گزشتہ دنوں جب کشمیر میں شراب کی دکانیں کھولنے سے متعلق حکومتی منصوبہ افشاء ہوا تو ہر سُو ہاہار مچ گئی ہے اور سماج کے سبھی طبقوں نے اس مجوزہ منصوبہ کی کھل کر مخالفت کی ۔حکومتی منصوبہ کے خلاف عوامی ردعمل حوصلہ افزا ء تھا جو بادی النظر میں اس بات کی جانب اشارہ کررہا تھا کہ کشمیر ی عوام الخبائث کو فروغ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔کھلے عام شراب کی دکانیں کھولنے کے منصوبہ کی مزاحمت کرنا اچھی بات ہے لیکن اُس شراب کا کیا کیاجائے جس کا صرفہ اس کے باوجود بھی اس وقت کشمیر وادی میں جاری ہے۔حکومتی اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ صرف گزشتہ برس کشمیر میں شراب کے استعمال اور کاروبار میں 25 سے 30فیصد کے درمیان اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سال ِ رفتہ میں کشمیر میں 40لاکھ کے قریب شراب کی بوتلیں فروخت اور استعمال کی گئیں ۔غور طلب ہے کہ کشمیر میں صرف 6شراب دکانیں قائم ہیں جن میں سے چار سرینگر اور دو اننت ناگ ضلع میں ہیں اور 40لاکھ بوتلوں کا جو ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے ،وہ انہی دکانوں سے فروخت ہوچکی ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی فوج اور نیم فوجی دستوں کے کیمپوں سے بھی بھاری مقدار بھی شراب خریدی جارہی ہے ۔یہ تو شراب کی بات ہوئی ۔اب ذرا بات منشیات کی کریں۔جہاں تک منشیات کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے سٹیلائٹ تصاویر سے انتہائی پریشان کن صورتحال سامنے آرہی ہے ۔ان تصاویر کے مطابق جنوبی کشمیر میں ہزاروں کنال اراضی پر منشیات کاشت کی جارہی ہے ۔فی الوقت اننت ناگ اور بارہمولہ کے علاقے منشیات کے کاروبار کے لحاظ سے کشمیر میں سرفہرست ہیںجہاں نشیلی اشیاءسے سے زیادہ استعمال ہورہا ہے۔ منشیات کے عادی لوگ نہ صرف چرس ،گانجہ اور افیون استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ کوریکس ،الکوہل ،الپریکس نامی ادویات کے علاوہ برائون شوگر کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں ۔اس سماجی بدعت سے فی الوقت وادی میں ہزاروں جانیں خطرے میں ہیں اور اگر فوری طور پر اس کا تدارک نہیں کیا گیا تو آنے والے وقت میں ہماری پوری نسل ہی اس طوفان میں غرق ہوجائے گی ۔آخر سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کی سرزمین پر یہ کون سی ہوا چلی کہ یہاں نہ صرف برائیوں نے جنم لیا بلکہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ پروان بھی چڑھیں؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وادی میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے یہاں نفسیاتی امراض میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور کئی لوگوں نے نفسیاتی الجھنوں سے چھٹکا را پانے کی خاطر منشیات کا سہارا لیا لیکن ہم منشیات کے فروغ کیلئے صرف عدم تحفظ کے احساس کو ذمہ دار ٹھہرا ئیں تو یہ کذب بیانی ہوگی۔موجودہ سماجی عدم توازن کیلئے کئی ایک عوامل ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔سب سے بڑی وجہ ہماری اجتماعی بے حسی ،مادہ پرستی اور اصلاف کی تعلیمات سے دوری ہوسکتی ہے۔اگر ہمارا ضمیر زندہ ہوتا تو کیا ہم منشیات جیسے زہریلے کاروبار کو اپنے سماج میں پنپنے کا موقعہ دیتے ؟۔اب تو یہ حالت ہے کہ یہاں ہزاروں کنبے منشیات کی کاشت میں ملوث ہیں اور وہ یہ کاشت بالکل اسی طرز پر کی جاتی ہے، جس طرح دھان اور دیگر فصلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کی ہوس نے ہمیں اس قدر اندھا بنا کر رکھ دیا ہے کہ ہمیں یہ نظر ہی نہیں آتا ہے کہ ہم اس زہر کو فروغ دیکر اپنی ہی تباہی کا سامان پیدا کررہے ہیں۔اسلاف سے وراثت میں ملی علم و آگہی کی روشن قندیلوں سے دوری اختیار کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب نہ ہی خوف خدا رہا ہے اور نہ سماجی ذمہ داریوں کا احساس بلکہ ہر فرد اپنی انفرادی دنیا بسا چکا ہے جہاں دو لت اور شہرت کی چکا چوند کے سوا کسی چیز کو تر جیح حاصل نہیں ہے ۔موجودہ صورتحال کیلئے جہاں عام لوگ ذمہ دار ہیں وہیں ہمارے ائمہ مساجد اور علما ء بھی اس ذمہ داری سے دامن کش نہیں ہوسکتے۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اب اس بربادی پر سرکاری سطح پر رونا رویا جارہا ہے لیکن یہ بھی اپنی جگہ پر ایک کھلی حقیقت ہے کہ ماضی بعید سے ماضی قریب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور منشیات سمگلروں کا چولی دامن کا ساتھ تھابلکہ اس بدعت کوفروغ دینے میں جتنا رول ان ادارو ں نے ادا کیا ،اُتنا شاید کسی اور نے نہیں کیا ہوگا ۔بہرحال اب قانون نافذ کرنے والوں کی سرد مہری پر ماتم کرنے کی بجائے کشمیریوں کو من حیث القوم جاگنا پڑے گا کیونکہ اگر ہم آج بھی نہیں جاگیں تو کل بہت دیرہوچکی ہوگی اور ہماری پوری نسل اس گرداب میں پھنس گئی ہوگی۔اُس وقت ہمارے پاس بچانے کیلئے کچھ نہیں ہوگا اور ہم انتہائی بے بسی کی حالت میں اپنے قوم کو تباہی و بربادی کے سپرد کرکے جائیں گے۔