حمیراعلیم
عرینہ بھابھی!” نافلہ نے جیٹھانی کو مبارک دیتے ہوئے تحفہ ان کے ہاتھ میں پکڑایا۔عرینہ نے تحفہ پکڑا اور اسے اندر جانے کا کہہ کر خود باقی مہمانوں کوریسیو کرنے میں مصروف ہو گئی ۔عرینہ کے بیٹے کے ولیمے کی تقریب تھی جس میں شمولیت کیلئے سب ہوٹل کے ہال میں جمع تھے۔اس کا میکہ اور سسرال اور بہت سے دوست احباب ہال میں بیٹھے تبصرہ کر رہے تھے۔
” ہائے یہ کیا کیا عرینہ نے۔یتیم لڑکی ہے نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ چچا چچی نے پالا ہے اور شاید کسی بہت ہی غریب گھرانے سے ہے۔ اسی لئے عرینہ برأت کیساتھ کسی کو بھی لے کر نہ گئی ۔جہیز تو کیا ہی دیا ہو گا۔”
کسی خاتون نے اندازہ لگایا تو دوسری نے تائید کی۔
” ہاں لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے۔پھر دیکھو عرینہ کا بیٹا قنوان کس قدر پڑھا لکھا ہینڈسم سا ہے آئل ریفائنری میں انجینئر ہے مگر لڑکی تو بالکل معمولی سی شکل و صورت کی ہے۔پتہ نہیں کیا سوچ کر اس لڑکی کو پسند کیا ہے عرینہ نے۔” دراصل ان کو یقین تھا کہ قنوان کیلئے انکی پڑھی لکھی حسین و جمیل بیٹی کو ہی پسند کیا جائے گا۔شاید اسی لئے جلی بیٹھی تھیں ۔
دوسری طرف ان کی نندیں بھی کچھ ایسی ہی آس لگائے ہوئے تھیں کہ بھائی کے لائق فائق بیٹے کیلئے ان کی بیٹیوں سے بڑھ کر بہتر چوائس کیا ہو سکتی ہے۔مگر جب رحیق اور قنوان کی شادی کی خبر ملی تو انکی امیدوں پہ پانی ہی پھر گیا۔
بڑی نند بولیں ۔
” ضرور قنوان نے پسند سے شادی کی ہے ورنہ کوئی جوڑ ہے اس لڑکی کا ہمارے خاندان سے؟”
چھوٹی بہن نے بہن کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
” اور نہیں تو کیا میری روبی میں کیا کمی تھی آپا جو بھابھی نے اس کو چھوڑ کر اس کالی کلوٹی یتیم لڑکی سے قنوان کی شادی کر دی۔” پچھتاوا آخر لفظوں کی شکل دھار ہی گیا۔
کسی لڑکی نے بھی دل کے پھپھولے پھوڑے۔
” پتہ نہیں کیا ہے اس عام سی لڑکی میں۔ ہائے اتنا ڈیشنگ اور اچھا لڑکا لے اُڑی۔”
مہمانوں کے درمیان پھرتی عرینہ کے کانوں میں یہ سب تبصرے پڑ رہے تھے۔جانے کیا سوچ کر وہ اسٹیج پر گئی اور سب حاضرین کو متوجہ کیا۔
” لیڈیز اینڈ جینٹلمین!تھنیک یو سو مچ فار بینگ ہیر اینڈ فار شئیرنگ آور ہیپینیس۔ میں آپ سب کی مشکور ہوں کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکال کر اس تقریب میں شرکت کی اور اسے چار چاند لگا دئیے۔نہ تو یہ موقعہ ہے نہ ہی مجھے کسی کو وضاحتیں دینے کی ضرورت ہے۔لیکن کچھ معزز مہمانوں کی باتیں اتفاقا میرے کانوں تک پہنچ گئی ہیں ۔بس انہی نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں آپ سب کی تسلی کی خاطر کچھ حقائق آپکے ساتھ شئیر کروں ۔
میں میرا بیٹا اور شوہر سب جانتے ہیں کہ میرے میکے ، سسرال اور دوست احباب میں کئی ایسی بچیاں ہیں جو میرے بیٹے کی شریک حیات ہو سکتی تھیں ۔خوبصورت، پڑھی لکھی، باسلیقہ اور خاندانی۔مگر اللہ کا شکر ہے کہ سب بچیاں اس قابل ہیں کہ کوئی بھی خاندان انہیں اپنی بہو بنانے پر فخر کرے گا۔” اس کی دونوں نندوں اور متوقع امیدوار لڑکیوں کی ماوں نے جھینپ کر اسے دیکھا۔
” اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی ایسی بچی کا انتخاب کیا جائے جس سے شادی کا حکم قرآن و سنت میں آیا ہے۔بیشک رحیق یتیم ہے مگر اس کے چچا چچی نے اس کی تربیت نہایت پیار اور محبت سے کی ہے اور اپنے بچوں کیطرح اسے بھی اعلی تعلیم دلوائی ہے۔ماشاءاللہ رحیق نے ایم ایس سی سائبر سیکیورٹی اینڈ ڈیٹا گورننس میں ماسٹرز کیا ہے اور سائبر کرائم ونگ میں جاب کرتی ہے۔” کئی لوگوں نے حیرت سے اسٹیج کیطرف دیکھا۔
“اور رہ گئی شکل کی بات تو دا بیوٹی از ان دا آئی آف بی ہولڈر(The beauty is in the Eye of beholder)۔آپ لوگوں کیلئے شاید سفید رنگت، لمبا قد، سلم اسمارٹ فگر ،ہی معیار خوبصورتی ہو گا مگر میرا یہ ماننا ہے کہ شکل و صورت تو اللہ کی بنائی ہوئی ہے اس میں بندے کا کیا عمل دخل۔ہاں اگر لوگ اپنی ظاہری خوبصورتی پر ہی نازاں رہیں اور دوسروں کی تحقیر کریں تو یہ انکی بدصورتی ہے۔” وہ تمام لڑکیاں جو حسین تو تھیں مگر بدزبان اور مغرور بھی تھیں انہوں نے نظریں چرائیں۔
” یہ شادی ٹوٹلی ارینج میرج ہے۔ہاں جب میں نے اور کعب نے فیصلہ کر لیا تو قنوان کی رضامندی کے بعدیہ شادی ہوئی ہے۔ہم نے اپنے بیٹے کی تربیت قرآن و سنت کیمطابق کی ہے اس لئے اسے بھی ظاہری کی بجائے باطنی خوبصورتی پر یقین ہے۔اور انشاءاللہ مستقبل میں جب آپ بھی رحیق سے ملے جلیں گے تو اس کی ذہانت، سلیقہ مندی اور خوش اخلاقی کے قائل ہو جائیں گے۔اور سچ تو یہ ہے کہ رحیق میں کسی چیز کی کمی نہیں گندمی رنگت، لمبے سیاہ بال، سیاہ آنکھیں مجھے تو میری بیٹی بنگال کی حسینہ نظر آتی ہے۔” عرینہ نے سائیڈ پہ بیٹھی بہو کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا تو رحیق کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
” جہاں تک تعلق ہے بارات نہ لیجانے کا تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا آپ لوگ سوچ رہے ہیں ۔ماشاءاللہ رحیق کے چچا ایک ایماندار سرکاری آفیسر ہیں اور اچھے خاصے لوگ ہیں ۔بارات ، مہندی، مایوں سب رسوم و رواج ہیں اور ہم ان پر وقت اورپیسہ ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔لہذا صرف میں، کعب ، قنوان اور نکاح خواں رحیق کے گھر گئے نکاح کیا اور یہاں آ گئے کہ یہی سنت بھی ہے کہ سادگی سے نکاح کر کے ولیمے کی دعوت کی جائے تاکہ دلہن کی آمد کی اطلاع سب کو ہو جائے۔رہ گئی جہیز کی بات تو اللہ کا شکر ہے میرے بیٹے نے ہماری تربیت کی لاج رکھی ہے۔رحیق کے چچا نے جب جہیز کی بات کی تو ہم سے پہلے قنوان نے کہا۔
” انکل !اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمارے گھر میں ہم آپکی بیٹی کو ایک گھر سے دوسرے گھر لیکر جا رہے ہیں ۔آپکا یہ احسان ہی کافی ہے کہ آپ نے اپنی بیٹی ہمیں دے دی ہے۔آپ کسی بھی قسم کی کوئی چیز نہیں دیں گے بلکہ نکاح کا جوڑا اور زیورات بھی ہم ہی لائیں گے۔باقی خریداری رحیق شادی کے بعد میرے ساتھ جا کر اپنی پسند سے کر سکتی ہیں ۔”
