مرحوم تایاجان

 دیوار پر لٹکتی کلاک ساکن تھا، اس کی بے حس وحرکت سوئیاں وقت کی گردش سے روٹھی دِکھ رہی تھیں، وقت تھم سا گیا تھا ، درد دیوار پر سکوت طاری تھاکیونکہ ہمارے یہاں صبحِ کا ذب سے قبل ہی موت کا فرشتہ وارد ہوا۔وہ کسی کو دِکھے نہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ بنااطلاع کئے بنا دستک دئے مقررہ وقت پرآتا ہے اوراپنے ساتھ اُسے لے جاتا ہے جسے اُٹھانے کا اِذن ا للہ نے دیا ہو۔ حکم کی بجاآوری کی دیر ہوتی ہے کہ مرنے والا مشت ِ خاک بنجاتاہے، اس کا گھر ماتم کدے میں بدل جاتا ہے ، افرادِ خانہ کا سکون غارت ہوجاتا ہے ، رونے دھونے کا عالم بپا ہوجاتاہے مگر جانے والا چپ چاپ اللہ کے بلاوے پر لبیک کہہ کے چلاجاتا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔۔۔ ہمارے یہاں بھی تایاجان کی روح قبض کر نے کے لئے ملک الموت حضرت عزرائیل ؑ خالقِ مو ت و حیات ومالک ارض وسماء کا پیغام ِ اجل لے کر دبے پاؤں آیا اور گھر میں حشر جیساسماں بپا کرکے چل دیا۔۔۔تایا جان فوت ہوئے ،وہ طویل مدت تک موت و حیات کی کشمکش میں تھے مگر۹؍نومبر ۲۰۱۸ء بروز جمعہ زیست کی سانسیں رُک گئیں اور وہ انا للہ وانا الیہ راجعون کا موضوع بن گئے۔
دنیا میں بھیجا جانے والا ہر انسان در حقیقت آخرت کا مسافر ہوتاہے۔ ابن ِ آدم کی شخصیت کو قرآن میں نفس سے تعبیر کیا گیا ہے ،جو اُس کے جسمانی وجود سے الگ ایک مستقل روحانی وجود ہے، جب اللہ اس کا یہ وجود جسم وجان سے الگ کردیتا ہے، تو ہم عام معنی میں اسے موت کہتے ہیں۔ اُس کے لئے ایک خاص فرشتہ مقرر ہے جس کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ایک نظام الاوقات کے ساتھ ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ ایک فرد بشر کی موت کے بعد سفر آخرت کے جس مرحلے سے انسان کا گزر ہوتا ہے، اُسے برزخ کہتے ہیں ۔ یہ فارسی لفظ ’’پردہ‘‘ کا معرّب ہے اور اُس حدفاصل کے لئے استعمال ہوتا ہے، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔ یہ گویا ایک روک ہے جو اُنہیں دنیا میں واپس آنے نہیں دیتی ۔ عالم برزخ کی اصطلاح اسی سے وجود میں آئی ہے۔ روایتوں میں قبر کا لفظ مجازاََاسی عالم کیلئے بولا گیا ہے۔ اس میں انسان زندہ ہوگا لیکن یہ زندگی جسم کے بغیر ہوگی اور روح کے شعورو احساس اور مشاہدات و تجربات کی کیفیت اس زندگی میں کم و بیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں انسان کی ہوتی ہے۔ قرآن سے مترشح ہوتا ہے کہ قیامت کو صور اسرافیل پھونکنے سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا اور لوگ گویا نیند سے جاگ جائیں گے ۔مجرمین خاص کر اپنے آپ کو میدان ِ حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر حیرت سے کہیں گے’ ’ہائے افسوس! کس نے ہمیں آرام گاہوں سے اُٹھایا‘‘(یٰس۔۵۲)۔قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اس پہلو سے واضح ہوگا کہ وہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اپنے پرورگار کیلئے درجۂ کمال میں بندگی اوروفاداری کا حق ادا کرگئے ہیں، اُن کیلئے ایک نوعیت کا ثواب اور راحت اِسی عالمِ برخ کے مرحلہ سے شروع ہوگا ۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکش اور تکبر سے حق جھٹلانے والے اپنے رب کے کھلے نافرمان بن کر جیئے، اُن کیلئے بھی ایک نوعیت کا عذاب اسی عالمِ برزخ میںشروع ہوجائے گا۔۔ صحیح احادیث میں قبر کے جس عذاب و ثواب کا ذکر ہوا ہے، وہ درحقیقت یہی ہے۔ 
