ہمارے گرد و نواع میں پائی جانے والی ہر چیز ہمارا ماحول کہلاتی ہے،جیسے پیڑ پودے، ہوا، پانی، زمین، جاندار، وغیرہ ۔ ماحول بالکل انسانی جسم کی ماند ہوتا ہے ۔ انسانی جسم کے کسی اعضا میں کوئی تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے ۔اسی طرح اگر ماحول کے کسی بھی عنصر میں کوئی خرابی ہو تو پورے ماحول کا توازن بگڑ جاتا ہے ۔ صاف و شفاف ماحول ہر جاندار خصوصاًانسانی زندگی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہےاور اس میں توازن برقرار رکھنا انسان کی ہی ذمہ داری ہے ۔اکثر انسان صرف اپنے فائدوں کو ہی دیکھتا ہے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قدرتی وسائل کا ناجائز و بے تحاشا استعمال کرتا ہے ۔جس سے ماحولیاتی توازن بگڑ جاتا ہے اور انسان بہت ہی خطرناک مسائل سے دوچار ہوتا ہے۔ماحولیاتی توازن بگڑنے سے global warming, کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ماحولیاتی توازن بگڑنے کے بہت سارے وجوہات ہیں،چونکہ جنگلات ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم رول نبھاتے ہیں لیکن انسان اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے جنگلات کا صفایا کرتاچلا جارہا ہے ۔جنگلات کا صفایا کرنے سے زمین ڈھہ جانے کا خطرہ بڑھتا ہے ،سیلاب اور خشک سالی بھی جنگلات کاٹنے کا ہی نتیجہ ہے بلکہ جنگلی جانوروں کے مسکن خطرے میں پڑ جاتے ہیں اور یہ جنگلی جانور انسانی بستیوں کا رخ کرتے ہیں ۔ جنگلاٹ کاٹنے سے بارشوں میں بھی کمی واقع ہوجانے سے ہمارے زراعت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ،گویا ماحول کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور انسانی زندگی پر اس کےبُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جنگلات کا منصفانہ استعمال کریں تاکہ یہ قدرتی وسیلہ ہماری آنے والی نسلوں کےلیے محفوظ رہ سکےاور ماحول کا توازن برقرار رہے۔ پانی ہمارے ماحول کا ایک اہم جز ہے جوکہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ قابل قدر نعمت ہے ۔دنیا کے ستر فیصد حصے پر پانی ہے لیکن صرف دو فیصد پانی پینے کے قابل ہے۔لیکن موجودہ انسان پانی کے ذخائر کو آلودہ کرنے میں مصروفِ عمل ہے ۔جس سے پینے کا پانی روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے ۔ظاہر ہے،جس جھیل ڈل کے پانی سے لوگ وضو بنا کر عبادت کرتے تھے،آج وہ اس قدر گندہ ہو چکا ہے کہ نہانے کے بھی قابل نہیں رہا ہے۔ کشمیر کے باقی جھیلوں کی حالت بھی جھیل ڈل سے مختلف نہیں ہے۔ ہم نے خود ہی آبی ذخائر کو تباہ و بُرباد کر کے رکھ دیا ہےاور ان کے ارد گرد تعمیراتی ڈھانچے بھی کھڑے کر دئے ہیں ۔ماہرین کے مطابق مستقبل قریب کی جنگیں پینے کےپانی پر ہی لڑی جائیں گی ۔آلودگی کی ایک اور قسم فضائی آلودگی ہے ۔جو مختلف فیکٹریوں سے نکلنے والے فضلے سے بڑھ جاتی ہے۔ کارخانوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں تحلیل ہوتا ہےاور اس ہوا کو آلودہ کرتا جارہا ہے ۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں جو دھواں اگلتی ہیں اس سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔جس سے انسان زندگی بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ہوا اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ گاڑیوں اور لاوڈ سپیکروں کے شور سے بھی صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے،جس سے ہمارا ماحول آلودہ ہو جاتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق ملک بھر میں 80 ،فیصد کوڑا کرکٹ ندی نالوں اور پانی کے مختلف ذخائر میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی کے لیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی ذمہ دار ہیں۔ اگر چہ ہر سال 5 جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاہم زمینی سطح پر ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جارہی ہیںسرکار پر ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ آبی ذخائر کے تحفظ کا ایک جامع منصوبہ تیار کرےتاکہ یہ ان آبی ذخائر کی شانِ رفتہ بحال ہوسکے۔شجرکاری مہم بھی اس ضمن میں سود مند ثابت ہوگی جس سے ماحول کو بچایا جاسکتا ہے ۔ انفرادی طور پر بھی ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ ہم پالتھین کا استعمال کم بلکہ ترک ہی کر دیں،اور کوڈا کرکٹ اور پلاسٹک سے بنی اشیاآبی ذخائر میںنہ پھینکیںبلکہ ان چیزوں کو ٹھیک طرح سے ٹھکانے لگائیں۔کسی بھی صحت افزاء مقام کی سیر کریں تو وہاں کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں اور باقی لوگوں کو بھی اس چیز کی ترغیب دیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے سیلاب اور خوشک سالی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بارشیں اگر چہ ہوتی ہیں تاہم اس قدر بے وقت ہوتی ییں کہ ان بارشوں سے فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے ماحولیاتی آلودگی سے تو اب تیزابی بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے، جسے بہت بڑے خطرے کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لہٰذا اپنے آپ کو بلکہ پوری انسانیت کو بچانے کے لئے ہم ماحول کو صاف رکھنے اور اس کا توازن برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