مرحوم عمر مجیدؔ گم شدہ جنت کا بے باک کہانی کار

سہیل سالمؔ

سرسیدؔ رقم طراز ہیں کہ ’’کسی قوم کے لئے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھودے‘‘۔اس دور کا شاید یہ المیہ ہے کہ بدلتے حالات اور نئے رجحانات زندگی کے گونا گوںمسائل اور مصروفیات میں مبتلا انساں کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ وہ یادوں کے چراغ جلا کر اپنے حال کوروشن کرے اور اپنے ان مخلص بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کرے جنھوں نے شعر وسخن کی شادابی کو برقرار رکھا ، تہذیب وثقافت اورزبان و ادب کے لیے اپنی زندگیاںوقف کردیں۔ ایسی ہی ایک فرشتہ صفر شخصیت عمر مجید کی ہے۔انھوں نے پوری زندگی اردو زبان و ادب کے فروغ میں لگا دی۔ایسی شخصیت پر بطور خراج عقیدت کچھ لکھنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔

عمر مجید 18ستمبر 1940کو سونہ وار باغ سرینگر میں تولد ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام غلام قادر میر تھا۔ان کا پورا نام عبدل مجید میر تھالیکن ادبی دنیا میں عمر مجید کے نام سے مقبول و معروف ہوئے۔انھوں نے ۱۹۵۸ میں کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔اس کے بعد ٹینڈل بسکو میں بحثیت مدرس اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔عمر مجیدنے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز ۲۵سال کی عمرمیں کیا جب ان کا پہلا افسانہ ’’ایک بو ڑھا ولر کے کنارے ‘‘عنوان کے تحت روزنامہ آفتاب میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کے افسانے برصغیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں شمع،نگار، آجکل، بیسویں صدی،شیرازہ ،تعمیر، شاعر لفظ لفظ اور کشمیر اعظمی قابل ذکر ہیں۔آپ ریاست کے معتبر اور معروف افسانہ نگارکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ نے موجودہ مذہبی،سیاسی اور سماجی مسائل کو کہانیوں کا روپ دے کر دبستان کشمیر کے فکشن نگاروں میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔عمر مجید ؔ اپنے افسانوں میں زندگی کی وحشتوں ،قدروں کی پامالی،انسان سے اخوت کا رشتہ،تہذیبی ،تمدنی اور معاشرتی کشمکش کو بھر پور انداز میں پیش کرتے ہیں۔نیز اپنے افسانوںکے پلاٹ اپنی دھرتی کے پست طبقوںکی مردہ زندگیوں سے چنتے ہیں ۔اس وقت تک عمر مجیدؔ ؔکے دو ناول اور ایک افسانوی مجموعہ شائع ہو کر داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ان کے عنوانات اجالوں کے ’’گھائو‘‘،’’یہ بستی یہ لوگ‘‘اور ’’درد کا دریا‘‘ ہیں۔ عمر مجیدؔ ؔنے سماج کا مطالعہ ایک معالج کی نظر سے کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوںکے لئے ایسے نادر موضوعات کا انتخاب کیا ہے جس کا انہیں فہم و ادراک حاصل تھا۔ عمرنے روزمرہ کی پر آشوب زندگی کو کہانی کے قفس میں قید کر کے رکھا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس زندگی کے مختلف تجربات اور مشاہدات کی کمی نہیں ہے۔کشمیر کے منظر اور پس منظر میں انہوں نے ناول ا اور افسانے لکھے۔ظاہر سی بات کوئی بھی کہانی کار تبھی ان موضوعات ومسائل پر خامہ فرسائی کرتا ہے یا کسی علاقے کے ماحول یا تہذیب وثقافت،کلچر،سوسائٹی اور طرز زندگی پر لب کشائی کرتا ہے جب کہ وہ خود اس ماحول کا حصہ ہویا فرد رہا ہو نیز وہ منظر و مسائل اس نے خو د اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔اور پھر عمر صاحب کے فن کا تعلق ہوتو وہ ہمیشہ ادب برائے ادب نہ ہو کر ادب برائے زندگی کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ان کا ایسا کوئی افسانہ یا تخلیق نہ ہوگی جس میں مقصدیت یا پیغام نہ ہو وہ رومانیت یا خواب و خیال کی دنیا سے بہت دور تھے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمر مجیدمختلف کرداروںکی پرچھائیوں کے توسل سے اپنی کہانیوں میں خو د چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔اس طرح ان کی کردارنگاری کے حوالے سے بھی عمر مجید کی شخصیت کو پہچانا اور سمجھا جاسکتا ہے۔افسانہ’’ ماتم کے بعد ‘‘میں عمر مجید لکھتے ہیں:’’ انسان زندگی بھر منزلوں کی تلاش میں رہتا ہے لیکن ہر منزل پر پہنچ کر اسے کسی دوسری منزل کی تلاش میں سفر شروع کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔تلاش درتلاش۔منزل در منزل۔سفردر سفر۔منزل کہاں ہے؟سفر کا انت کہاں ہوگا؟ کب ہوگا؟ سب کو معلوم ہوتے ہوئے بھی کسی کو نہیں معلوم ۔۔‘‘

