سہیل سالمؔ
بقول قیصر حیاتٖؔ
سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کر دیا
شمع علم و آگہی سے دل کو منور کر دیا
کائنات کی عظیم نعمتوں میں ایک نعمت عظمیٰ استاد بھی ہیں۔انسانی زندگی کو سنوارنے میں استادوں کا کر دار ناقابل فراموش ہے۔اسی لئے ہر سال کے ستمبرکی شروعات ’’یوم اساتذہ‘‘کی تقریبات کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور یہ تحریک دیتا ہے کہ اساتذہ کرام کے تئیںان پر کون سی ذمہ داریاںعائد ہوجاتی ہے نیزاساتذہ کرام کو کن اصول وضوابط کو مددنظر رکھ کر بچوں کو صحیح تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن ایک منجھے ہوئے استاد‘بے باک مقرر،اچھے منتظم‘کامیاب رہنما اور مشہور ماہر تعلیم تھے۔وہ سرزمین ہندوستان کے ان معماروں میں سے ایک تھے جن کے فکر وفلسفے نے اپنے آس پاس کے ماحول کو متاثر کیا۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے نائب صدر جمہوریہ اور صدرجمہوریہ جیسے عہدے بھی سنبھالے لیکن انھوں نے اپنی زندگی کے اہم40 سال ایک باوقار استاد کی حیثیت سے گزارے ۔ان کی خمیر میں مثالی استاد کے سارے عادات و اطوارپنہاںتھے۔انہیں اپنے تدریسی عہدے پر فخر تھا۔1962 میں جب آپ صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس وقت کئی خیر خواہ اور شاگرد ان کے پاس گئے تھے۔انھوں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کے یوم پیدائش کو ٹیچر ز ڈے کے طور پر منانا چاہتے ہیں۔انھوں نے جواب دیا تھا کہ” میری سالگرہ کو آپ سالگرہ کی بجائے ٹیچرز ڈے کے طور پر منا ئیں تو یقینایہ میرے لیے فخر کی بات ہوگی تب سے 5 ستمبر کو پورے ملک میں ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جارہے۔
اہل دانش دنیا کو ایک تعلیم گاہ مانتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ” تعلیم کے ذریعے ہی انسانی دماغ کا صحیح استعمال کیا جانا ممکن ہے ۔اس لیے تمام دنیا کے تمام ماہر تعلیم کو مل کر اچھی تعلیم کا انتظام کرنا چاہے “۔ ایک بار برطانیہ کے ایڈنبر ایو نیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر رادھاکرشنن نے کہا تھا کہ” جب عالمی سطح پر اپنائی گئی پالسی کی بنیاد عالمی امن کے قیام کی کوشش ہو تو انسانوں کوایک ہونا چاہیے ۔اچھے اور مخلص استاد اپنے منفرد خیالات ‘دل کو چھولینے والے اقوال اور ہنسانے ‘گدگدانے والے واقعات سے اپنے طلبا کو محظوظ کردیا کرتے تھے ۔وہ طلبا کی ہر آن مدد کرتے رہتے تھے تاکہ وہ اعلی اخلاق اقدارسے اپنے مستقبل کو سنوارے ۔وہ جس موضوع پر بحث کرتے تھے‘بحث کرنے سے پہلے یااس موضوع کو پڑھانے سے پہلے خود اس کا گہرا مطالعہ کرتے تھے تاکہ بچے کو اس موضوع کے تمام اسرار رموز اچھے سے سمجھ میں آجائے۔ تاریخ یا فلسفہ جیسے خشک اور سنجیدہ موضوع کو بھی وہ اپنے طرز تدریس سے آسان اورپر کش بنا تے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور نئی ٹیکنالوجی نے تعلیم کے میدان میں قابل توجہ اور انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں لائی ‘نئی ٹیکنالوجی نے تعلیم وتدریس کے ہی نقشے کو نہیں بلکہ امتحانات کے پرانے طور طریقوں کوبھی یکسر بدل ڈالا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سائنس اور نئی ٹیکنالوجی نے استاداور شاگرد کے درمیان‘احترام وعقیدت کے پاک رشتے کو تا رتار کیا ۔آج کل کے طلباء و طالبات اپنے اساتذہ کواحترام کی نگاہوں سے نہیں دیکھتے ہیں۔جس طرح سے ماضی میں طلباء و طالبات دیکھا کرتے تھے۔ ماضی میںکئی اساتذہ ایسے بھی تھے جن کامقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ ہم درس وتدریس کے دزیعے انسانیت کی خدمت کرے اور درس و تدریس سے قوم کی بگڑی صورت حال کو صحیح ڈگر پر لے آئے۔ طلبا ء وطالبات کو زندگی کے نشیب وقراز سے نکلنے کی راہ دکھائی جس میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کا نظریہ تعلیم بے حدسود مند ثابت ہوسکتا ہے۔
