محض ایف آئی آر میں کسی کو’عادی مجرم‘ قرار نہیںدیا جاسکتا سیکورٹی ایجنسیاںوضع کردہ رہنما خطوط پر سختی سے عمل کریں: عدالت عالیہ

عظمیٰ نیوز سروس

سرینگر//جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو لوگوں کو ‘عادی مجرم’ کے طور پر لیبل کرتے وقت قائم کردہ رہنما خطوط پر سختی سے عمل کرنا چاہیے، یہ اصطلاح عادی مجرموں کی درجہ بندی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔جسٹس ایم اے چودھری نے اپنے فیصلے میں زور دیا کہ ہسٹری شیٹ کو کھولنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ من مانی نہیں ہونا چاہئے بلکہ معقول بنیادوں اور صحیح فیصلے پر مبنی ہونا چاہئے۔یہ فیصلہ ایک ممتاز سیاستدان کی درخواست کے جواب میں آیا جس نے استدلال کیا کہ بغیر کسی ثبوت کے ہسٹری شیٹر قرار دینا غیر منصفانہ اور اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔

 

 

عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس کے خلاف کھولی گئی ہسٹری شیٹ کو ہٹانے کا حکم دیا۔ہسٹری شیٹ کھولنے کا معیار اتھارٹی کا موضوعی اطمینان ہے اور اسے اس معقول یقین یا جانکاری پر پہنچنا ہوگا کہ جس شخص کے لیے تاریخ کھولی یا رکھی گئی ہے وہ عادتا ًعادی ہے یا مدد یا حوصلہ افزائی کرتا ہے، چاہے سزا یافتہ ہو یا نہیں ۔ حکام کی صوابدید کو عقل اور انصاف کے اصولوں کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے نہ کہ نجی رائے کے مطابق، قانون کے مطابق نہ کہ مزاح کے مطابق۔ یہ من مانی طور پر مبہم، خیالی نہیں بلکہ قانونی اور باقاعدہ ہونا چاہئے اور اسے اس حد کے اندر استعمال کیا جانا چاہئے جس میں ایک ایماندار آدمی اپنے عہدے سے فارغ ہونے یا خود کو قید کرنے کا اہل ہو،” ۔عرضی گزار ایک ممتاز سیاست دان ہے جس نے 2014 میں ریاستی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور دلیل دی تھی کہ پولیس کی کارروائی غیر ضروری اور اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔درخواست گزار نے استدلال کیا کہ سیاسی انتقام کی بنیاد پر ان کے خلاف مختلف مقدمات درج کیے گئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر ان کے بری ہونے پر ختم ہوئے اور اس طرح سرٹیفکیٹ میں اسے ہسٹری شیٹر قرار دینا ناانصافی ہے اور اسے منسوخ کیا جانا چاہیے۔