مثبت سوچ معاشرے کی بہتری کے لئے اہم

بلا شبہ قادرِ مطلق زبردست دانا و حِکمت والا ہے اور بے شک احکام ِ خداوندی پر عمل کرنے سے حکمت و دانائی کے دروازے کھُل جاتے ہیں، حکمت و دانائی بحرِ زندگی میں سلامتی سے کنارے اُتار دیتی ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ حکمت و دانائی کی بات جہاں سے ملے لے لو کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ودیعت ہوتی ہے۔ لوگ ایک عمر تک دشتِ دنیا کی صحرا نوردی کرتے ہیں مگر حکمت و دانائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ حکمت و دانائی کے لیے کسی عمر کی قید نہیں، چاہے تو اٹھارہ بیس سال کی عمر میں آ جائے اور نہ ممکن ہو تو ستر اَسی سال کی عمر میں بھی تہی دامنی رہے۔ گوکہ فہم و فراست کا دعویٰ کرنا از خود حماقت ہے مگر احمق آدمی سے بچنا ہی فہم و فراست ہے، جو بات نہیں کرنی چاہئے، اُسے روک لینا، غصہ کی بجائے دلیل اور منطق سے جواب دینا، فضول اور لا حاصل بحث سے اجتناب کرناہی دانائی ہے۔ حکمت و دانائی مقدر والوں کے ہی حصہ میں آتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں گھٹن اور تنگ نظری کچھ زیادہ اثر دکھا رہی ہےاورمعاشرتی بگاڑ کا اثر براہ راست ہمارے رویوں پر پڑ رہا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، سیاسی افراتفری اور تقسیم، غصہ اور جھنجلاہٹ، حسد، بغض اور کینہ فروغ پذیر ہیں۔ ان معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویوں کوبُری طرح متاثر کیا ہے۔ ہم نے شاید مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے،کوئی اپنے کسی دوست سے بات کرے یا کسی بھی سوشل تقریب میں چلا جائے ، زیادہ ترمایوسی پھیلانے والی باتیں کرتا پھرتاہے۔

 

ہر بندہ اپنے حالات اور معاشرتی صورتحال سے پریشان ہی نہیںبلکہ بد دل نظر آتا ہے، اُسے نہ تو معاشرہ میں ہونے والے بہتر کام نظر آتے ہیں اورنہ ہی اپنی حالت پر غور کرنے کی فکر ہے کہ کل وہ کیا تھا اور آج کس مقام پر ہے۔ ناشکری ویسے ہی انسان کی مثبت سوچ کو کھا جاتی ہے،اس لئے جو کچھ بھی اُس کے ہاتھ میں ہوتاہے، اُس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا، بلکہ اُس کی تمنا کرتا ہےجو دوسروں کے پاس نظر آتا ہےاوراِسی پر اکتفا نہیں کرتابلکہ اُسےیہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ یہ سب کچھ اُس کے پاس کیوں ہے۔ ناروا مسابقت، غیر ضروری مقابلہ بازی، دوسروں کو نیچا گرانے کی دُھن نے انسان کو اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ اُسکے پاس جو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں اور اَن گنت نعمتیں ہیں، اُن کا شکر ادا کرنے کی بجائے، وہ ہمہ وقت دوسروں سے تقابل کرنے اور ان سے آگے نکلنے کی دُھن میں مگن ہے۔ محنت کرنا، زمانے کی دوڑ میں شامل ہونا،کسی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کرنابُری بات نہیں بلکہ بُری بات یہ کہ انسان ہر وقت اپنے حال سے غیر مطمئن ہو، ہمہ وقت گلے شکوے کرتا رہے۔ شکر گزاری کی بجائے آہ و زاریاں کرتا رہے، صرف مایوسی پھیلانے والی باتیں کریں جبکہ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نکال دیتا ہے،جہاں سارا دن اس قدرفضول وبے معنی کہانیاں شیئرکی جاتی ہیںکہ ایسا لگے ، بس آج ہی سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ ہمارے معاشرہ میںبعض لوگ دوسرے میں منفی پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر بندے میں کوئی نہ کوئی منفی پہلوضرور ہوتاہے۔ لیکن اگر تمام تر کمزوریوں کے باوجود کسی شخص میں سے کوئی مثبت پہلو تلاش کرکے اسکی تعریف کی جائے، اس کی کچھ حوصلہ افزائی کر دی جائے تو وہی شخص اپنی استعداد سے بڑھ کر خوشی محسوس کرے گا،اس کا اعتماد بڑھے گا۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق خیر و شر کا مجموعہ ہے، ہمارا روزانہ کا واسطہ اپنی ہی طرح کے انسانوں سے پڑتا ہے، ان سے عام انسانوں والے رویے کی ہی توقع رکھنی چاہئے۔چنانچہ جب ہم دوسرے لوگوں کے بارے میں اچھا گمان اور اچھا سوچنا شروع کردیںتو اُنہیں بھی ہم لوگ اچھے لگنے شروع ہو جائیں گےاور اس طرح لوگوں کو ایک دوسرے سے پیار، محبت اور شفقت ہی ملتی رہے گی۔ دورِ حاضر کے اس گھٹن زدہ معاشرہ میں نفرت و کدورت اور بغض و عناد کو مٹانے کے لئے، معاشرہ میں محبتیں اور مثبت رویے تقسیم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج کل باہمی محبت اور احترام قائم رکھنے کا سب سے آسان نسخہ یہی ہے کہ ایک دوسرےکے ساتھ سیاست اور مذہب پر بحث نہ کریں کہ اس معاشرہ میں ہر آدمی ان معاملات پر اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔ آپ دلائل کا کوہ ہمالیہ بھی کھڑا کر دیں، کوئی بھی بندہ اپنی رائے بدلنے کو تیار نہیں ہوگا بلکہ بحث مباحثہ میں تلخی و ترشی کے سبب باہمی تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا اس سیاسی اور مذہبی طور پر منقسم معاشرے میں عافیت اسی میں ہے کہ ان موضوعات پر بحث نہ کی جائے اور نہ کسی کی بات کو رد کیا جائے۔ اگر کسی بات سے اتفاق نہیں کرتے تو بھی ہنس کر بات کو ٹال جائیں۔ اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے رویوں کو مثبت رکھنے سے ہی معاشرہ میں بہتری آسکتی ہے۔