مجھے فخر ہے اپنے بیٹے کی اس سوچ پر۔” جو لوگ قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ شاید رحیق کی فیملی غریب ہے اس لئے بارات لیکر نہیں جایا گیا۔اب شرمندہ دکھائی دے رہے تھے۔
” میں ہرگز یہ باتیں اس موقعہ پر نہ کرتی مگر مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ میری بہو کی تذلیل کی جائے۔امید ہے آپکے خدشات دور ہوگئے ہونگے۔ دعا کیجئے کہ ہمارے بچے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی ازدواجی زندگی گذاریں۔پلیز انجوائے دا میل۔” یہ کہہ کر عرینہ اسٹیج سے نیچے چلی گئیں ۔
” ہنہ !بیٹی۔بی بی بہو تو بہو ہی ہوتی ہے کچھ دن گزر جانے دو پھر دیکھونگی کیسے بہو کی تعریفیں اور طرفداری کرتی ہو۔” کسی بہو کے ہاتھوں تنگ خاتون نے جل کر کہا۔
دو ماہ بعد
” ماما! پاپا!ہم دونوں کی چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں میں سوچ رہا ہوں کل سے ہم آفس جوائن کر لیں ۔” قنوان نے ناشتہ کرتے ہوئے والدین سے مشورہ کیا۔
” شیور بیٹا! جیسے تم دونوں کو مناسب لگے کرو۔” کعب نے کہا۔یوں دونوں آفس جانے لگے۔صبح ناشتہ کر کے نکلتے تو شام میں گھر آتے۔سب شام کی چائے اور رات کا کھانا اکٹھے ہی کھاتے تھے۔ملنے جلنے والے آتے تو کن سوئیاں لیتے۔
” آیئے عرینہ!بہو کہاں ہے تمہاری؟” کوئی بزرگ خاتون ملنے آتیں تو پوچھتیں۔
” خالہ جاب پہ ہے بس آتی ہی ہو گی۔”
” اے نوج!ساس گھر کے کام کرتی رہے اور بہو بیگم مزے سے دفتر میں بیٹھی رہتی ہیں ۔جاب کی کیا ضرورت ہے اچھا خاصا کماتا ہے تمہارا بیٹا ۔نوکری چھڑوا کر گھر کے کام کاج پہ لگائو اسے۔” خاتون مخلصانہ مشورہ دیتیں ۔
” ہا!ہا!ہا! خالہ بہو لائی ہوں نوکرانی نہیں ۔کام تو اس کے آنے سے پہلے بھی میں ہی کرتی تھی تو اب کیا خدانخواستہ میں معذور ہو گئی ہوں کہ اس سے کام کروائوں ۔جب تک ہمت ہے خود کروں گی۔جب نہ کر سکی تو نوکر رکھ لونگی۔” خاتون نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو۔
” اے یہ کیا بات کی تم نے۔بہو کے ہوتے ہوئے نوکر رکھو گی۔یہ تو اس کا فرض بنتا ہے کہ تم لوگوں کی خدمت کرے۔آخر کو تم نے اس پر احسان کیا ہے بغیر کچھ لیے دئیے اسے اپنے بیٹے کیلئے بیاہ کر اس گھر میں شہزادی بنا کر رکھا ہوا ہے۔” خاتون کی سوئی وہیں پہ اٹکی ہوئی تھی۔
” میری پیاری خالہ!کیسا احسان کیا ہے ہم نے اس پر احسان تو اسکے گھر والوں نے کیا ہے ہمیں اپنی پلی پلائی پڑھی لکھی بیٹی دیکر۔ہماری کوئی بیٹی ہوتی تو وہ بھی تو ہمارے گھر کی شہزادی ہوتی نا۔تو بس رحیق اب ہماری بیٹی ہے تو وہ ہی شہزادی بھی ہے اور ہماری خدمت اس کا فرض تو ہرگز ہرگز نہیں ہے یہ تو ہمارے بیٹے کا فرض ہے اور اللہ کا شکر ہے وہ اپنا فرض بہت اچھے سے نبھا رہا ہے۔اور رحیق بھی بڑی سعادتمند اور پیاری بچی ہے بالکل اپنے والدین کیطرح ٹریٹ کرتی ہے مجھے اور کعب کو۔اب سوچیں نا آپکی بڑی بہو کیطرح شادی کے فورا بعد اگر وہ قنوان کو لیکر الگ گھر میں چلی جاتی تو ہم کیا کر لیتے؟ یہ تو بھئ اس کا احسان ہے کہ اس نے الگ گھر کا مطالبہ نہیں کیا۔” خالہ کو بڑی بہو کا حوالہ ڈائریکٹ طنز لگا تو تلملا کر بولیں ۔