تعلیم کے میدان میں ڈاکٹر رادھا کرشنن نے جو کارنامہ انجام دئیے وہ یقینا نا قابل فراموش ہیں۔وہ ہمہ جہت شخصیت تھی ۔اپنی سیاسی زندگی میںمصروف ہونے کے باوجود بھی وہ تعلیم کے میدان میں مسلسل غیرمعمولی خدمات انجام دیتے رہے۔ان کا ماننا تھا کہ” اگر صحیح طریقے سے تعلیم دی جائے تو سماج کی کئی برائیوں کو مٹایا جاسکتا ہے”۔
طلب علموں کو صرف تعلیم اورمعلومات فراہم کرنا تعلیم کا مقصدنہیںہے اگر چہ معلومات کی اپنی افادیت ہے ۔آج کل کے دور میں سائنس اورٹیکنا لوجی زندگی کا حصہ بن چکی ہے اس لئے ان علوم کی معلومات بے جد اہم بھی ہے ۔تعلیم کا مقصد ہے علم کے توسط سے اپنے اخلاقیات کی پرورش کرنا اور زندگی کے میدان میںمسلسل سیکھتے رہنا ۔پھر اچھے اخلاق کی وجہ سے وہ اپنے زندگی میں منزل مقصود حاصل کر سکتا ہے۔ اخوات ہمدردی‘محبت، انسانیت اور اعلی قدروں کو پروان چڑھانے میں بھی تعلیم کا اہم کردار ہے چناچہ حصول تعلیم کے وقت ان تمام اصول وضوابط پر تو جہ مر کوز ہونی چاہیے۔جب تک ایک مخلص استاد تعلیم کے تیئں باشعور اور باکر دار نہیں ہوتا ہے اور تعلیم کو ایک مقدس شعبہ نہیں مانتا اس وقت تک اچھی تعلیم کی تصویر ہمارے آنکھوں کے سامنے نہیں آسکتی ہے۔ایک کا میاب استاد وہی ہے جو کئی سال تک درس وتدریس سے وابستہ رہے۔بقول رادھا کرشن:” استاد انھیں لوگوں کوبنایا جانا چاہے جو زندگی کے ہر ایک فعال شعبہ کا گہرا فہم و ادراک کے حامل ہو اورجو سب سے زیادہ ذہین و فہیم ہو ۔اساتذہ کو صرف اچھی درس دے کر ہی مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے۔انھیں اپنے طلبا کی محبت اور جذبہ احترام حاصل کرنا چاہیے اور احترام محض استاد بننے سے نہیں ملتا ہے ‘اسے حاصل کرنا پڑتا ہے” ۔ انھوںنے یہ جان لیا تھا کہ زندگی کا سفر مختصر ہے اور اس سفر میں خوشیاں حاصل کرنا ایک مشکل ترین عمل ہیں‘اسی وجہ سے انسان کو اپنی رندگی کے نشیب وفراز میں ایمانداری سے ہر ایک کام کو انجام دیناچاہیے ۔ان کا خیال تھاکہ موت ایک تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا امیر وغریب ہر ایک کو کرنا ہے۔اس تلخ حقیقت کو آپ سچے علم سے سمجھ سکتے ہیں۔سچا علم وہی ہے جو آپ کے اندر کے اندھیرے کو روشنی میں بدل سکے ۔
آج کے دن کا یہی پیغام ہوگا کہ اساتذہ اپنے فن سے طلبہ و طالبات کے اندر کی جہالت کو ختم کرے کیونکہ اساتذہ صاحبان کے ہاتھوں کی لکیروں میں ہی قوموں کا تقدیر پنہاں ہوتا ہے نیز طلب علم کا بھی یہ حق بنتا ہے کہ وہ استاد کا احترام کریں چناچہ نفع بخش علم ان ہی کے حصے میں آتا ہے جو استاد کا ادب و احترام کرتے ہیں ۔ان پر ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت برستی ہیںجس کی طرف الطاف حسین حالیؔ نے بھی اشارہ کیا ہے ؎
ماں باپ اور استاد ہیں سب خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
رابطہ۔رعناواری سرینگر،کشمیر
فون نمبر۔9103654553
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