طارق شبنم
وادی کشمیر کے ادبی افق پر سجی کہکشاں میںمرحوم شہزادہ بسمل کا ایک نمایاں مقام ر ہا ہے، جو عرصہ دراز تک اردو زبان و ادب کے گلشن کو سجانے اور سنوارنے میں مصروف عمل رہے ہیں ۔بسمل صاحب بہترین شخصیت کے مالک، نہایت ہی ملنسار ،ہر ایک سے محبت کرنے والے اور صاف گو انسان تھے ۔آپ کے اعلیٰ اخلاق ،بہترین طرز کلام اور شرین زبان انسان کو متاثر کئے بنا نہیں رہ سکتے اور ہر ملنے والا ایک ہی ملاقات میں ان کی شخصیت کا اسیر ہو جاتا تھا ۔روزنامہ کشمیر عظمیٰ سرینگر میں کم وبیش بارہ سالوں تک متواتر طور شایع ہوتا رہا ان کا ہفتہ وارمقبول عام کالم ’’چلتے چلتے‘‘ ان کی ایک خاص پہچان ہے ۔
شہزادہ بسمل کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ان کا قلمی سفر کم وبیش پچاس سال پر محیط ہے جس دوران انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ،لیکن ان کے کالم بہت زیادہ مقبول ہوئے ۔حق بات یہ ہے کہ راقم الحروف بھی ان کے کالموں کا گرودیدہ رہاہے جن کے مطالعہ سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا تھا ۔ان کا اصل نام غلام قادر خان ،شہزادہ بسمل قلمی نام تھااور اسی نام سے ادبی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ آپ کی پیدائیش سن1944 ء میں سرینگر کے ستُھو بر بر شاہ کے علاقے میں ایک تجارتی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے ۔ ابتدائی تعلیم مڈل سکول ستُھو بر برشاہ میں حاصل کرنے کے بعد بسمل صاحب نے سری پرتاپ ہا ئی سکول میں داخلہ لیا‘ جہاں انہیں اکبر جے پوری جیسے استاد کی صحبت حاصل رہی ‘جنہوں نے ان کو لکھنے کی ترغیب دی۔ بہرحال یہاں سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد جموں کشمیر یونیورسٹی میں ماہوار پچاس روپے کے تنخواہ پر بحیثیت کلرک تعینات ہوئے۔ لیکن پرائیویٹ امیدوار کے طور پر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی سرینگر سے بی ۔اے ۔اردو اور جامع اردو علی گڑھ سے اردو ادبیات کی ڈگریاں حاصل کیں ،جب کہ ہندی ادبیات واردھا گجرات کے چند امتحانات پا س کر کے ہندی زبان پر بھی عبور حاصل کر لیا ۔آپ یونیورسٹی میں سات سال تک بحیثیت کلرک فرائیض انجام دیتے رہے اور ترقیوں کے منازل طئے کر تے ہوئے بورڈ آف سکول ایجوکیشن سے جوائینٹ سیکریٹری ایڈمنسٹریشن کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔
شہزادہ بسمل دردمند دل کے مالک انسان تھے اسی لئے انہوں نے نوجو انی کے ایام میں ہی قلم و قرطاس کو سنبھال کر اپنے دل میں چھپے اس درد کو بانٹنا شروع کیا۔ان کا پہلا افسانہ1968ء میں سرینگر سے شایع ہونے والے روز نامہ آفتاب میں شایع ہوا ۔پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا اور آپ کے افسانے روزنامہ آفتاب کے ادبی ایڈیشن اور دوسرے اخباروں میں متواترشایع ہوتے رہے لیکن بعد میں 1974 ء میں ان کا رحجان اچانک کالم نویسی کی طرف گیا اورانہوں نے پندرہ روزہ مسلم کے لئے مزاحیہ کالم ’’چلتے چلتے‘‘ لکھنا شروع کیا۔ یہ کالم اخبار بین حلقوں میں مشہور ہوگیا اور آپ یہ کالم کم وبیش چالیس برس تک مسلسل لکھتے رہے ،جب کہ اس دوران پندرہ روزہ احتساب کے لئے’’ قوس قزاح‘‘ اور ماہنامہ الحیات کے لئے ’’سات رنگ‘‘ عنوانات سے بھی کالم لکھتے رہے۔ موصوف 2009 ء سے آخری دم تک روز نامہ کشمیر عظمیٰ کے لئے ہفتہ وار کالم ’’چلتے چلتے ‘‘بلا ناغہ تحریر کر تے رہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان کا یہ کالم جس میں وہ مختلف سماجی ،سیاسی ،معاشی ،تعلیمی اور اسلامی موضوعات پر اپنے منفرد ودلچسپ انداز میں روشنی ڈالتے تھے ،عوامی حلقوں میں کافی مقبول تھے اور قارئین کو اس کالم کا بے صبری سے انتظار رہتا تھا ۔اطلاع کے مطابق ایک طالبہ ان کے کالموں پر ایم ۔فل بھی کر رہی ہے۔
