یَاصَاحِبُ الْجَمَالْ وَیَا سَیَدُّالْبَشَرْ
مِنْ وَجْھِکَ الْمُنِیْرلَقَّدْ نَُوِّرُلْقَمَر
لاَّیُمْکِنُ ثْنَّاء کَمَّا کَانَ حَقَّہ
بََعَدْ ازْ خُدا ُبزرگْ توئی قصۂ مخْتَصَرْ
رسول اللہ ﷺ کی شان و عظمت ،پرواز ورفعت،مقام ومرتبے سے متعلق ہم کیا کہ سکتے ہیں ،آپؐ کی شانِ اقدس اﷲنے بیان کی ہے،کہ آپ ؐ پر وہ خود اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔آپؐ کی تعریف قرآن میں جابجا کی گئی ہے ، جو اﷲ کے آخری نبیﷺ ہیں، جنہیں اﷲ نے خود رحمت اللعالمین ﷺ کہہ کر پکارا ،جنہیں سرور کائنات ﷺ،سرور انبیا ﷺ،افضل رسول ﷺ،شافع محشر ﷺاور شفیع المزنبین ﷺکا لقب ملا اور قدم قدم پر اﷲ نے جن کی رہبری کی ہے۔ ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل جن کو عطا کیا ۔ پورے اہتمام کے ساتھ جنہیں آسمان پر بلایا اور اپنی قدرت کے خزانے اور نمونے دکھائے ، جن کے پیغمبرانہ اخلاق کو تمام انسانوں کے لئے نمونہ اور’’ خُلقِ عظیم ‘‘کہا ہے ۔ جن کی اطاعت ،جن کی حکم کی بجا آوری کا اور جن کی دی ہوئی چیز کو بِلا چوں و چراقبول کرنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔۔ اُن کی شان وعظمت ہم کیا بیان کر سکتے ہیں ؟اُن کی تعریف کیلئے ہمارے پاس الفاظ کہاں ہیں؟
بہرحال یہ سورج انسانی تاریخ کے تاریک ترین دور میں قدیم جزیرہ عرب جیسے جاہلی سماج میں پیدا ہوئے،جہاں کے مکین خانہ بدوشی کی زندگی بسر کررہے تھے ،جو تہذیب وتمدن اور شائستگی سے یکسر نا آشنا تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر معرکہ آرایٔیاں ہوتی تھیں اور پھر بہت سالوں تک ان کا سلسلہ کہیں ٹوٹنے نہ پاتا تھا۔ قتل و غارت، مار دھاڑ،لوٹ کھسوٹ ان کی رگ و پے میں خون کی طرح سرایت کر چکی تھی۔ وہ وحدت و یگانگت کے دشمن، حکومت و تنظیم سے بالکل نا واقف، علم و ہنر سے یکسر کورے تھے، بدکاری ، قمار بازی اور شراب خوری یعنی ہر برائی ان میں موجود تھی ۔ ایسے مایوس کن ماحول اور ایسی ڈارؤنی فضا میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو منصب ِ نبوت پر مبعوث فرمایا۔آپ ﷺ نے اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے منع فرمایا ۔ توحید اور اُخوت و مساوات کی طرف دعوت دی اور انہیں آزادیٔ فکر و عمل سے بہرہ مندکیا۔ علم و معرفت اور تہذیب و تمدن سے آشنا کیا ۔انہیں اتحاد ، تنظیم اور وحدت کی لڑی میں پرودیا۔ اس مختصر سے مقالے میں حضور ؐ کی اعلیٰ شخصیت کے گونا گوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو یعنی ـــ’’حضرت محمد ﷺبحیثیت سماجی مصلح اعظم‘‘ پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالنے کی جسارت کروں گا۔
حضورؐ کا عدل وانصاف ہر زمان ومکان میں عالم ِانسانیت کے لیے واحد مشعل راہ ہے۔ دور جاہلیت میں ہر لحاظ سے عورت ذات کی حالت قابل افسوس تھی۔ ہر جگہ صنف نازک کے ساتھ ظلم و نا انصافی روا رکھی گئی تھی۔ انہیں نہ صرف مردوں سے کم تر کہا جاتا تھا بلکہ جانوروں سے بھی بدتر شئے سمجھا جاتا تھا ۔ چناںچہ کہیں عورت کو لونڈی کے روپ میں رکھا جاتااور کہیں مالی مویشیوں کی طرح خرید و فرخت ہوتی تھی یعنی ہر قسم کا ذلیل اور محنت کا کام اس سے لیا جاتا تھا لیکن سرداردوعالم آنحضورﷺ نے عورت کو ایک عظیم پہچان عطا کی، ایک وقار بخشا اور حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں حضورﷺ ایک ایسی واحد ہستی ہیں جنہوں نے عورت کو مرد ذات کے ہم پلہ کھڑا کر دیا اور اسلام نے افراط و تفریط سے دامن بچاتے ہوئے حقوق و فرائض کے ناطے سے قانونِ فطرت کے عین مطابق روحانی طور پر عورتوں کو مردوں کے مساوی کر دیا ۔ عورت اگر بیوی ہے تو شوہر پر اس کے حقوق ہیں، اگر بیٹی ہے تو باپ پر،ماں ہے تو بیٹے پر،بہن ہے تو بھائی پریعنی جس نوعیت سے بھی دیکھا جائے حضورؐ نے عورتوں کے حقوق بتمام وکمال واضح کر دئے ۔خاص طور پر شادی کے معاملے میں عورت کو اظہار راے کا حق دیا ، چاہے عورت باکرہ ہو یا بیوہ اور شوہر دیدہ مطلقہ، ہر صورت میں نکاح کے معاملے میں اس کی رضا مندی لازمی قراردی اور اگر کسی نکاح میں عورت کی رضامندی نہیں تو حضورؐ نے ایسے نکاح کو شرائط کے ساتھ فسخ کرانے کی اجازت دی اور ساتھ ہی ساتھ حضور ؐ نے عورتوں کے لئے تعلیمی لحاظ سے بھی ایک آزادی عطا فرمائی ۔اس کی کھلی مثال حضرت عائشہؓ ہیں۔پنے زمانے میں آپؐ کے پردہ فرمانے کے بعد بہت سارے صحابہ ؓ ام المومنین حضرت عائشہ سے استفتاء کر تے یعنی مسائل کا جواب طلب کرتے تھے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ عصر حاضر میں ہماری ماؤ ں اور بہنوں کو اسلام مخالف یا نورِا سلام سے ناآشنا لوگ یہ سمجھار ہے ہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق کے خلاف ہے، حالا نکہ اگر سر سری تحقیق کی جائے تو دنیا میں اسلام ایک واحد مذہب ہے جس نے عورت کو سب سے زیادہ وقارا ور عزت بخشا۔ بقولِ مسٹر پیٹر کریبٹس
ـــــ’’محمدؐ نے عورتوں کی حقوق کی ایسی حفاظت کی کہ ا س سے پہلے کسی نے نہ کی تھی۔ اس کی قانونی ہستی قائم ہوئی جس کی بدولت وہ مال اور وراثت میں حصہ کی حق دار ہوئی ۔ وہ خود اقرا ر نامے کرنے کے قابل ہے اور برقعہ پوش مسلمان خاتون کو ہر ایک شعبٔہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہوئے جو آج بیسویں صدی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ آزاد عیسائی عورت کو حاصل نہیں ہیں‘‘ ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی تین بیٹیا ںیا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا معا ملہ رکھے اور ان کے حقوق کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اس کے لئے جنت واجب ہے۔‘‘ ( ترمذی ،بحوالہ منتخب احادیث ،ص۵۱۲ حدیث نمبر ۲۲۰،اشاعت ۲۰۱۳)
حضوؐر کی شخصیت کا یہ بھی ایک اہم اور نمایاں پہلو ہے کہ آپ ؐ نے عرب جیسے وسیع وبسیط ملک کے ایک ایک گوشہ میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی ۔کفار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح پیغمبرانہ ا خلاق سے توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر دشمنان اسلام نے بظاہر گھٹنے ٹیک دئے مگر ان کے دل آپ ؐ کی رحمت اللعالمینی سے مفتوح تھے اور بخوشی اسلام قبول کیا۔ مد ینہ میں یہود ومنافقین کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کر دیا۔ رومیوں کے سرکوبی کیلئے بھی آپؐ نے فوجی انتظامات فرمائیں۔ نبی کریم ﷺ سے پہلے کی تاریخ گواہ ہے اور عصر حاضر کے حالات و واقعات شاہدہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی لاکھوں ہزاروں انسانی جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا لیکن آپؐ نے اپنے صالح انقلاب کاکام کچھ اس طرز نبوی سے سر انجام دیا کہ اس پُر خطر مشن کی تکمیل میں جانی و مالی نقصانات بہت کم ہوئے ،خاص کر بے قصوروں کو مکمل تحفظ ملا ، نظریاتی حریفوںکے انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا ، کسی بھی فرد بشر پر بزور تلوار اسلام نہ ٹھونسا گیا۔
