’’رمضان کریم‘‘کی فضیلت اور عظمت و اہمیت کے حوالے سے مشہور صحابی رسولؐ،حضرت سلمان فارسیؓ سے طویل حدیث منقول ہے ۔روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’تمہارے اوپر ایک مہینہ(رمضان المبارک) آرہا ہے جو بہت عظیم ہے ،بہت مبارک ہے، اس میں ایک رات ہے (شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کی راتوں کے قیام (تراویح) کوثواب کاعمل قراردیا ہے، جو شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے، وہ ایسا ہے جیسا کہ وہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے، یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے، یہ عمل اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا، اور روزے دار کے ثواب کی مانند اسے ثواب حاصل ہوگا، مگر اِس روزے دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔
صحابہ ؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ وہ روزے دار کو افطار کرائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (یہ ثواب ) پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں،یہ تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کوبھی عطا فرمائے گا جوایک کھجور سے افطار کرادے یا ایک گھونٹ پانی پلادے یا ایک گھونٹ لسی پلادے،یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت،درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے آزادی کا ہے۔
چار چیزوں کی اِس میں کثرت رکھا کرو، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو،وہ کلمۂ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ (جہنم) سے پناہ مانگو،جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے گا،تو حق تعالیٰ قیامت کے دن میری حوض سے اسے ایسا سیراب فرمائے گا،جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اُسے پیاس نہیں لگے گی‘‘۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خطبہ مبارک رمضان کے استقبال کے موقع پر دیا،اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اس مہینے کی کچھ خصوصیتیں اور آداب ارشاد فرمائے، اولاً یہ کہ یہ صبر کا مہینہ ہے،یعنی اگر روزے وغیرہ میں کچھ تکلیف ہو تو اسے بہت شوق سے برداشت کرنا چاہیے،یہ نہیں کہ ماردھاڑکی جائے، جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔
غرض ہر حال میں صبر ہی کرنا چاہیے۔ پھر ارشاد ہوا کہ یہ غم خواری کامہینہ ہے یعنی اس مہینے میں غربا ومساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے،اس پر رمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور شبِ قدرمیں جبرائیلؑ اِس سے مصافحہ کرتے ہیں اور جس سے حضرت جبرائیل ؑمصافحہ کرتے ہیں،اُس کی علامت یہ ہے کہ اُس کے دِل میں رِقّت پیداہوتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔
’’رمضان‘‘ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں۔’’جھُلسادینے والا‘‘ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو’’رمضان‘‘کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی ۵/۲۷۳)
اللہ تعالیٰ نے رمضان کریم کا مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میںآدمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔
رمضان المبارک نیکیاں کمانے،بُرائیوں سے چھٹکارا پانے اور اپنے افکار و اعمال کے تزکیے کا بہترین موقع ہے،اس میں سب سے بڑا عمل خود ’’روزہ‘‘ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔روزے کی اہمیت سے متعلق آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص قصداً روزہ نہ رکھے، بغیر رخصت (مرض) کے اگر وہ تمام زندگی بھی روزے رکھے تویہ (رمضان کے)ایک روزے کا بدل نہیں ہوسکتا۔
روزے کو عربی زبان میں ’’صوم‘‘ کہتے ہیں،جس کے معنیٰ رکنے کے ہیں یعنی روزے کی حالت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی سے رک جائو۔حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے اصلاحی ٹریننگ ہے۔جس نے پرہیزگاری اختیار کی، یعنی احکام الٰہی اور تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چلا، وہی شخص کامیاب ہوا۔ اس پورے مہینے کی ٹریننگ بندے کو متقی اورپرہیزگار بنا دیتی ہے۔ وہ اللہ سے ڈرنے والا اور احکامات شریعت پر چلنے والا بن جاتا ہے۔
الحمد للہ،رمضان المبارک کی صورت میں یہ خیر و برکت کا مہینہ جلوہ افروز ہورہا ہے۔ وہ مہینہ آگیا کہ جس کی عبادت اجر و عطا کے اعتبار سے سب مہینوں سے بڑھ کر ہے۔فرض نماز کا اجر ستّر گنا اور نوافل کا اجر فرض کے اجر کے برابر۔پھر اس ماہ مبارک میں روزے رکھنے والوں کو یہ نوید بھی سنا دی گئی کہ تم نے روزہ میرے لیے رکھا تھا،لہٰذا اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا۔کیسی عظمت و برکت کا مہینہ ہے کہ جس کے دن اور رات رحمت ہی رحمت ہیں۔ اگر ہم نے اس مہینے کی قدر نہ کی تو بدقسمتی ہوگی، پتہ نہیں اگلے سال یہ برکتوں والا ماہ مبارک ہمیں ملتا بھی ہے کہ نہیں؟
حضرت کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منبر کے قریب ہونے کا حکم دیا، ہم حاضر ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ’’آمین‘‘جب دوسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا ’’آمین‘‘ جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا ’’آمین‘‘ ہم نے عرض کیا ،یا رسول اللہؐ!آج ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا) اس وقت حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے اور انہوں نے یہ بددعا کی تھی کہ وہ شخص ہلاک ہو، جسے رمضان کا مہینہ ملے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو،تو میں نے کہا، آمین۔
پھر جب میں نے دوسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا، وہ شخص برباد ہو جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرمبارک کیا جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے، تو میں نے کہا آمین، پھر جب تیسرے درجے پر چڑھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ شخص بھی ہلاک ہو جو زندگی میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کرائیں تو میں نے کہا۔آمین۔ (الترغیب و الترہیب56/2)
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ،رحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۵)
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اسے پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے،جب تک بندہ گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔ (نسائی حدیث ۲۲۳۳، مسند احمد حدیث ۱۶۹۰)حضرت عائشہ صدیقہؓسے مروی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری ۱/۲۵۴، حدیث ۱۸۹۴، صحیح مسلم حدیث ۱۱۵۱)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر بندہ تقویٰ کی سعادت سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر صرف کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین ثم آمین یا رب العالمین)