لغت کے اعتبار سے محرم کے معنٰی معظم، محترم اور معزز کے ہیں کیونکہ یہ مہینہ اعزاز، احترام اور عظمت و فضیلت والا مہینہ ہے،اس لئے اس مہینہ کا نام مُحَرَّم ہے۔ اسے محرم الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اس مہینہ میں قتال کرنا حرام تھا۔ قرآن پاک میں اس مہینہ کے ادب و احترام کا اشارہ اس طرح آیا ہے:
’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے،جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا ۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں ۔ یہی دین (کا) سیدھا سادہ (تقاضا) ہے،لہٰذا ان مہینوں کے معاملے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘(التوبہ:٣٦)اس آیت کے ذیل میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں: ’’ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے (ادب کے) ہیں،ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا۔ ایک تو اس لئے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے ، دوسرے اس لئے کہ یہ مہینے متبرّک اور واجب الاحترام ہیں،اس میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، اس میں سے پہلا تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہو گیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں ابھی باقی ہے،حجتہ الوداع کے خطبہ یوم النحر میں رسولِ کریم ﷺْ نے ان مہینوں کی تشریح یہ فرمائی کہ تین مہینے مسلسل ہیں، ذی القعد، ذی الحجہ، محرم الحرام اور ایک مہینہ رجب کا ہے۔‘‘ (معارف القرآن:۴/۳۷۲)
امام ابوبکر جصاص رازیؒ اپنی تفسیر ’’احکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ان (چاروں) متبرّک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کا بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور بُرے کاموں سے بچا لے، تو باقی سال کے مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے، اس لئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اُٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔‘‘ (احکام القرآن:۳/۱۴۰)
لہٰذا باالاختصار محرم الحرام کا مہینہ اسلامی سال کے چار متبرّک مہینوں میں سے ہے جس کی مسلمانوں کو قدر کرنی چاہیے اور بدعات و خرافات سے بچنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی میں اُن کی دنیوی واُخروی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
عاشورہ (دسویں محرم ) کا روزہ:
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے نہیں دیکھا کہ نبی ﷺْ کسی خاص دن روزہ کا اہتمام فرماتے ہوں اور اس کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں، سوائے اس دس محرم کے دن کے اور اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کے مہینہ کے‘‘۔ (بخاری)
حضرت ابو قتادہ انصاریؓ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺْ نے عاشورہ کے دن کے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ(یعنی نو ذی الحجہ) کا روزہ رکھنا گزشتہ اور آنے والے سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے، اور میں اللہ سے امید رکھتا ہو کہ عاشورہ (یعنی ۱۰ محرم) کا روزہ گزشتہ ایک سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (مسلم )
مذکورہ بالا احادیث سے عاشورہ (دسویں محرم) کے روزے کی فضیلت بالکل ظاہر اور واضح ہے۔
دس محرم کے روزہ کا تاریخی پہلو:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ دس محرم کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور دس محرم کے دن کعبہ کو غلاف بھی پہنایا جاتا تھا، پھر جب اللہ نے رمضان کے روزے فرض فرما دئیے، تو رسول اللہ ﷺْ نے فرمایا کہ جو شخص دس محرم کا روزہ رکھنا چاہے وہ رکھ لے اورجو چھوڑنا چاہے چھوڑ دے۔‘‘ (بخاری)