اسلام سے پہلے عرب میں ذات پات کا مسئلہ عروج پر تھا، عجمی لوگ عربی لوگوں سے کم تر سمجھے جاتے تھے لیکن نبی کریمﷺ کی ذات گرامی کی بدولت سر زمین عرب سے اس کا با لکل ہی خاتمہ ہوگیاکیونکہ اگر رنگ و نسل اور ذات پات کا مسئلہ کسی اہمیت کا حامل ہوتا تو حضرت بلال حبشی ؓ کبھی اولین موذن اسلام نہ بنتے، اگر صحیح سلامتی اور تندرستی کو اسلام کی قبولیت کا معیار ماناجاتا تو عبداﷲ بن اُم مکتومؓ کو کبھی اذان دینی نصیب نہ ہوتی ، اگر عربی کو دیکھا جاتا تو سلمان فارسیؓ کبھی شرفِ صحابیت نہ پاتے۔ اگر امیروں اور مالداروں کو دیکھا جاتا تو ابو بکر صدیق ؓ خلیفہ اول نہ بنتے اور اقرباپروری کی جاتی تو عمر بن خطابؓ کبھی خلیفہ ثانی نہ بنتے ۔
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا جو عصبیت کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت کی بنا پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت کے جذبہ پر مرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ’’ابو داود ،بحوالہ منتخب احادیث ،ص۴۹۲ ،حدیث نمبر۱۷۱اشاعت ۲۰۱۳‘‘
نبی پاک ﷺ نے مدینہ منورہ میں جو اسلامی معاشرہ قائم کیا ،اس میں بشمول یہود کافی غیر مسلم آباد تھے، آپ ؐ نے ان کے ساتھ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے تحریری معاہدہ کر کے انہیں اسلامی ریاست کا ایک حصہ بنا دیا ْ۔یہ معاہدہ میثاق مدینہ اج بھی دنیائے انسانیت کے لئے امن ویکجہتی کا ضامن ہے ۔ ان غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے ،بلکہ مسلمانوں کو بار بار تلقین کی گئی کہ ان کے ساتھ اچھائی سے پیش آؤاور عدل کے ترازو میں حقیقت تول کرفیصلہ کرتے وقت یہ خیال نہ کرو کہ ا یک پلڑے میں مسلمان ہیںاور دوسرے پلڑے غیر مسلم ، بلکہ سب کے ساتھ برابری کا عادلانہ سلوک کرو ۔اس بارے میں قرآن مجید میں اﷲ تعا لیٰ کی جانب سے یہ حکم نازل فرمایا گیا۔
ترجمہ:۔ اور کسی قوم کی عداوت ، تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف نہ کرو،عدل و انصاف (ہر حال میں کرو) کہ یہ بات تقویٰ کے قریب ہے۔ (سورہ المائدہ ۔ ۲)
نبی کریم ﷺ نے جو آخری وصیت کی اُس میں دو باتوں کا ارشاد فرمایا ۔نماز اور اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کرنا ۔یہ وہ موقع تھا جس میں اہم سے اہم چیز کی تاکید کی گئی ۔ ذرا غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان ہیں لیکن ان پانچ میں صرف نماز کا تذکرہ کرنا اور اس ساتھ ساتھ غلاموں اور ماتحتوں کا تذکرہ کرنا جس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نبی کریم ؑﷺ کے یہاں نماز کے بعد اگر کوئی چیز اہمیت کی حامل ہے تو وہ مزدوروں اور غلاموں کے ساتھ حسن ِ سلوک کرنا ،اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ روزے کی حالت میں بھی اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے کام میں تخفیف کیا کرو :
’’ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز ،نماز ، نماز۔ اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو یعنی اُن کے حقوق ادا کرو ۔ ‘‘
(ابو داود ،بحوالہ :منتخب احادیث ،ص ۱۳۷ ،اشاعت ۲۰۱۳ )
