مرکزی وزیر بجلی کی کھری کھری!

 مرکزی وزیر بجلی آر کے سنگھ نے جموںوکشمیر کے اندر نیشنل ہائیڈل پاور کارپوریشن کے تحت قائم پن بجلی پروجیکٹوں کی ریاست کو واپسی سے جن دوٹوک لفظوں میں انکار کردیا ہے، اُس سے صاف ظاہر ہورہاہے کہ ریاستی حکمران اتحاد پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان طے پائے ایجنڈا آف الائنس کی فی الوقت مرکز کے سامنے کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے، کیونکہ وزیر موصوف نے کہا کہ یہ سارے پروجیکٹ ملک کی ملکیت ہیں اور اگر ایسا کوئی قدم اُٹھایا گیا تو باقی ریاستوں کے اندر بھی اس طرح کے مطالبات کئے جاسکتے ہیں، جنہیں تسلیم کرنا ممکن نہیں، کیونکہ جس طرح ان پرجیکٹوں سے دیگر ریاستوں کو بجلی فراہم ہورہی ہے، اُسی طرح باقی ریاستوں میں قائم پروجیکٹوں سے حاصل شدہ بجلی بھی جموںوکشمیر کو فراہم ہوتی ہے۔ یہ باتیں وزیر موصوف نے ریاست میں مرکزی اعانت سے چل رہی بجلی کی مختلف سکیموں کا جائزہ لینے کی غرض سے ریاست کے دورے کے دوران کہیں۔ وزیر موصوف کے اس بیان پر حکمران اتحاد کی صفوں میں حیرت اور اچنبھے کی صورتحال پائی جاتی ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان حصول اقتدار کے لئے جن اہم باتوں پر اتفاق رائے قرار پایا تھا اُن میں 390میگاواٹ پیدواری صلاحیت کے ڈول ہستی اور 480میگاواٹ کے اُوڑی پن بجلی پروجیکٹ کی واپسی کی کوشش کا ذکر موجود تھا اور 2014-15بجٹ اجلاس کے دوران ریاستی وزیر خزانہ نے بجلی کے مطالباتِ زر پر بحث کے دوران ایوان اسمبلی کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت اس معاملے کے حوالے سے مرکزی کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ رابطے میں ہے۔ لیکن کم و بیش 3برس گزرنے کے بعد اس طرح واضح لفظوں میں مرکز کا انکار یقینی طور پر ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ کم از کم حکمران پی ڈی پی کو اس حوالے سے عوام کے اندر بدظنی پیدا ہونئے سے پہلے حقائق عوام کے سامنے رکھ کر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ دیکھا جائے تو پن بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کے معاملے پر ابتداء سے ہی مرکزی حکومتوں کی نیت صاف نہیں رہی ہے، وگرنہ 1975میں ایک کابینہ آڈر کے ذریعے اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ سلال پن بجلی پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی 690میگاواٹ بجلی کی پیداوار میں این ایچ پی سی اور ریاستی حکومت کی پچاس پچاس فیصد حصہ داری رہے گی، لیکن عملاً نہ کبھی ایسا ہوا اور نہ ہی اس کے امکانات کا کہیں دور دور تک نام و نشان دکھائی دیا۔ اگرچہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس مخلوط حکومت اور موجودہ اتحاد کے اولین دور ِ حکومت میں سینئر وزراء نے مرکزی حکومتوں کے ساتھ یہ معاملات اٹھائے تھے لیکن ہر مرحلہ پر انہیں نہ صرف مرکزکی سرد مہری کا سامنا رہا بلکہ دوٹوک انکار بھی سننا پڑا۔ اب موجودہ مرکزی وزیر بجلی کی نئی تاویل نے اس مباحثے کو ایک نئی طرح دی ہے، جہاں ریاست کے قدرتی وسائل پر ریاست کے اختیار کو ہی نکارا گیا ہے۔ اس طرح حکمران اتحاد کے درمیان طے پائی دستاویزی مفاہمت ایجنڈا آف الائنس کی اہمیت کو مزید گھٹا دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس دستاویز میں ڈول ہستی اور اوڑی پروجیکٹوں کی واپسی، باقی ماندہ پروجیکٹوں میں ریاست کو مناسب حصہ اور این ایچ پی سی کی طرف سے دی جانے والی رائیلٹی کے معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کی بات کی گئی ہے، لیکن مرکزی حکومت کے موجودہ وطیرہ سے اس غبارے سے پوری طرح ہوا نکل گئی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کے لئے بجلی کی خریداری پر صرف ہونے والی رقم ریاستی بجٹ پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے، جو اُس وقت تک کم نہیں ہوسکتا جب تک کہ این ایچ پی سی کے ساتھ طے پائے معاہدات کی شرائط کا از سر نو جائزہ نہ لیا جائے اور اس کارپوریشن کے منافع سے مناسب حصہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو۔اس کے لئے ریاستی حکومت کو کسی نہ کسی وقت پہل کرنا ہی پڑے گی، بصورت دیگر مستقبل میں یہ کسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ موجودہ انتظام ریاست کے آبی وسائل کا براہ راست استحصال ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