بشیر اطہر
وولو ہا کاشِریَو برونہہ کُن پَنِنی پہچان پَیدا کر
ژہ رَنزناوُن پَنِنی کاشِر زبان پرتھ جایہ ِ چھے مۄختصر
جی ہاں! یہ شعر کشمیری زبان وادب کے ایک مایہ ناز شاعر، قلمکار اور ادیب عبدالمجید شاہ جن کا تخلص مسروؔر ہےکا ہے۔ مجید مسرور کا تخلص ہی مسرور نہیں ہے بلکہ آپ دل،زبان اور اخلاق سے بھی کافی مسرور ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دل کو خوش رکھنے کےلئے شاعری اختیار کی اور اس فن میں آپ کو کافی مہارت حاصل ہے۔ دراصل شاعری کا مطلب یہی ہے کہ ایک شاعر اپنے جذبات و احساسات کو زبان دیکر انہیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مجید مسرور نے بھی اپنے جذبات و احساسات کو قارئین تک پہنچانے کےلئے سالِ رواں میں دو شاعری مجموعے’’تاشوقہ چانے‘‘ اور ’’واو گرایَو منزی پوکُس‘‘شایع کئے اور کشمیری زبان وادب میں ایک اور اضافہ کیا ۔آپ نے یہ دو مجموعے شائع کرکے کشمیری زبان وادب اضافہ کرکے ہمیں یہ باور کرایا کہ کشمیری زبان وادب کو دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح ایک منفرد حیثیت حاصل ہے، یہ اور بات ہے کہ لوگ اس زبان کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں جتنی دینی چاہیے۔’تاشوقہ چانے‘ اور’ واو گرایو منزی پوکُس‘ میں دُعا، نعت، حسینیات، غزلیں، نظمیں اور رباعیات شامل ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ آپ کا ہر صنف سخن پر دسترس حاصل ہے تو کوئی مغالطہ نہیں ہوگا کیونکہ آپ نے جس بھی صنف سخن پر بھی طبع آزمائی کی، اُس میں آپ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں ،اسی وجہ سے آپ کو ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی حلقوں میں بھی پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ جھلک رہا ہے جو ان کی شاعری کو جِلا بخشتی ہے۔ کشمیر میں زیادہ تر صوفیانہ شاعری کو ہی پسند کیا جارہا ہے، یہاں استعاراتی شاعر بھی بہت ہیں مگر جو داد صوفی شاعروں کو مل رہی ہے وہ داد استعاراتی شاعروں کو نہیں مل رہی ہے مگر مجید مسرور کی شاعری کو عام لوگ گنگناتے نظر آرہے ہیں۔آپ نے اپنی شاعری میں سادہ الفاظ سے کام لیا ہے، مبہم اور سخت الفاظ استعمال کرنے سے انہوں نے گریز کیا ہے ،یہی وجہ ہےکہ آپ کے نعت، مدح، نظم اور غزلیں شہد جیسی مٹھاس پیدا کررہے ہیں۔
سایہ چون عالمس میانہ سردارَے
نبی مختارَے ہاوِ دیدار
یِنہ چانہ ِ عالم سپُد نورانَے
نبی مختارَے ہاو ِدیدار
اس نعت کو پڑھ کرآپ سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے استعاروں اور کنایوں سے کام نہیں لیا ہے، جس کے باوصف آپ کی شاعری ہر کسی کے فہم وفراست میں آرہی ہے ۔ایک عام انسان جو غیر تعلیم یافتہ بھی ہو، وہ بھی اس کا معنی سمجھ سکتا ہے۔ آپ کے شعری مجموعوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے ایسے کشمیری الفاظ نظر آگئے ہیں، جن کا آج کل استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایسے الفاظ کو اپنے اشعار میں محفوظ رکھنا کشمیری زبان وادب کی ایک بڑی کامیابی ہے ،وانگج وور جیسا لفظ کا استعمال بلکل نہیں ہورہا ہے۔ آج کل ہم کرایہ در کہتے ہیں ۔
ؠتہ وانگج ورس پرتھ کانہہ چُھے
کوِہ چُکھ کران ژہ بلی گگراے
یا اس شعر میں جس میں کشمیری پیالوں کی یعنی کھاسی کا ذکر کیا گیا ہے، جس کاآج کل نہ کوئی ذکر کررہا ہے اور نہ ہی اس لفظ کا استعمال ہورہا ہے، یہاں آج کل صرف بازاری چیزوں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اُن الفاظ کو بھول جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری زبان، ثقافت اورتہذیب تمدن زندہ ہے، مگر اس باصلاحیت شاعر یعنی مجید مسرور نے ایسے الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا ہے،جن کا آنے والی پیڑیوں تک پہنچنا انتہائی ضروری ہےتاکہ وہ بھی سمجھ لیں گے کہ ہماری کشمیری زبان بھی باقی زبانوں کی طرح امیر ہے اور اس میں باقی زبانوں سے الفاظ اُدھار لاکر استعمال کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔
مجید مسرور نے اپنی کتابوں میں ہماری توجہ بہت ساری باتوں کی طرف مبذول کرائی ہے۔ آپ نے حالات کا جائزہ کھلی آنکھوں سے کیا ہے اور انہی خیالات اور تاثرات کو ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وادی کشمیٖر میں پچھلی چار دہائیوں سے حالات کافی کشیدہ ہیں اور ان حالات کی عکاسی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے مگر مجید مسرور نے اپنی ایک نظم میں بہت ہی آسان اور عام فہم زبان میں ان حالات کی عکاسی کرکے ایک اہم پیغام عام لوگوں تک پہنچایا ہے اور اس طرح رقمطراز ہیں کہ