نبی کریم ﷺ نے انصاف و مساوات کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں سادگی کو اپنا شعار بنایا ، اور اُ ن کے پاس اُ ن کے ضرورت سے زیادہ جو دولت ہوتی ،وہ اسے معاشرے کے ضرورت مند افراد کی ضروریات پورا کرنے پر خرچ کرتے ۔چنانچہ صدرِاول میں یہ عام معمول تھا کہ جس شخص کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ سواری ہوتی وہ اُس شخص کو دے دیتا جس کے پاس سواری نہ ہوتی ،اور جس کے پاس اس کی ضرورت سے زیادہ خوراک ہوتی وہ اس شخص کو دے دیتا ،جس کے پاس خوراک نہ ہوتی ۔ مشہور صحابۂ رسول حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحابہ کرام ؓ اس نتیجے پر پہنچتے تھے کہ ہم سے کسی شخص کو اپنے فاضل مال پر کوئی حق نہیں :
’’ الجمی لابنِ حذم ،جلد ۶ صفحہ ۱۵۸ : بحوالہ اسلامی معاشرہ ، پروفیسر رفیع اللہ شہاب ‘‘ نبی کریمﷺ نے جو انبیائی طرز ِزندگی اپنایا ، وہ سادگی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ آپ ؐ نے اپنی تمام پاک زندگی میںشہنشاہِ دو عالم ہونے کے باوجود بھی ایک ایسے جھونپڑی نما مکان میں بسر کی کہ کسی بھی صورت میں غریب و مسکین عوام سے خود کو نمایاں اور اعلیٰ ثابت کرنا گوارا نہ کیا ۔اسی طرح آپ ﷺ نے ہمیشہ وہی لباس زیب ِ تن کیا جو عام مسلمان پہنتے تھے بلکہ اگر ان میں سے کوئی فخر وریا کے لئے قیمتی لباس پہنتا یا شاندار عمارتیں تعمیر کرتاتو آ پ ﷺ اسے سخت ناپسند فرماتے ۔بقولہ روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹائی : ’’ محمد ﷺان عظیم الشان مصلحین میں سے ہیں جنہوں نے اتحادِامم کی بہت بڑی خدمت کی ہے ۔اُن کے فخر کے لئے یہ بالکل کافی ہے کہ انہوں نے وحشی انسانوں کونورِحق کی جانب ہدایت کی ،اور ان کو ایک اتحادی و صلح پسندی اور پرہیز کاری کی زندگی بسر کرنے والا بنادیا اور اُن کے لئے ترقی وتہذیب کے راستے کھول دئیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنا بڑا کام صرف ایک فردِواحد کی ذات سے ظہورپذیر ہوا ‘‘
’’خواجہ ظفر نظامی نو۴ شہروی ،سرورکائناتؐ (غیر مسلم مفاکرین کی نظر میں)مہنامہ نقوش ک رسولﷺ نمبر ، جلدص۴۸۶‘‘
مجموعی طور پر آپؐ نے محنت و جفاکشی ، سیاست دانی، امامت وپیشوائی ، تجارتی زندگی کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جس میں آں حضور ؐ کی ذات مقدس اعلیٰ نمونے یا واحد رول ماڈل کے طور پر موجود نہ ہو۔ بس ہمیں چاہیے کہ ہم اس نمونۂ طیبہ کو دیکھیں کہ اس کی پیروی کریں زندگی کے ہر مرحلے میں آپؐ کی اتباع کریں تو دورِ حاضر کی تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ رسول پاکؐ کا دین یعنی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے تمام ضوابط واصول اور موجودہ وآئندہ دور کے بے چین انسانوں اور تہذیبوں سے متعلق تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔آج کے پُر آشوب دور میں اگر ایک انسان یا قوم محسن نسانیت ؐ کو اپنی زندگی کے لئے نصب العین بنائے تو اس کی تمام تر پر یشانیاں اورپراگندگیاں دور ہو جائیں گی جنہوں نے دنیا کو گھیر کر ہر شخص کو نیم جان سوختہ دل بنادیا۔ المختصراگر ہم حضور پاک ؐ کے بتائے ہوئے راستے پر یقین کامل ، امید دائم ،صبر وثبات اور بے لوث ہو کر چلیں گے تو ہمارے سارے کے سارے مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے ۔
رابطہ: ریسرچ اسکالر شعبۂ اُردوکشمیریونیورسٹی
ای۔میل۔[email protected]