 مرحوم تایا جان عنایت اللہ بٹ (المعروف کک سانگا) اب منوں مٹی نیچے محو ِ خواب ہیں ۔وہ نوے کے دور ِ پُر آشوب میںایثار پیشہ سابقون الاولون جوانوں کے ہراول دستے میں تھے۔ انہی حالات کے خار زار میں انہیںگولی بھی لگی، تکالیف اور مشکلات کا سامنا بھی رہا، تین سال تک پابند سلاسل بھی رہے۔ شکر ہے انہوںنے کبھی بھولے سے بھی اپنی مزاحمتی پوزیشن کا ناجائز استعمال نہیں کیا، اس پر ہمیں فخر ہے۔ شرافت کے پتلے  اس مخلص انسان نے بڑی سادہ زندگی بسر کی ، عسرت اورفقرو فاقہ برداشت کئے لیکن کبھی اُف تک نہ کی۔ خُدا کے اس بندے نے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاکر اپنی خودداری کا بھرم بھی ہر حال میں قائم رکھا اور کسی بھی قیمت پر اپنی غیرت و حمیت کا سودا نہ کر نے کی ادائے دلبرانہ سے لوگوں کا دل موہ لیا۔ نوے کے قریبی ساتھی اس بات کے شاہد عادل ہیں کہ کُک سانگا ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی اور ہمدردی کے ساتھ پیش آیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ شہرخاص کے کسی محلے میںایک عمررسیدہ بزرگ خاتون اور اُن کی بہواپنے چھوٹے بچوںکے ساتھ خوف اوربے چینی کی زندگی بسرکررہے تھے، تایاجان سے اُن کی بے چینی اور مظلومیت برداشت نہ ہوئی اورانہیںگھرلایا۔کافی عرصہ مذکورہ فیملی ہمارے یہاںمقیم رہی۔ہمارے مکان میںاتنی وسعت تونہ تھی لیکن دلوں میں اللہ کے فضل سے اتنی گنجائش  موجودتھی۔ مرحوم نے کبھی بھی اپنے حلقہ ٔ اثر میں ، محلے میں یا علاقے میں اپنی بڑائی نہ جتائی، کبھی من گھڑت قصے اور واقعات سنا کر اوروں کو مرعوب نہ کیابلکہ مزاجاً ہمیشہ عاجز ی وانکساری کا مجسمہ بنے رہے۔ راقم نے ہوش سنبھال کر اُنہیں ہمیشہ سنجیدہ مزاج، کم گفتار ، نرم اطوار پایا اور تادمِ مرگ اُن کی یہ من پسند ادائیں زندہ وجاوید رہیں۔انہی کے بل بوتے پروہ عزت اور خودداری کی زندگی بسرکر نے میں کامیاب رہے ۔
  آج اٹھائیس سال سے اہل کشمیر مسلسل زخم پر زخم کھارہے ہیں ،یہاں ایسا کوئی گھر نہیںجو حالات کی سولی پرچڑھ کر ماتم کناں نہ ہواہو۔ کوئی ایسا جوان نہیں جو نامساعدت کا شکار نہ ہوا ہو۔ کوئی ایسی ماں نہیں جواپنے لخت جگر کی عافیت کے لئے فکر مند اور دعاگو نہ رہتی ہو۔ کوئی ایسی بہن نہیں جو حالات کی چکی میں وحشت زدہ نہ ہو۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ہر ذی رُوح مخلوق اور حسا س ذہن والا شخص بے چین وبے قرارہے۔اتناہی نہیں بلکہ مجھے لگتا ہے کہ یہاں کی بستیاں ہی نہیں بلکہ دشت و بیابان، شجر وحجر، کھیت و کھلیان ، دریاوآبشار،بلند قامت کوہسار ،پھلوں سے لدے باغات مسلسل مغموم وپژمردہ ہیں۔ یہاں آسمان بھی روتاہے اور زمین بھی اشک بار ہے۔ کسی نے وطن عزیز کوجنت کہا ہے لیکن یہ کہنا آج کی تاریخ میں اصلاً اہالیانِ کشمیر کے ہرے زخموں پر نمک پاشی کے برابر ہے۔ بہرحال مرحوم تایا جان کشمیر میں نامساعد حالات کے تسلسل سے دل برداشتہ تھے ، وطن کاغم ان کو اندر ہی اندر چاٹتا رہتا، یہاں کی نوخیز کلیوں کا مرجھاجانا ان کے جگر کو پاش پاش کر جاتا ،وہ کہتے رہتے اگر جنت ایسی ہوتی ہے تو پھر جہنم کیسی ہوگی؟ زندگی اس کا نام ہے تو پھر موت ہمارے لئے نعمت سے کم نہیں ! 
