ماتا

رحیم رہبر
اُس دن جب کنہیا لال کی اکلوتی بیٹی سرلا پینٹنگ کے مقابلہ میں اول آئی تھی تو سارے علاقے میں جیسے عید کا سا جشن تھا۔ کنہیا لال کے گھر میں دن بھر خوب چہل پہل رہی۔ سرلا کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ سرلا کی ماں گرجا کماری کو میں نے مُدت بعد آج اتنا خوش و خرم دیکھا۔

دراصل یہ مقابلہ Tallent Huntپروگرام کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ سٹیٹ لیول کے اس مقابلے میں گیارہویں جماعت کی طالبات نے حصہ لیا۔ 

سرلا کی پینٹنگ سیاہ چُوس کی طرح نگاہیں چُوس لیتی تھی۔ سرلا نے اپنی نانی کی تصویر فریم میں کچھ اس طرح اُبھاری تھی کہ بے رنگ ہوکر بھی وہ بوڑھی عورت اپنے شاندار ماضی اور اپنے خستہ حال کا کرب بیان کرتی تھی۔ نانی کے سفید بال سفید ریشمی رومال جیسا دکھائی دیتے تھے۔ اُس کا چہرہ بادلوں سے جھانکتا چاند دکھائی دیتا تھا۔ نانی کے کمزور کندھوں پر ہری پربت کا قلعہ اپنی شانِ رفتہ بہ زبانِ حال سے بیان کرتا تھا۔ اُسکی نیم خوابیدہ آنکھوں میں بے آب جھیل کا کربناک منظر نمایاں ہورہا تھا! نانی کی سفید دھوتی پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ اُس کے ہاتھوں میں خالی تھال تھا! پینٹنگ کے کونے میں ’’ماتا‘‘ لکھا ہو اتھا۔

رات کے گیارہ بجے سرلا نے اپنے باپ کو شان کے ساتھ پینٹنگ پیش کی۔ جونہی کنہیا لال کی نظر پینٹنگ پر جم گئیں وہ ہکا بکا سا رہ گیا۔ اُس کے تصور خانے میں ہلچل سی مچ گئی۔ گرجا کماری کے پائوں تلے زمین کھسک گئی۔ وہ سکتے میں پڑ گئی۔

’’بیٹی! یہ ۔۔۔یہ۔۔۔۔ کس کی تصویر ہے۔۔۔۔ یہ کون ہے؟‘‘

ماں نے بڑے ہی انہماک سے پوچھا۔

’’ماتا۔۔۔۔۔ My Grand Mother‘‘

سرلا نے جواب دیا۔

’’تم۔۔۔۔ تُم اپنی نانی میرا مطلب ماتا کو جانتی ہو!؟‘‘

کنہیالال نے بیٹی کو تعجب سے پوچھا۔

’’جی۔۔۔ جی پِتاجی‘‘ سرلا نے اطمینان سے جواب دیا۔

’’تم نے کبھی اس کو روبرو دیکھا ہے؟‘‘ کنہیا لال نے پھر تعجب سے پوچھا۔

’’Yes۔۔۔ ہاں ہاں پتا جی۔۔۔ تب میں چھوٹی تھی۔ مجھے اتنا یاد ہے ماتا مجھے گود میں بٹھا کر کھلاتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یا دہے وہ تمہاری راہیں تکتی رہتی تھی۔ شام کو وہ گیٹ پر تمہارا انتظار کرتی تھی۔ جونہی تم دفتر سے گھر آجاتے وہ تمہارے ماتھے کو بار بار چومتی تھی۔ وہ تمہارے بغیر کھانا نہیں کھاتی تھی۔ وہ تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ بس مجھے اتنا یاد ہے۔‘‘

’’بیٹی! آج تک تجھے اُس کی صورت کیسے یادہے؟‘‘ ماں نے بیٹی سے حیرانگی میں پوچھا۔

’’میں نے اُسی دن ماتا کی تصویر البم میں سے نکالی تھی جب آپ دونوں نے مجھے نانی کے کھوجانے کی خبر سنائی۔ تب سے میں نانی کی جدائی میں اکثر رویا کرتی تھی۔ پھر نانی کا فوٹو دیکھ کر مجھے تشّفی ہوتی تھی۔ اُسی دِن سے وہ فوٹو میرے پاس ہے‘‘۔

’’اُف۔۔۔!‘‘ کنہیا لال گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

’’پتا جی! آپ سے ایک سوال پوچھنا چایتی ہوں۔ Should I?(کیا میں پوچھ سکتی ہوں؟)‘‘

’’ہاں ہاں۔۔۔ پوچھو کیا پوچھنا ہے‘‘۔

’’تم اپنی ماںI mean(میرا مطلب ہے) ماتا کو کیسے بھول گئے؟بھلا کیا کوئی بیٹا اس طرح اپنی ماں کو بُھلا سکتا ہے؟After all she is your mother(بہرحال وہ تمہاری ماں ہے)‘‘۔ 

سرلاکے سوال نے دونوں میاں بیوی کو ناخن چبانے کے لئے مجبور کیا۔ دونوں سرلا کے سامنے لاجواب ہوئے۔ بیٹی کی توجہ ہٹانے کے لئے کنہیا لال نے فوراً اپنے پرس سے ایک ہزار روپے نکالے اور سرلا کا ماتھا چوم کر اس کو دیئے۔

سرلا نے اپنے باپ کے ہاتھ چومے اور پیسے جیب میں رکھے۔

’’اب جا بیٹی اپنے بیڈروم میں جا۔ رات کافی بیت چکی ہے۔۔ جا۔۔۔ جاسوجا۔۔۔ کل سویرے سکول جانا ہے‘‘۔ ماں نے بیٹی سے کہا۔

سرلا اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔

یہ جولائی کا مہینہ تھا۔ سکول انتظامیہ نے پکنک جانے کا پروگرام بنایا۔ پکنک کے لئے نجدون کی جگہ مقرر ہوئی۔ یہ جگہ سکول سے بیس میل کی دوری پر پہاڑ کے دامن میں ایک خوبصورت وادی تھی۔ جس میں ایک طرف اولڈ ایچ ہوم تھا۔ 16جولائی کی تاریخ پکنک کے لئے طے ہوئی۔ لڑکیوں نے طرح طرح کے پکوان اور تحفے اولڈ ایج ہوم میں رہ رہے لوگوں کے لئے تیار کرکے رکھے۔ 

16جولائی دن کے ایک بجے لڑکیاں اپنے اُستانیوں کے ہمراہ اولڈ ایچ ہوم کے صحن میں پہنچ گئیں۔

بزرگ مرد و خواتین لان میں بیٹھے تھے۔ انہیں بچوں کی آمد کے بارے میں پہلے ہی مطلع کیا گیا تھا۔

جونہی طالبات اولڈ اایج ہوم کے لان میں جمع ہوئیںسرلا کی نظر ایک ایسی بوڑھی عورت کے چہرے پر پڑی جو اُس کے لاشعور میں برسوں سے موجود تھی۔ اُس بوڑھیا کے چہرے پر زندگی اُداس تھی۔ اس کی جھیل جیسی آنکھیں اب سُکڑ گئیں تھی۔ وہ بے چاری خود سے خفا تھی! اُس نے سرلا کو دیکھا تو لپک کر اُسے اپنی چھاتی سے لگایا اور اس کا ماتھا چومنے لگی۔ سرلا ماتا کے ساتھ لپٹ گئی اور زار و قطار رونے لگی۔!

���

آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام

موبائل نمبر؛9906534724