عمر مجیدکے بیشتر افسانے انسانی واردات ،ظلم،قتل وغارت،بے چینی، افراتفری،انتشار،جنگ و جدل اور غیر یقینی صورت حال کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔
ان میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ لفظوں کی شطرنج کا استعمال کر کے قاری کوپریشانی میں مبتلا نہیں کرتے ہیں۔ عمرمجیدکی نظریں آس پاس کے کرداروں وموضوعات پر ٹکتی ہیں جو مخلص ،سیدھے سادے ،میلے کچلے ،غربت زدہ خستہ حال اور زمانے کے منافقانہ نظام کے ستائے ہوئے ہیں۔عمرؔ ان ہی لوگوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوںمیںموجودہ زندگی اور معاشرے کی مکرو فریبیت کو منظر عام پر لایا ہے۔وہ زندگی کے اس بہروپیئے نظام پر تشوش و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔بقول عمر مجید :’’میم صاجب کے ہونٹوں پر ایک حسین سی مسکراہٹ معنی خیز انداز سے پھیل گئی اور گل محمد نے اک چھوٹی سی بات سوچ لی ۔۔۔ہر بڑا آدمی میرے صاحب کی طرح برا ہوتا ہے۔۔۔تمہاری بیوی کا نام کیاہے ۔خوبصورت سا نام ہوگا اور خود بھی خوبصورت ہوگی ،تم لوگ جتنے خوبصورت ہوتے ہو اسی قدر تمہارے نام بھی خوبصورت ہوتے ہیں۔۔کیا نام ہے تمہاری بیوی کا۔۔۔؟

’’شہناز ‘‘ شہناز ۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ خوبصورت نام ہوگا اور یقیناً خوبصورت ہوگی لیکن کتنی بدنصیب ہوگی۔۔اس حسین رات میں اکیلی ہوگی۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ تمہارے صاحب۔۔۔ (افسانہ چھوٹا آدمی)

عمر مجیدکے چند افسانے ایسے ہیں جن میں زندگی کی معنویت،زندگی کی مقصدیت ا ور زندگی کے نشیب وفراز کو اس طرح پیش کیا گیا ہیں کہ قاری کے کلیجے پر چوٹ پڑتی ہے۔ علاوہ ازیںعمر صاحبؔ لگ بھگ ایک سوکے قریب افسانے لکھ چکے ہیں۔’’میری گلی کاغم‘‘، ’’برف کے پھول ‘‘،’’لاپتہ‘‘، ’’یہ شام بھی کہاں ہوئی ‘‘ ، ’’خزاں کا آخری دن‘‘ ،’’درد کا مارا‘‘، ’’گزرے مو سم کا درد‘‘ ،’’سب سے بڑا غم‘، ’’گمشدہ جنت‘‘، ’’کھیل‘‘ اور سفر مسافرمنزل جیسے مشہور افسانے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے بھر پور ہیں۔ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے افسانہ نگار نے سماج کے وجود میں اتر کر سماجی بیماریوںکوایک مثبت طریقے سے علاج کرنے کی کوشش کی ہے۔ زبان وبیان اور فنی اعتبار سے عمر مجیدؔکے افسانے ایک منجھے ہوئے اور ایک بے باک افسانہ نگارکے شہ پارے ہیں۔انہوں نے خود اپنا ایک اسلوب قائم کیا ہے جس پر انھیں عبورحاصل ہے۔بقول نور شاہ:’’جہاں تک ان کے تحریر کردہ افسانوں کا تعلق ہے کشمیر ،کشمیری اور کشمیریت ان کے افسانوں کے محبوب ترین موضوعات ہوتے تھے۔مرحوم کے افسانے ہوں،افسانچے ہوں،مضامیں ہوں یا اخباری کالم ۔ان کی ہر تحریر میں زبان و بیان کی سادگی اور تازگی ایک منفرد اسلوب میں نظر آتی ہے۔چونکہ ان کی ادبی زندگی کا فلسفہ ذہن و زبان کی آزادی پر مبنی تھا اس لئے ان کی سوچیں اور ان کا قلم بھی بندشوں اور پابندیوں سے آزاد تھا۔جہاں بھی اور کہیں بھی کشمیرکے افسانہ نگاروں کے تعلق سے گفتگو ہوگی تو یہ گفتگو مرحوم عمر مجید کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ آخر کار 23 دسمبر 2008کودبستان کشمیر کا یہ بے باک کہانی کار اپنی گم شدہ جنت سے پرواز کر کے اصلی جنت کی طرف روانہ ہوئے ۔بقول حفیظ میرٹھیؔ
اک جا بر کا مجبوروں نے کچھ ایسے استقبال کیا
آنکلا ہو جیسے مسیحا کوئی درد کے ماروں میں
ہر ظالم سے ٹکر لی ہے سچے فن کاروں نے حفیظ
ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ د یں ہم ہیں تابع داروں میں
���
رعناواری سرینگر،موبائل نمبر؛9103654553