ہماراسماجی المیہ یہ ہے کہ ہم کُک سانگا جیسے مخلص نوجوان اپنے گرد ونواح ہزاروں کی تعداد میں مغموم و دلفگار پاکر بھی ان نوجوانوں کی کوئی خبر نہیں لیتے۔ ایسے ہزاروں نوجوان نوے کی دہائی کے بعد بے روزگار ی کے ہاتھوںدردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ وہ جیل کی تنگ کوٹھری میںتکلیف و اذیت بھری زندگی بسر کرتے رہے اور باہر کے بڑے زندان میں اُن کے اقرباء یعنی ماں ، باپ ، بھائی ، بہن ، بیوی ، بچے نان ِ شبینہ کو ترستے رہے۔ جیل سے لے کر عدالتتک کسی ادارے نے اُنہیں کوئی انصاف نہ دیا بلکہ ان کے لئے بھاری بھرکم مشکلات دوآتشہ کر کے انہیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اُدھر اُن کی زندگی میں دشواریوں کے خار زار جابجا اُگ آئے، اِدھرشفقتِ پدری سے محروم اپنی بیوی بچوں کی بدحالی اُن کے دل میں ا س قدر کڑھن اورگھٹن کی کاشت کرتارہا کہ وہ جسمانی طور لاغرو بیمار رہنے لگے ۔ یہ واحد ان کی داستان ِ حیات نہیں بلکہ ایسے ہزارہا نوجوانوں کی مشترکہ داستان ہے جنہوں نے اپنے خوابوں اور آرزؤں کا گلا گھونٹ کر وطن کی راہ میں زندگی کی تمام کڑواہٹوں کو گلے لگایا اور آخر پر اپنے پیچھے بوڑھے اور بے سہارا والدین ، بیوائیں ،نیم بیوائیں‘ یتیم ویسیر بچے بچیاں سر راہ چھوڑ کر دنیا کوالوداع کہی۔ مرحوم تایاجان کی زندگی کو بہت جلد جان لیوا بیماری نے اندر سے اتنا چاٹا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے ۔ مرحوم اپنی ساری زندگی عسرت ،مصائب اورمشکلات میں گزار کر آج اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ گئے اور یہ بات ہمارے لئے وجہِ تسکین ہے کہ موذی بیماری میں مبتلا ہو کر بھی وہ اللہ کے ہر فیصلے پر صابر و شاکر تھے۔گزشتہ ایک سال موذی مرض میں مبتلا رہ کر ان کو شفایاب دیکھنے کی ڈاکٹری کوششیں بالآخربے سُود رہیں ۔ مولانا رومی ؔ فرماتے ہیں   ؎ 
چوں قضا آمد، طبیب ابلہ شود
آں دوادرنفع ،خود گمرہ شود  
 (جب بیمارکوقضا آتی ہے تو طبیب بھی باؤلا ہوجاتا ہے۔ نفع دینے والی دوا بھی بے اثر ہوجاتی ہے)اللہ کے ہر فیصلے پر ہم ہر حال میں راضی ہیں ۔بس اب اللہ کے حضور ان کی معغفرت اور جنت نشینی کے لئے دست بدعا ہیں۔
رابطہ: ریسرچ اسکالرکشمیریونیورسٹی،سرینگر