشی حالات اور تنگ دستی کے پیش نظر ایسا نہیں کرپاتے اور کئی اپنے اولاد یا اپنے والدین یا رشتہ داروں کی بے رُخی یا غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں بالآخر ایسے کئی مریض اپنی زندگی سے عاجز آ کر خود کشی بھی کرلیتے ہیں۔موجودہ دور میںایک اور سبب ٹیکنالوجی کا ہماری زندگی میں بڑھتا ہواعمل دخل ہے، اس سے سہولتیں تو بے پناہ حاصل ہوتی ہیں، لیکن بیشتر لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے زیادہ اس پر اعتماد کرنے لگے ہیں،اس لیے اُن کی ذہنی صلاحیت ہی نہیں صحت مندی پر بھی بُرا اثر پڑا ہے، اور وہ موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ٹیب اور دوسرے آلات کے قیدی اور اسیر ہو کر رہ گئے ہیں، ان کے غیر ضروری استعمال نے اُن کی آنکھوںکی نیندتو چھین لی ہےبلکہ اُن پر ڈالے گئے ہزاروں اور اق کی دید و شنید سے جسمانی اعصاب پر بھی بڑا اثر ڈالاہےاوراُن کے جذبات و خیالات اور طرز عمل کو اس قدر اور اس طرح متاثر کیا ہے کہ وہ دہنی طور پر بیمار اور انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک چیز حد ہوتی ہےاور جب کوئی حد سے گذر جاتا ہے تو اُس کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔بے شک صحت مند جسم اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے۔ البتہ مضبوط اور صحت مند جسم کے ساتھ ذہنی صحت نہ ہو تو زندگی کی معنویت ختم ہو کر رہ جاتی ہے، ہم ایسے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو جسمانی اعتبار سے انتہائی توانااور تر و تازہ ہوتے ہیں، لیکن حرکتیں پاگلوں جیسی کرتے ہیں، ان کے چہرے،چال چلن اور حرکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں،بات کرتے کرتے بھول جانا، موضوع پر بات کرتے کرتے بغیر جوڑ کی باتیں شروع کر دینا،یاداشت ساتھ نہ دینے پر پیشانی اور زمین پر زور سے ہاتھ مارنا، یہ سب غیر صحت مند ذہن کی علامتیں ہیں۔جس کے باعث اُن میں کام کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم ان اسباب ووجوہات پر غور کریں، جن سے نہ صرف اُن کی بلکہ ہماری اپنی ذہنی صحت مندی بھی متاثر ہوجائے۔ذہنی صحت مندی کو نقصان پہنچانے والی چیزمنفی سوچ اور فکر ہے، دوسروں کے منفی رویے سے بھی ذہنی صحت متاثر کرتی ہے، اس لئے بہتر ہےکہ جب کبھی دوسروں کا منفی رویے سامنے آئے،تو اسے اللہ کے حکم کے مطابق اچھے طریقے سے ٹالنے کی کوشش کیجیےاور اپنے ذہن و دماغ کو منفی افکار و خیالات سے محفوظ رکھیں۔ مثبت سوچ کے حامل افراد میں ذہنی امراض کی شرح بہت کم ہوتی ہے، اس لیے مثبت سوچ کو اپنائیں، خوش رہنا سیکھیں،اچھی کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیںاور اللہ کی قربت حاصل کریں۔