سرینگر// نیشنل کانفرنس کے بانی مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی 115ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔ اِس سلسلے میں اُن کے مقبرہ واقع نسیم باغ میں (شیر کشمیر ریڈنگ روم ہال) صبح صادق ہی قرآن خوانی، کلمات، دُعائے مغفرت کی مجلس آراستہ ہوگی۔ پارٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب صدر عمر عبداللہ اور دیگر قایدین اجتماعی فاتحہ خوانی میں شمولیت کرینگے۔ شیر کشمیر بھون جموں، لداخ اور کرگل کے علاوہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی اِسی نوعیت کی تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے نیشنل کانفرنس سے وابستہ تمام سابق ممبران قانون سازیہ ، ضلع صدور، سکریٹری صاحبان ، بلاک صدور ، یوتھ اور زنانہ ونگ کے عہدیداروں کو ہدایت کی کہ وہ پروگرام کے مطابق مزار قائد پر اپنی حاضری یقینی بنائے اور اپنے قاید کو خراج عقیدت پیش کرے۔ اُنہوں نے پارٹی کارکنان سے ہدایت کی کہ وہ جوق در جوق مزار قائد پر حاضری دیں اور اپنے محبوب لیڈر کو خراج عقیدت پیش کریں۔
مرحوم رہنماکی قربانیاں انتھک جدوجہد کی داستان :خالدہ شاہ
سرینگر// عوامی نیشنل کانفرنس کی صدر بیگم خالدہ شاہ نے اپنے بیان میں کہا کہ آج جموں و کشمیر کے عوامی رہنما اور سنجیدہ سیاست کی آبروشیخ محمد عبداللہ کی 115 ویں ولادت کا دن ہے یہ میرے والد محترم بھی تھے۔ دفعہ 370 اور 35-A اْن کی قربانیوںاور انتھک جدوجہد کی داستان ہے،سرفروشی کی حکایت ہے ۔عوامی اقدار کی حفاظت کے لئے مرحوم رہنما کے جذبوں کی کہانی ہے جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ تعمیر و ترقی کا جو نقشہ شیخ محمد عبداللہ نے کھینچا تھا آج اس پربھارتی جنتا پارٹی اور RSS پانی پھیر رہے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب ہندوستان کا آئین تیار کیا جا رہا تھا تو شیر کشمیر اور ہندوستان کے درمیان آئینی تعلقات کا مسئلہ بھی سامنے آیا ۔ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں خود شیخ محمد عبداللہ مرزا محمد افضل بیگ اور مولانا محمد سعید مسعودی کشمیر کے نمائیدے بن کر شامل ہوئے اور اس کے بعد آئین ہند کی دفعہ 370 جب ایک مسودہ کی صورت میں پیش ہوئی اس وقت مسودہ آئین میں کشمیر سے متعلق اس دفعہ کا نمبر 306-A تھا ۔شیخ صاحب نے ورکنگ کمیٹی کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد اس دفعہ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ بنیادی اور شہری حقوق براہراست طور ریاست پر حاوی کئے گئے تھے اور آئین کی تمھید میں یہ بات درج کی گئی تھی کہ کشمیر کے متعلق یہ خصوصی دفعہ بہت کم وقت کے لئے موجودرہے گا ۔شیخ صاحب نے مسودہ آرٹیکل 306-A میں ترمیم کرکے متبادل مسودہ پیش کیا۔ تو سر گو پالاسوامی آئینگر نے شیخ صاحب کی ترمیم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ شیخ صاحب نے بھی آئین ساز اسمبلی سے مستعفی ہونے کا ارادہ ظاہر کیا۔آخر کار شیخ صاحب کا ترمیم شدہ ڈرافٹ تسلیم کرکے 306-A دفعہ 370 میں تبدیل ہوا۔ آرٹکل 370 کے مطابق مرکز اور ریاست کے درمیاں تعلقات وضع کے گئے اسی دفعہ کے تحت اتفاق کیا گیا کہ جموں و کشمیر کے لئے ایک آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے جو طے کرے گی کہ ہندآئین کی کونسی دفعات ریاست جموں و کشمیر پر لا گو کی جاسکیں گی ان معاملات پر کشمیر کے نمایندوں کے ساتھ جو گفت وشنید ہوئی اس کو دہلی اگریمنٹ میں شامل کیا گیا۔۔انہوں نے کہا کہ شیخ محمد عبداللہ اگر زندہ ہوتے تو دفعہ 370 اور 35 -A کو ختم کرنے کی غزلیں سنانے کی کسی کو جرائت نہ ہوتی۔انہوں نے کہا کہ حالات آج بی جے پی کے ہاتھوں سے تیزی سے بدل رہے ہیں۔تعمیر و ترقی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔لوگ دم بخود رو رہے ہیں یہ اب اتحادی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر لداخ میں بی جے پی کی تخریبی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے متحد اور متفق رہتے ہوئے بڑتی خرابیوں کو ناکام بنانے میں مصروف جدوجہد کریں۔
قوم کو شخصی راج کے ظلم سے نجات دلائی
نیشنل کانفرنس کے زعماء کا خراج عقیدت
سرینگر//نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگراور دیگر رہنماؤں چودھری محمد رمضان، محمد شفیع اوڑی، عبدالرحیم راتھر ، میاں الطاف احمد، محمد اکبر لون، شریف الدین شارق، عرفان احمد شاہ ، پیرزادہ غلام احمد شاہ ، ناصر اسلم وانی، دیوندر سنگھ رانا، آغا سید روح اللہ مہدی، آغا سید محمود، خالد نجیب سہروردی، سجاد احمد کچلو ، عبدالغنی ملک ، شری ایس ایس سلاتیہ، محمد سعید آخون ، ترجمان عمران نبی ڈار اور اجے سدھوترا نے اپنے ایک مشترکہ بیان میںشیخ محمد عبداللہ کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی عوام اپنے مرحوم قائد کی مسلسل جدوجہد ، بے باک قیادت اور ہمدردانہ جذبات کو تا قیامت فراموش نہیں ہونے دیں گے۔اِن کی قیادت میں ہی اِسی قوم کو شخصی راج کے ظلم وستم سے نجات ملی، زمین کے حقوق کاشتکاروں کے نام منتقل ہوگئے اور لوگوں کو لاعلمی اور جہالت کے اندھیروں سے باہر نکالنے کیلئے منصوبوں پر تیز رفتاری کے ساتھ عمل کیا جاتا رہا۔ یہاں کے عوام کو پریس پلیٹ فارم کی آزادی سے ہمکنار کرنا شیخ صاحب کی اولین کوششوں میں شامل تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ ظالم کے بجائے ظلم کے پورے نظام کے خلاف برسرپیکار تھے۔ اور ان کی جدوجہد کا دائرہ تنگ وتاریک نہیں تھا۔ انہوں نے موروثی حکمرانی کے خلاف صف آراء ہوکر نہ صرف وراثتی راج کو اکھاڑ پھینکا، بلکہ شخصی راج کی صعوبتوں اور ظالمانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