مذہب کے نام پر خوں ریزی

دنیا میں رونما ہونےوالی زیادہ تر جنگوں کی دو اہم وجوہات رہی ہیں ۔مذہب اور عورت ۔ بادشاہوں نے کسی ایک خوبصورت عورت کے حصول کے لیے ملک کے ملک تباہ کردیے ۔اسی طرح مذہب کے نام پر ہونے والی جنگوں نے زمین پر خوں ریزی اور انسان کشی کے واقعات میں اضافہ کیا ۔عورت کے نام پر ہونے والی جنگیں اتنی خطرناک نہیں ہوتی تھیں جس قدر مذہب کے نام پر ہونے والی جنگوں کے ہول ناک نتائج سامنے آئے ۔استعماری طاقتوں اور ہوس پرست سماج نے عورت کے حصول کو اس قدر آسان بنادیا کہ اب جنگیں فقط مذہب کے نام پر رونما ہوتی ہیں ۔عورت کا حاصل کرنا اب اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہا جتنا سمجھا جاتا تھا ۔آج استعماری طاقتیں اپنے آلۂ کاروں کے لیے حسین ترین عورتوں کا انتظام کرتی ہیں اور انہیں تعیش پرستی کے تمام تر اسباب و سائل مہیا کرائے جاتے ہیں ۔اسی طرح دیگر ملکوں کے سیاسی رہنمائوں اور سرمایہ داروں کے لیے بھی عورت کا حصول بہت مشکل کام نہیں رہا۔عورت کو ترقی اور ماڈرن ازم کے نام اس قدر فریب دیا گیا جس کی مثال متمدن تاریخ میں نہیں ملتی ۔ماڈرن ازم کے بہانے عورت کا جسمانی و فکری استحصال کیا گیا اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے ۔لیکن یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ عورت کے نام پر رونما ہونے والی جنگوں کا رواج ختم ہوچکاہے ۔موجودہ زمانہ مذہب کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کا زمانہ ہے ۔برما میانمار ،یمن ،شام ،عراق ،نائجیریا،افغانستان اور فلسطین میں جاری بربریت مذہب کے نام پر ہی وجود میں لائی گئی ۔اسی طرح ہندوستان میں ہاشم پورہ ،گجرات ،میرٹھ ،مظفر نگر ،دہلی اور تری پورہ میں ہونے والے فسادات اور خوں ریزی کے پیچھے بھی مذہبی جنون ہی کارفرما تھا ۔مذہب کے نام پر ہونے والی جنگوں کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں ۔پہلے ایک ملک دوسرے ملک کے ساتھ مذہب کے تحفظ کے لیے لڑتا تھا ۔آج ملک کے اندر ہی مختلف محاذوں پر مذہب کے نام پر لڑائیاں لڑی جارہی ہیں ۔
گذشتہ نصف صدی میں ہندوستان میں جتنے فساد ہوئے ان کے پس پردہ بھی مذہبی جنون ہی کارفرما تھا ۔سیاست نے مذہب کا سہارا لے کر نوجوانوں کو اقلیتی طبقے کے خلاف اس قدر اُکسایا کہ مذہبی جنون کا شکار انسان دوسرے انسانوں کے قتل پر آمادہ ہوگیا ۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں قتل عام کے جتنے واقعات رونما ہوئے ان کا محرک مذہبی جنون ہی تھا ۔ہندوستان کا نوجوان خواہ وہ کسی بھی مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہو اپنے مذہب اور عقیدے کو لے کر بےحد حساس ہے ۔شرپسند طاقتیں اسی حساس طبیعت کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور نوجوانوں کو مذہب کے نام پر فساد و خوں ریزی کےلیے استعمال کرتی ہیں ۔جس تنظیم نے مذہب کا سہارا لے کر ہی اقتدار تک رسائی حاصل کی ہے ، وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ نوجوان نسل مذہبی جنون سےنجات حاصل کرے ۔کیونکہ مذہبی جنون سے نجات انہیں سیاست سے بے دخل کردے گی ۔نوجوان نسل کے لیے مذہب افیون کی طرح ہے جس کے نشے میں دھت ہوکر وہ ہرطرح کا گھنائونا جرم انجام دینے کی ہمت کرسکتے ہیں ۔
ہردی دوار میں 17 دسمبرسے 19 دسمبر تک دھر م سنسد کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ’اسلامی دہشت گردی اور ہماری ذمہ داریاں ‘ کے موضوع پر مختلف سادھو سنتوں اور دیگر افراد نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ ہندوئوں کو متحد کرنے ،ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے ،مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کرنے اوران کے قتل عام کے لیے ہندوئوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی گئی ۔ اس پروگرام میںسادھو سنتوں کے علاوہ ایک ٹی وی چینل کے ایڈیٹر اور مالک اور مرتد جیتندر تیاگی (وسیم رضوی) جیسے لوگ بھی شامل تھے ۔ظاہر ہے جو لوگ مذہب کے نام پر ملک میں نفرت کا بیج بورہے ہیں ان سے امن اور شانتی کی توقع کرنا بالکل عبث ہے ۔ یہ لوگ نفرت کی پاٹھ شالا سے نکلے ہیں، اس لئے امن کی بات کرنا ان کی فطرت کے خلاف ہے ۔ان منافروں نےسنسد کے شرکاء کو ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کا حلف دلوایا اور کہاکہ وہ اس کے لئے مرنے اور مارنے کے لیے تیارہیں ۔اسی طرح جتیندر تیاگی جس کا ماضی بدعنوانیوں سے داغدار ہے،اپنے تحفظ کے لیے قرآن مجید اور پیغمبراسلام ؐ کی اہانت کرچکاہے ،اس لیے اس سے بھی امن اور انصاف پسند تقریر کی توقع کرنا خلافِ عقل ہے ۔