لیاقت عباس
زبان ایک ایسا نظام ہے جس میں مختلف قسم کی آوازوں اور اشاروں کی مدد سے ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ معلومات کا تبادلہ اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کا اہم ذریعہ ہے۔ انسان کے علاوہ کئی قسم کے جانور بھی آپس میں اشاروں سے بات کرتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں، مگر بول نہیں سکتے۔ انسان کے منہ میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جسے زبان کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بہرے اور گونگے لوگوں کے منہ میں زبان ہوتی ہے، مگر بولنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنے احساسات، جذبات اور خیالات کو ایک دوسرے تک پہنچانے کا نام بھی زبان ہے۔ زبان کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں، ایک اس کی ظاہری صورت اور دوسری اس کی معنوی صورت۔ الفاظ، معنی میں تال میل، تناسب اور ربط و تعلق سے ہی زبان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ اس میں تخلیقی ادب بھی شامل ہے۔ خدا نے انسان کو نطق کی صلاحیت دی ہے۔ جو آوازوں پر مشتمل ہوتی ہے ،اسے حروف کہا جاتا ہے۔ انہی حروف کے مجموعے کو زبان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ زبان ایک سماجی ضرورت ہے۔ تہذیب و تمدن کی تعمیر و تشکیل میں زبان اہم رول ادا کرتی ہے۔ زبان دراصل ماحول کی پیداوار ہے۔ بچہ جس ماحول میں جنم لیتا ہے، اسی ماحول کے اثر کو قبول کرے گا اور وہی زبان سیکھے گا اور اسی کا استعمال عمل میں لائے گا۔ جب سے بنی نو انسان کی تخلیق ہوئی، زبان بھی اسی کے ساتھ ہی وجود میں آئی، وقت کے ساتھ ساتھ یہ بنتی بگڑتی رہی۔
دنیا کے ہر ملک میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف قومی ثقافتی رنگا رنگ سے وابستہ لوگ ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن مناتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد اپنی ماں بولی کا تحفظ کرنا، اس کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، تخلیقی ادب کا مطالعہ کرنا، تہذیب کلچر اور وراثت کا تحفظ کرنا اور اس کو بچا کر دوسری نسل میں بآسانی منتقل کرنا ہی اس کا اصل مقصد ہے۔ آخر ہر سال یہ دل منایا کیوں جاتا ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے آئیے جاننے کی کوشش کریں۔
یہ دن بنگلہ دیش کے ان بہادر شہداء کی یاد میں منایا جاتا ہے جب وقت حکومت کے خلاف اپنی زبان کی تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والے کئی لوگوں کو سال 1952ء میں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیونکہ وہاں کے لوگوں کی مقامی زبان بنگلہ تھی اور وہ اس کا تحفظ چاہتے تھے۔ ڈھاکہ میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا۔21 فروری 1952ء کے دن ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے عوام کے ساتھ مل کر ایک جلوس نکالا۔ آپسی تصادم کے ابتدائی مرحلے میں پانچ طلبہ جاں بحق ہو گئے اور کل ملا کر 40 افراد مارے گئے، کئی زخمی بھی ہوئے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد حادثہ تھا۔ کچھ طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے سال 1998ء میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے نام ایک خط لکھا۔ بالآخر یونسکو نے 17 نومبر 1999ء کو یہ دن منانے کی تجویز پیش کی۔ جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 2002ء میں قرارداد نمبر 56/ 262 کے ذریعے اسے منظور کر لیا، اس کے بعد ہر سال 21 فروری کو یہ دن پورے اقوام عالم میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا۔
دنیا میں اس وقت 7000 کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ 350 ملین افراد کی مادری زبان انگریزی ہے۔ انگریزی زبان 112 ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ فرنچ زبان 60 ممالک میں، عربی زبان 44 ممالک میں، ہسپانوی اور جرمن زبان 44 ممالک میں جبکہ اردو 23 ممالک میں، ہندی 20 ممالک میں اور پنجابی 8 ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 26 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں۔ امریکہ کی 191، برازیل کی 190، ایڈونیشیا کی 147، اور چین کی 144 زبانوں کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق 1950ء سے اب تک 230 مادری زبان ناپید ہو چکی ہیں اور کچھ اور زبانوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ہندوستان ایک گلدستے کی مانند ہے۔ یہاں صدیوں سے ہر مذہب و ملت کے لوگ مل جل کر رہ رہے ہیں۔ یہاں کئی زبانوں کا سنگم ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کو بھی کئی زبانوں کا سنگم کہا جاتا ہے۔ یہاں اردو، کشمیری، ڈوگری، پہاڑی، گوجری، ہندی، پنجابی، شینا، بلتی، پشتو کے علاوہ کئی مقامی بولیاں اور زبانیں الگ الگ علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ لیکن اردو اور ہندی یہاں کی سرکاری زبانیں ہیں۔ لیکن نوجوانوں کی عدم توجہ کی وجہ سے زبانوں کا وجود خطرے میں ہے۔
دوسری زبانوں کے علاوہ یہاں کے ایک بڑے خطے کی زبان پہاڑی ہے۔ یہ زبان بر صغیر کے کئی خطوں کے علاوہ یورپ کے کئی علاقوں میں بھی مختلف لہجوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ علاقائی لحاظ سے اس کے نام الگ ہو سکتے ہیں لیکن زبان ایک ہی ہے وہ ہے پہاڑی زبان۔ ایک تحقیق کے مطابق چھ سے سات کروڑ لوگ پہاڑی زبان بولتے ہیں۔ پچھلے 45 برس سے جو ادبی اور لسانی کام ہوا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سرینگر، دور درشن کیندر سری نگر کے علاوہ اکیڈمی آف آرٹ کلچر لینگویجز کی جانب سے پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے جو کام ہوا ہے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ابھی بہت کچھ اور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اب یہ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کے فروغ کے لیے آگے آئیں اور مل کر کام کریں۔ ورنہ یہ ادبی سرمایہ بھی ختم ہو جائے گا۔ تخلیقی ادب کو پڑھنے والوں کی کمی ہے۔ یہی حال دوسری زبانوں کا بھی ہے۔ اگر وقت رہتے اجتماعی کوشش نہ کی گئیں۔ تو وہ دن دور نہیں جب یہ ترقی پذیر زبانیں بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی اور ہم سب بے بس اور لاچار ہوں گے۔ آؤ مل کر زبانوں کے فروغ اپنے کلچر، تہذیب، ادب و تمدن کو بچانے میں ایک دوسرے کا تعاون حاصل کریں۔ ہماری پہچان ہی زبان سے ہے۔ اگر زبان نہ رہی تو ہمارا وجود خود بخود مٹ جائے گا۔ ماں بولی کی قدر کرنی سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں زبانوں کے فروغ پر کم کام ہو رہا ہے۔ جو باعث تشویش ہے۔ اب یہ ذمہ داری نوجوانوں کی ہے کہ وہ جس محکمے میں بھی ہوں مگر اپنی ماں بولی کے تحفظ کے لیے کام کرتے رہیں، اجتماعی اور انفرادی طور پر۔ یہی وقت کی پکار بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
( ایشم اوڑی،رابطہ۔ 9697052804)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