ییتہ ِ ماچھ رَلاوِتھ زَہرس مَنز
تَمہ ِ شہرُک بو تہِ چھُس روزَن وول
جہاں مجید مسرور نے حالات کی عکاسی کی ہے وہیں انہوں نے لوگوں کو علم وادب کی طرف گامزن ہونے کی تلقین بھی کی ہے اور علم کی اہمیت کو ہم تک پہنچانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ اگر دیکھا اور پرکھا جائے تو شاعروں کی ایک قلیل تعداد ہی نےابھی تک ایسی نظمیں لکھی ہیں، جن میں لوگوں کی توجہ علم کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔
علم چُھے فرشُک تہ عرشک زانی یار
سيٖر اسرار ہچھناوان چُھے علم
یہ نظم ’علم ‘ان کے شعری مجموعہ ’’تاشوقہ چانے‘‘ میں شامل ہے۔ آپ کو مذہبی اصطلاحات اور احادیث پر کافی دسترس حاصل ہے، اسی لئے آپ نے بہت ساری نظمیں مذہبی امورات پر پیش کی ہیں، مثلاً شب قدر، نماز،اخلاق جیسے اہم موضوعات پر مبنی نظمیں انہوں نے اپنی دوسرے شعری مجموعہ ’’واوہ گرایو منزی پوکُس‘‘ میں شامل کی ہیں ۔انہوں نے دونوں کتابوں میں نعت، منقبت، حمد اور غزلیں شامل کی ہیں ،یہاں میں آپ کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں، میری نظر میں ایک کتاب میں حمد، نعت، منقبت اور مذہبی امورات جیسے صنف سخن ہونے چاہیے تھے جبکہ دوسری کتاب میں غزلیں اور نظمیں ہونی چاہئے تھیں، مگر مصنف کا اس کے بارے میں کیا خیال آیا ہے، وہی بہتر جانتے ہیں۔
مجید مسرور آج کل گلستان ادب کے روح رواں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور گلستان نیوز چینل میں بطور لٹریری کاڈینیٹر کام کر رہے ہیں، آپ کی ادب دوستی کےلئے آپ کو بہت سارے اعزازات مل چکے ہیں۔ 2018میں اُنہیں”خلعت گلستان” سے بھی نوازا گیا، آپ کی کئ شاہکار غزلیں آج بھی کشمیریوں کے ہونٹوں پر ہیں، جب میں چھوٹا تھا تو ریڈیو کشمیر کے یوووانی سیکشن سے یہ گیت مجھے بے حد پسند تھا کہ’’کلی واتکھ ژہ میانِس مزارَ س پیٹھ وائے پتہ پھیری‘‘
مجید مسرور کے دونوں شاعری مجموعے کشمیری زبان وادب کے شاہکار ہیں، جن میں دُرِ نایاب جیسا کلام شامل ہوا ہے اور آپ کا پورا کلام ایک قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔آپ کی دل کو موہ لینے والی غزلیں، نظمیں اور نعت ایک انسان کو اپنا شیدائی بناتے ہیں۔ مجید مسرور کے پاس مجھے ایک اور بات ملی کہ آپ نہ صرف خود کےلئے بلکہ دوسروں کےلئے بھی جی رہے ہیں۔ آپ ہمیشہ سے کہہ رہے ہیں کہ ’’دوسروں کے بغیر یہ زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، اس لئے ہمیں دوسروں کےلئے بھی جینا سیکھنا چاہئے۔‘‘پھر اس بات پر کھرااُترنا اس پُر آشوب دور میں بہت ہی مشکل ہے کیونکہ آج کل یہاں کے ادیب، قلمکار، شاعر یہاں تک کہ نعت گو شاعر بھی یہ گوارا نہیں کرتے کہ کسی نونہال کی رہنمائی کریں بلکہ وہ اپنے آپ کو اہل اور دوسروں کو نااہل سمجھتے ہیں۔مگر مسرور صاحب نے جب سے گلستان نیوز چینل میں باضابطہ طور پر لٹریری کاڈینیٹر کی حیثیت سے چارج سنبھال لیا، انہوں نے ان شاعروں کی انّا پسندی کو زمین بوس کیا جو اپنی انانیت کی وجہ سے دوسروں کےلئے روڈے اٹکا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نےوادی کے اطراف واکناف سے اُن شاعروں اور قلمکاروں کو پلیٹ فارم مہیا کیا، جن شاعروں کو کوئی جانتا تک نہیں تھا اور اس طرح سے اُن کی رہبری ہورہی ہے۔آپ اخلاق سے بھی اعلیٰ ہیں اور چھوٹوں کے ساتھ اس طرح گُل مل جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ ایک بڑے شاعر ہیں، اسی اخلاقی پہلو کی وجہ سے آپ کے ساتھ ایک کارواں رواں دواں ہے۔ میں وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جو شائقین اخلاق، مذہب اور صوفیانہ کے علاوہ عشقیہ شاعری پڑھنے کاشوق رکھتے ہیں، انہیں مجید مسرور کی یہ دو کتابیں ’’تاشوقہ چانے‘‘اور ’’واوہ گرایو منزی پکس‘‘ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ ان کتابوں میں ہر کسی کےلئے راحت اور فرحت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مسرور صاحب اسی طرح سے زبان وادب کی خدمت کرتے رہیں گے اور اپنے شیدائیوں کو اپنے بہترین کلام سے نوازتے رہیں گے۔
(رابطہ۔7006259067)
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