شہزادہ بسمل کی آٹھ کتابیں، جن میں سیرت پاک پر’’ آنحضرت ﷺہندو صحائف میں ‘‘،’’خدا کے لئے مجھے بچائو‘‘ (مشہورڈل جھیل کی رودار)اور دو افسانوی مجموعے ’’رقص بسمل‘‘ اور’’ خوشبو کی موت‘ اور چلتے چلتے (کالموں کے تین جلدیں ) منظر عام پر آکر قارئین سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ سیرت پاک پر مذ کورہ کتاب ان کے سچے عاشق رسول ہونے پر دلالت کرتی ہے جب کہ ان کے اکثر کالموں میں بھی حضور پر نورؐکی محبت اور مساوات کی تعلیم کا تذ کرہ ملتا ہے ۔ ’’خدا کے لئے مجھے بچائو‘‘ کتابچے میں انہوں نے جھیل ڈل کی رودار الم کی تفصیل انتہائی خوبصورت اور دلچسپ انداز میں بیان کی ہے جو قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے ۔اس کتا ب پر بات کرتے ہوئے مدیر اعلیٰ ’’الحیات ‘‘ ڈاکٹر جوہر قدوسی یوں رقم طراز ہیں ۔
’’صدیوں پرانی کہانی جو اس جھیل کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر ہما رے سامنے پیش کرتی ہے ۔ڈل کی اس ایک کہانی میں صدیوں پر پھیلے ہوئے عہد بہ عہد کی تہہ درتہہ دسیوں کہانیاں جنم لیتی ہیں اور پڑھنے والے کے ذہن کو ایک نئے ہی عالم میں پہنچا دیتی ہیں ۔ایک ایسا عالم جہاں جھیل ڈل خود اپنی زبان میں ہماری کوتاہ اندیشیوں پر خندہ زن ہو کر کبھی ہنسنا شروع کردیتی ہے اور کبھی اپنے تئیں ہمارے نا روا سلوک پر ماتم کرنے لگتی ہے ۔کہیں یہ جھیل مسرور و مخمور ہو کر فخر کے ساتھ اپنے کارناموں کا ذکر کرنے لگتی ہے اور کہیں اپنے دامن کے چاک ہونے پر مغموم و مجروح ہو کر رونا شروع کر دیتی ہے ۔کہیں پر اپنے زیر سایہ ہو رہی سرگرمیوں کی چشم دید گواہ بن کر ان کی دلچسپ رودار سناتی ہے اور کسی جکہ تاریخ کے اتھاہ سمندر میں غوطہ لگا کر چند موتی نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے ‘‘۔(خدا کے لئے مجھے بچائوص۷)
کالم نگاری کے ساتھ ساتھ شہزادہ بسمل فن افسانہ پر بھی اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے جس کا ثبوت ان کے دو افسانوی مجموعے، جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے،ہیں۔قابل ذکر ہے کہ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ رقص بسمل‘‘ 1985ء میں جموں سے شایع ہوا تو ڈائیریکٹراسکول ایجو کیشن جموں نے مالی سال 1985 / 86 کے لئے محکمہ تعلیم جموں کے لئے منظور کیا اور اس مجموعے کا دوسرا ایڈیشن بیس ہزار کی تعداد میں چھاپ کر جموںصوبہ کے ضلعی تعلیمی افسران کو سپلائی کیا گیا ۔1986ء میں اس کا تیسرا اور2018ء میں چوتھا نظرثانی واضافہ شدہ ایڈیشن منظر عام پر آیا ۔اس مجموعے کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر ظہورالدین لکھتے ہیں :
’’فنی اعتبار سے یہ کہانیاں دلچسپی سے خالی نہیں ہیں ۔خوش آیند پہلو تو یہ ہے کہ فنکار نہ صرف کہانی کہنے کے فن سے واقف ہے بلکہ ماضی میں ہوئے مختلف تجربات اور ان کے اسا لیب سے بھی روشناس ہیں۔اس لئے کہیں تو وہ بیانیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں تو کہیں ڈرامائی ،کہیں وہ خطوط نگاری کے اسلوب کو برتتے ہیں تو کہیں نقاد اور تبصرہ نگارکے تجرباتی اور تخیلی انداز کو‘‘۔ (رقص بسمل ص۹)