” اچھا بھئی جیسی تمہاری مرضی ۔جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ہمارا کام تھا سمجھانا اگر تم خوش ہو تو ہمیں کیا ٹینشن ہے۔”
قنوان اور رحیق کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو انہوں نے عقیقے کی تقریب میں سب دوست احباب اور خاندان والوں کو دعوت دی۔کھانے میں روش، باربی کیو، بریانی، سوفلے، آئس کریم، اور کشمیری چائے کا اہتمام تھا۔ایکبار پھر سب ورطہ حیرت میں تھے ۔
” اے بھیا!پہلی بار دیکھا ہے کہ لڑکی کی پیدائش پر اتنی شاندار تقریب ۔” کسی خاتون کی آواز آئی۔
“اس خاندان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ساس بہو تو ایسے رہتی ہیں جیسے بچپن کی سہیلیاں ہوں اب بھی دیکھیں ذرا بچی دادی کی گود میں ہے اور ماں باپ ہنسوں کے جوڑے کیطرح مہمانوں میں پھر رہے ہیں ۔” دوسری خاتون نے انکی توجہ ایک اور مسئلے کیطرف مبذول کروائی۔
” مبارک ہو بجو!بہت ہی اچھی تقریب منعقد کی ہے آپ نے۔” روحینہ نے بہن کو سراہا۔
” میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا سب رحیق نے ارینج کیا ہے۔اللہ نظر بد سے بچائے میرے بچوں کو۔ماشاءاللہ کتنے خوش ہیں ۔” عرینہ نے پاس بیٹھی بہن سے کہا۔
” آمین ! سچ کہا تھا بجو آپ نے ماشاءاللہ اتنی اچھی بہو ملی ہے آپکو۔نظر نہ لگے اب تو سب ہی رحیق کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں ایسی پیاری بچی ہے۔”
قنوان کی خالہ نے دعا دی۔
” اللہ کا شکر ہے روحینہ!مگر ایک بات یاد رکھنا کہ قرآن و سنت پر عمل میں ہی ہماری بہتری اور بقا ہے۔ بہو کو بیٹی کیطرح رکھا جائے تبھی وہ بھی آپکو والدین کیطرح سمجھے گی۔اگر آپ پہلے دن سے ہی بیر باندھ لیں تو پہلے دو سال آپ اس کیساتھ جیسا مرضی سلوک کر لیں دو سال بعد اس کی باری ہو گی۔نہ صرف وہ سسرال اور شوہر کو سمجھ چکی ہوتی ہے بلکہ اپنے پیر بھی جما چکی ہوتی ہے بچوں کی پیدائش کی صورت میں اس کی پوزیشن اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔اگر آپ نے اس کیساتھ اچھا برتاو کیا ہو گا تو وہ بھی آپکے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گی۔دوسری صورت میں وہی ہوتا ہے جو ہم اپنے اردگردروز دیکھتے ہیں ۔لڑائی جھگڑے۔طلاقیں گھروں میں دراڑ اور دوریاں۔ اللہ معاف کرے اور سب کو برائی سے بچائے۔” عرینہ نے کہا۔
” آمین!بالکل درست کہا آپ نے۔اللہ ہم سب کو قرآن حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔اور آپ جیسی بہو ہم سب کو بھی نصیب فرمائے۔” روحینہ نے خواہش ظاہر کی تو عرینہ کھل کر مسکرائی اور زور سے آمین کہا۔
���
[email protected]