مگر سادھو سنت جو ہمیشہ امن و شانتی کے پیغام کے لئے جانے جاتے ہیں ،ان میں سے بھی بیشترکے دل و دماغ میں اس قدر نفرت کا زہر بھردیاگیاہے کہ وہ بھی اپنے اقدار کے خلاف مرنے مارنےکی باتیں کررہے ہیں ۔حیرت یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں اتراکھنڈ سرکار نے محض جتیندر تیاگی (وسیم رضوی) کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد دس بارہ دنوں بعد ایک اور منافر سنت کے خلاف کیس درج کرکے حراست میں لیا ہے،جبکہ دیگر افراد،جنہوں نے مسلمانوں کو دھمکانے ،ان کے قتل عام کرنے،ہندوئوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب اور ملک میں فتنہ و فساد کے لیے تقریریں کی تھیں، کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ہے ۔جس ملک کی انتظامیہ سرکارکی غلام ،مصلحت آمیز خاموشی کی آئینہ دار اور جانبدار ہو، اُس ملک میں اقلیتی طبقے کو کیسےتحفظ فراہم ہوسکتا ہے ۔ہاشم پورہ ،مظفر نگر ،گجرات،دہلی اور پھر تری پورہ کے المناک واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ پولیس نے کس طرح جانبداری کا مظاہرہ کیاہے ۔بلکہ بعض مقامات پر تو پولیس شرپسند عناصر کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے جیساکہ دہلی فساد کے فوٹیج میں بھی صاف نظر آچکاہے ۔پولیس کے جانبدارانہ رویے پرمیڈیا رپورٹس کے ساتھ وبھوتی نرائن رائے کی تصانیف بھی قابل ذکر ہیں ،جن کے مطالعے کے بعد ہندوستان کی بدلتی ہوئی تصویر ہمارے ذہنوں میں صاف ہوجاتی ہے ۔اتراکھنڈ پولیس کی مصلحت کوشی ،جانبدارانہ کاروائی اور سرکاری دبائو  ہرگزملک کی مفادحق میں نہیں ہے ۔اگر ایسے منافرعنصرکے خلاف سخت قدم نہیں اٹھایاجاتا تو اکثریتی طبقے کے جوانوں کو اقلیتی طبقات کا قاتل بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا ۔
گذشتہ سات سال میں ہندوستان کو نفرت کی بھٹی میں جھونک دیا گیاہے ۔ورنہ ہم نے کبھی سادھو سنتوں کو نفرت کی زبان بولتے نہیں دیکھا ۔اِکّا دُکّا اگر کبھی کسی نے ایسی اشتعال انگیز زبان کا استعمال کیا بھی تو ملک کے سادھو سنت اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔مگر یہ موجودہ دور کا نیا بھارت ہے، جہاں دن دہاڑے اقلیتی طبقات کو قتل عام کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دہلی فساد سے لے کر مظفر نگر ،گجرات ،ہاشم پورہ اور تری پورہ میں ہونے والے فسادات پر سرکار کی جانبدارانہ پالیسی اور اپوزیشن جماعتوں کی عدم دلچسپی اور خاموشی صاف اشارہ کررہی ہے کہ حالات کتنے سنگین ہیں ۔ہری دوار کے بعد چھتیس گڑھ کےضلع رائے پور میں دھر م سنسد انعقاد پذیر ہوئی، جہاں ہری دوار کی ہی طرز پر اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں ۔رائے پور دھر سنسد میں جب مسلمانوں کی نسل کشی اور ہندوئوں کو اقلیتی طبقات کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی جارہی تھی، تو کئی سادھو سنت اس پروگرام کا بائیکاٹ کرتے نظر آئے ہیںجن میں دودھاری مٹھ کے مہنت رام سندر داس شامل تھے ۔یہ وہی لوگ ہیں، جن کی بنیاد پر ملک میں امن اور سالمیت کا وجود باقی ہے ۔کیونکہ سادھو سنت ہمیشہ امن و اتحاد کی بات کرتےآئے ہیں ۔نفرت کا بیج بونے والے سادھو سنت ملک کے جوانوں کو قاتل بنانا چاہتے ہیں ۔جبکہ سادھو نوجوان نسل کے مستقبل کی بہتری کی فکر کرتاہے ۔وہ دھر م کے نام پر فساد اور خوں ریزی کی بات نہیں کرتت بلکہ نسلِ نو کو دھر م کی اہمیت اور تیاگ کا پاٹھ پڑھاتے ہیں۔ایسے سادھوئوں کی اب بھی ملک میں کوئی کمی نہیں مگر وہ ابھی تک، نام نہاد اور منافر سنتوں کے خلاف کھلے عام میدان عمل میں نظر نہیں آرہے ہیں۔
ہری دوار اور رائے پور دھر م سنسد میں بابائے قوم مہاتما گاندھی اور ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے خلاف بھی تقریریں کی گئیں ۔منافر نظریات کے حامیوں نے تو گاندھی جی کو ملک کا دشمن تک بتا یا گیا اور اُن کا قتل حق بجانب قرار دے دیا گیا،لیکن ایساکہنے والوں اور اُن کے حامیوں کے خلاف سرکار اور انتظامیہ نے کوئی کاروائی نہیں کی ہے،جس سے صورتحال کی سنگینی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ ملک کی سرکار اور انتظامیہ اس سلسلے میں فکر مند اور سنجیدہ نہیں ہے ۔ہندوستان کا مسلمان آج بھی عدالت عظمیٰ کے انصاف کا قائل ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کی عزت اور اہمیت آج بھی قائم ہے ۔ملک کی سالمیت کے لیے یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
 (رابطہ۔7355488037)