شہزادہ بسمل کا دوسرا افسانوی مجموعی’’ خوشبو کی موت‘‘ سن 2018ء میں منظر عام پر آیا ۔وہ اپنے افسانوں میں زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کو بڑے ہی فنکارانہ انداز میں پیش کرتے تھے ۔تنقیدی نکتہ نظر سے اگر چہ ان کے افسانوں پر بات کرنے کی گنجائیش ہو سکتی ہے لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں انسانی سماج کو درپیش غربت ،کرپشن ،اخلاقی پستی جیسے ہمچو قسم کے مسائل کو دلچسپ انداز میں پیش کرکے معاشرے کے رستے زخموں پر مرہم کاپھاہا رکھ کر ایک شفاف اور خرافات سے پاک سماج کی تشکیل کے متمنی تھے ،یہ اقتباس دیکھیں :
’’پیار کی میٹھی اور اشک انگیز دنیا کے مزے لوٹ کر میری نیندیں اُڑ چکی تھیں۔میں نے سوچا کہ سوئوں گی نہیں بلکہ اپنے دولہے کا انتظار کروں گی ۔میں حسین دنیا کے تانے بانے بُننے میں کھوگئی۔تقریباً آدھا پونا گھنٹہ گزرا ہوگا ۔پھر دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی ۔ میں اشتیاق بھرے انتظار کے ساتھ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ کوئی میری مسہری پر آیا۔اُس کے منہ سے شراب کی بد بو آرہی تھی ۔میں نے چونک کر اُسے دیکھا مگریہ ۔۔۔۔۔۔وہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔ اگر یہی میرا دولہا تھا ۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ کون تھا؟‘‘(افسانہ ۔۔۔۔۔ خوشبو کی موت)۔
شہزادہ بسمل کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے معروف معالج اور ادیب ڈاکٹر نذیر مشتاق لکھتے ہیں ۔
’’جناب شہزادہ بسمل اپنے افسانوں میں واقعات کی جس فنی مہارت اور پُر اثر انداز میں منظر کشی کرتے ہیں اُس کا اندازہ افسانے پڑھنے کے بعد ہوتا ہے ۔جملوں کی ساخت اور استعاروں کا استعمال مصنف کو اتنا اچھا آتا ہے کہ افسانوں کا ہر جملہ قاری کے دل کے تا روں کو چھیڑ کر اس کے جذبات و احساسات اور امنگوں میں خاموش ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ ‘‘(خوشبو کی موت ص۱۳)
شہزادہ بسمل اپنی تحریروں میں موقعہ اور مناسبت کے لحاظ سے خوب صورت اشعارکا بھی استعمال کرتے تھے جن سے ان کی تحریروں کا حسن دو بالا ہو جاتا تھا ۔ موصوف کا قلمی سفر دم آخر تک اپنے آب وتاب کے ساتھ جاری و ساری رہا اور وہ مختلف سطحوں پر اردو زبان و ادب کی زُلفیں سنوارنے میں منہمک رہے۔آپ ہفتہ روزہ’’ مسلم‘‘،ماہنامہ’’ الحیات‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ بورڈ آف سکول ایجو کیشن کے ا ن فیر مینزکمیٹی کے ممبرتھے جب کہ جموں کشمیر فکشن رائیٹرس گلڈ کے صدر کے عہدے پر بھی فائیز رہ چکے تھے ،ہر ہفتے گلڈ کی ہفتہ وار نشستوں میں اپنی دلنشین تحریریں پڑھ کر اور اردو فکشن کے حوالے سے اپنے تجربات کو بیان کرکے نئے لکھنے والوں کی تربیت کا کام انجام دیتے تھے ۔اردو ادب کا یہ سچا شیدائی کچھ وقت تک علیل رہنے کے بعد 23مئی 2022 ء کو اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے کر سفر آخرت پر روانہ ہوا اللہ ان کی لغزشوں کو معاف فرماکر کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔۔۔آمین ۔
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی آشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا
���
مضمون نگار ولر اردو ادبی فورم بانڈی پورہ کے صدر ہیں
[email protected]