مذاکرات ہی واحد راستہ

جموں// جموں وکشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے کہا کہ وادی کشمیر میں ہڑتالوں اور ایجی ٹیشنوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ بقول ان کے ’ان ہڑتالوں اور ایجی ٹیشنوں سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہورہا ہے‘۔ انہوں نے ایجی ٹیشنوں میں نوجوانوں کی شرکت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ ہمارا سیاسی نظام اور سماج ان کو ایجی ٹیشنوں میں شامل ہونے سے بچانے کی ہمت نہیں کرپایا ہے‘۔ گورنر ووہرا نے کہا کہ ایسے اقدامات کئے جانے چاہیے جن کی بدولت نوجوانوں کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔ انہوں نے کسی مخصوص سیاسی جماعت یا تنظیم کا نام لئے بغیر کہا ’میں ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور سبھی سماجی، مذہبی اور تہذیبی اور دیگر تنظیموں کے رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ روز روز کی ایجی ٹیشنوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے معمول کی زندگی پر منفی اثرات پڑرہے ہیں‘۔  گورنر نے پڑوسی ملک پاکستان پر گذشتہ 30 برسوں سے جموں وکشمیر میں پراکسی وار (درپردہ جنگ) اور تشدد و افراتفری کو ہوا دینے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں پاکستان نے زیادہ سے زیادہ جنگجوؤں کو کشمیر بھیجنے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر لگاتار جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں سرحدی آبادی کو شدید طور پر متاثر ہونا پڑا۔ گورنر ووہرا نے کہا کہ سرحدوں پر پائیدار امن سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان بہتر اور اچھے تعلقات قائم ہوں گے۔ انہوں نے عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ کر گھروں کو واپس آنے والے نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پوری امید ہے کہ ایسے دوسرے نوجوان بھی جلد از جلد تشدد کا راستہ چھوڑ کر گھروں کو واپس لوٹ آئیں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کا حل محاذ آرائی سے نہیں بلکہ بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکز کے ’نمائندہ برائے کشمیر‘ دنیشور شرما کی کوششوں کے نتیجے میں ریاست میں امن کی بحالی میں مدد ملے گی۔ گورنر موصوف نے وادی میں بار بار کی ہڑتالوں اور ایجی ٹیشنوں پر بات کرتے ہوئے کہا ’ میں نے کئی بار کہا ہے کہ بار بار کی ہڑتالوں اور ایجی ٹیشنوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ان کی وجہ سے معمول کے حالات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ نامساعد حالات کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے اور تعلیم کے شعبے میں بھی نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کے کیریئر میں رکاوٹیں آئی ہیں۔ مگر یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ ہمارا سیاسی نظام اور سماج اتنی ہمت نہیں کرپایا کہ وہ ہمارے نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کو ان ایجی ٹیشنوں میں شامل ہونے سے بچایا سکے۔ یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ہمارے نوجوانوں کے مفاد کو یقینی بنایا جاسکے۔ تاکہ وہ ناامید ہوکر تشدد کی طرف نہ جاسکے‘۔ انہوں نے کہا ’میں پہلے بھی اس بات پر زور دیتا آیا ہوں کہ محاذ آرائی سے ہماری مشکلات کا حل نہیں نکل سکتا ہے۔ بلکہ اس سے ہماری ترقیاتی نشانوں کو حاصل کرنے میں اور مشکلات پیش آرہی ہیں۔ میں پھر سے ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور سبھی سماجی، مذہبی اور تہذیبی اور دیگر تنظیموں کے رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو سوچیں کہ روز روز کی ایجی ٹیشنوں اور ہڑتال کی وجہ سے تمام سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کے کام کاج پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحت اور تجارت کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔ ہماری ریاست اور ہمارے لوگوں کو ان مشکلات سے باہر نکالنے کے لئے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ سبھی اسٹیک ہولڈرس چاہیے ان کو کوئی بھی سیاسی یا مذہبی نظریہ ہو، ان کو یہ بات ماننی ہوگی کہ کسی بھی مسئلے کا حل صرف بات چیت سے ممکن ہے‘۔ گورنر ووہرا نے ہتھیار ڈالنے والے نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’یہ ایک اچھی بات ہے کہ حال ہی میں بھٹکے ہوئے کچھ نوجوان ملی ٹنسی کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ایسے دوسرے نوجوان بھی جلد از جلد تشدد کا راستہ چھوڑ کر گھروں کو واپس لوٹ آئیں گے‘۔ گورنر ووہرا نے اپنی تقریر کے دوران پڑوسی ملک پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا ’ہمارے ملک کے وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کے لئے کئی قدم اٹھائے۔ مگر ان کا ابھی تک کوئی مناسب نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گا کہ اسے جموں وکشمیر میں دہشت گردی اور تشدد جاری رکھنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا ہے ۔ اور سرحدوں پر پائیدار امن اور معمول کے حالات سے ہی دونوں ملک کے بیچ اچھے تعلقات قائم ہوسکتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’پاکستان کی طرف سے جاری دہشت گردی کو ناکامیاب کرنے کیلئے ہماری سیکورٹی فورسز بڑے مشکل حالات کے باوجود بہت بہادری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس موقع پر ان سیکورٹی فورس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ملک کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں‘۔ 2016 ء کے شروع میں ریاست میں پنچایت اور اربن لوکل باڈیز کے انتخابات کرانے کے لئے کچھ قدم اٹھائے گئے تھے۔ مگر کئی وجوہات کی وجہ سے ابھی تک یہ انتخابات نہیں کرائے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت نے حال ہی میں یہ انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ رورل اور اربن لوکل باڈیز کے قائم ہوجانے کی وجہ سے حکومت ان اداروں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائے گی اور مالی امداد بھی دی جائے گی‘۔ یو این آئی