حضرت عائشہؓ سے ہی روایت ہے کہ ’’قریشِ مکہ زمانہ جاہلیت میں دس محرم کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺْ بھی روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپؐ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہاں خود اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو دس محرم کے دن (بطورِ فرض) روزہ رکھنا چھوڑ دیا جس کی خواہش ہوتی اس دن روزہ رکھتا اور جو چاہتا اس دن روزہ نہ رکھتا‘‘۔ (بخاری)حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺْ جب مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے یہودیوں کو دس محرم کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خاصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم (اور نیک) دن ہے، اسی دن اللہ نے موسٰی ؑ اور ان کی قوم کو نجات دی (اور فرعون پر غلبہ عطا فرمایا) اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا چونکہ موسٰیؑ نے بطور شکر (اور بطور تعظیم) اس دن روزہ رکھا تھا، اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہﷺْ نے فرمایا کہ! تمہارے مقابلے میں ہم موسٰیؑ سے زیادہ قریب ہیں اور (بطور شُکر روزہ رکھنے کے) زیادہ حق دار ہیں، چنانچہ رسول اللہﷺْ نے دس محرم کے دن خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔‘‘(بخاری و مسلم)حضرت ابو موسٰی ؓ سے روایت ہے کہ ’’یہودی دس محرم کے دن کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے اور اس دن عید منایا کرتے تھے پس رسول اللہﷺْ نے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
عاشورہ کا روزہ رکھنے کا طریقہ:
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ :’’جس وقت آپؐ نے عاشورہ (یعنی دس محرم) کے دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، تو صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺْ! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاریٰ اس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھ کر ہم اس دن کی تعظیم کرنے میں یہود و نصاریٰ کی موافقت کرنے لگتے ہیں، جبکہ ہمارے اور ان کے دین میں بڑا فرق ہے) آپؐ نے فرمایا کہ آئندہ سال ان شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی ) روزہ رکھیں گے‘‘۔حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی (ربیع الاول میں) آپ کا وصال ہو گیا۔‘‘ (مسلم)
اس موضوع کے حوالے سے دوسری روایات اور صلف و صالحین کے اقوال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مفتی محمد رضوان لکھتے ہیں کہ:’’پس بہتر و مستحب یہ ہے کہ دس محرم کے ساتھ ایک دن پہلے یعنی نو تاریخ کا ایک روزہ اور ملا لیا جائے اور اگر ایک دن پہلے کوئی روزہ نہ رکھ سکے تو ایک دن بعد کا ایک روزہ اس کے ساتھ اور ملا لیا جائے تاکہ یہودیوں کی مخالفت بھی ہو جائے اور اس دن کے روزہ کی فضیلت بھی ہو جائے اور دو روزوں کے بہتر و مستحب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی تنہا صرف دس محرم کا روزہ رکھے،تو وہ گناہ گار نہیں بلکہ ثواب کا مستحق ہے،البتہ اس کے مقابلہ میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ نویں یا گیارویں کا بھی روزہ رکھ لے۔ لہٰذا جو لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ تنہا دس محرم کا روزہ رکھنا گناہ ہے، یہ بات درست نہیں، کیونکہ نبی ﷺْ نے دس محرم کے روزہ کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے، وہ تو دس محرم کا روزہ رکھنے سے ہی حاصل ہوتی ہے، البتہ یہود کی مخالفت وغیرہ کی وجہ سے ایک اضافی فضیلت و مستحب درجہ کا عمل یہ ہے کہ اس کے ساتھ آگے پیچھے کا ایک روزہ اور ملا لیاجائے۔‘‘ (ماہِ محرم الحرام کے فضائل و احکام، ص۷۰۔۶۹)
محرم الحرام کی جاہلانہ اور غلط رسمیں:
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ ماہِ محرم الحرام بابرکت،عظمت اور تقدس کا مہینہ ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات اور دین کی سربلندی کے لئے جہدِ مسلسل میں مشغول رہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اجر کے مستحق بن سکیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے طاعات و عبادات کو سرِ انجام دینے کے بجائے اس ماہ میں چند ایسے بدعات،خرافات اور رسومات ایجاد کئے ہیں کہ جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اسلئے ہم نے اپنے لئے رحمت اور ثواب کے بجائے اللہ تعالیٰ کا غضب اور گناہوں کا ڈھیر خرید لیا ہے۔ لہٰذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ان بدعات و رسومات سے بچتے رہیں تاکہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی خوشنودی کے مصداق بن سکیں۔
رابطہ ۔ کٹہ پورہ کولگام
�������