لیلۃ القدر

قوموں  کا عروج وزوال تاریخ کی ابدی حقیقت ہے۔کرۂ ارض پر آنے والی تمام اقوام کی داستانِ عروج وزوال اس کے صفوں میں ثبت ہے، لیکن عروج وزوال اور عزل ونصب کے فیصلے اتفاقی نہیں ہوتے بلکہ احکم الحاکمین کے اٹل قوانین کے مطابق لئے ہوئے فیصلے ہوتے ہیں جو تکوینی وتشریعی قوانین کے مطابق کچھ مخصوص اوقات میں لئے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اوقات فیصلہ کن اور تقدیر ساز ہوتے ہیں۔ انہی اوقات میں سے ایک عظیم الشان رات لیلۃ القدر ہے جو اقوامِ عالم کے عروج وزوال کے فیصلوں میں نہایت اہم مقام رکھتی ہے۔قرآن و حدیث کے نصوص میں اس رات کا تعارف کراتے ہوئے چند اہم امور کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
اس رات کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسی کتاب  ( القرآن الکریم ) نازل ہوئی ہے جو اقوام عالم کے عروج وزوال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ رسول اللہ ؐ کے ارشاد کے مطابق:’’ اللہ اس کتاب کے ذریعہ بعض قوموں کو رفعت عطا کرتا ہے جب کہ بعض کو ذلیل کر دیتا ہے‘‘ ( سنن دارمی)۔ یہی وہ کتاب ہے جس پر دنیوی واخروی کامیابی منحصر ہے، اور اسی کا قانون اور طریقہ زندگی اللہ کے ہاں قابلِ قبول اور ذریعہ نجات ہے، جو تمام انسانیت کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات اور نظامِ ِزندگی ہے، گویا اس رات میں انسانیت کو وہ نسخۂ کیمیا عطا کیا گیا جس میں امامت و قیادت اور ذلت ورسوائی دونوں کے قوانین واضح انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور لیلتہ القدر ہر سال اسی تجدیدِ عہد کے لئے آتی ہے کہ انسانیت خالقِ کائنات کی نازل کردہ اس کتابِ معجز نما کی جانب رجوع کرنے کا عہد تازہ کر لے۔
قرآن اس رات کی دوسری خصوصیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ اس رات میں ہر قسم کے حکیمانہ فیصلے لئے جاتے ہیں‘‘ (سورہ دخان) یعنی یہ رات اقوام وافراد دونوں کے لئے تقدیر ساز ہے، اس لئے کہ اس رات میں سال بھر وقوع پذیر ہونے والے امور کا حتمی فیصلہ لیا جاتا ہے۔ بعض قوموں کے حوالے سے ہزیمت وزوال کے بجائے فتح ونصرت اور احساس و شعورکی بیداری کے فیصلے لئے جاتے ہیں، بدبختی وذلت کو سعادت وتوفیق میں تبدیل کیا جاتا ہے، پستی کی جگہ اقبال مندی کے دروازے کھول دئے جاتے ہیںاور بعض قوموں کے حق میں اس کے برعکس فیصلے ہوتے ہیں۔یہی حال افراد کا بھی ہے،اس اعتبار سے یہ رات افراد واقوام دونوں کے لئے فیصلہ کن ہوتی ہے،جس میں احساس وشعور کو بیدار رکھنے اور اس کو اہتمام کے ساتھ گذارنے کی ضرورت ہوتی ہے اور انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی توبہ وانابت کے بعد زندگی کی سوئی کو صحیح سمت دینے کا عزم مصمم کرنا ضروری ہوتا ہے اور زندگی کو احکم الحاکمین کے دئے ہوئے نظامِ حیات کے مطابق گذارنے کی سعی وجہد کا بیڑا اٹھانا پڑتا ہے۔تب ہی اللہ کی جانب سے فتح وکامرانی اور توفیق کے فیصلے ہوتے ہیں۔
ایک اہم خصوصیت اس رات کی یہ ہے کہ یہ ’’ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘ یعنی اس رات میں کیا ہوا کوئی بھی عمل ہزارہا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔’’قدر‘‘ کی ایک تشریح حقیقی معرفت اور صحیح علم سے کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس رات میں طلبِ صادق کے نتیجہ میں انسان کو معرفت الہی نصیب ہوتی ہے اور علم ویقین اور صحیح معرفت کے ساتھ کی ہوئی عبادت برسہا برس کی بغیر علم ومعرفت کی عبادت سے کہیں بہتر ہے۔ اسی لئے رسولِ رحمتؐ نے فرمایا ہے کہ ’’شیطان پر ایک(ذی علم) فقیہ ہزار(بے علم) عابدوں سے زیادہ بھاری ہے‘‘(ترمذی)۔ گویا اس رات میں نازل شدہ کتابِ الہیٰ مشعلِ راہ بنانے کے نتیجے میں انسان کو ایسی معرفت اور ایسا علم ویقین نصیب ہوتا ہے جو انسان کی زندگی کا رخ تبدیل کر دیتا ہے، اسی لئے آپؐ کا ارشاد بھی ہے کہ’’ جس نے لیلتہ القدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں‘‘۔ اب آئندہ کی زندگی صحیح علم ومعرفت کی روشنی میں گذارنا انسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔اس رات میں خصوصی طور پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جن کے کام اور ذمہ داریاں متنوع ہوتی ہیں، البتہ یہ بات مسّلم ہے کہ فرشتوں کا نزول اصلا ًخیروبرکت اور رحمت کے لئے ہوتا ہے، اور اس خیر وبرکت اور رحمت سے فیضیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ْامت کے تمام افراد مکمل طور پر اس طرف متوجہ ہوں، بے طلبی وبے توجہی اور غفلت کے نتیجے میں خسران و ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آسکتا ہے۔
’’یہ رات سلامتی ہی سلامتی ہے‘‘اس اعتبار سے یہ رات فساد وانارکی ، ظلم وجور اور خوف کو امن وسلامتی میں تبدیل کرنے کا اہم وقت ہے۔ تکوینی اعتبار سے بھی اس رات کو ہر اعتبار سے سلامتی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، جس کی شہادت رسولِ رحمتؐ نے ان الفاظ میں فرمادی ہے کہ’’لیلتہ القدر معتدل رات ہوتی ہے،اس میں زمین پر شہابِ ثاقب نہیں مارے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ ’ناسا‘ میں کام کرنے والے سائنسدان مسمی کارنار( جو بعد میںمسلمان ہوگئے اور انہوں نے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا) نے اس کا انکشاف کیا ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ غروب آفتاب سے فجر تک روزانہ زمین کی جانب دس ہزار سے بیس ہزار تک شہابِ ثاقب گرتے ہیں، لیکن لیلہ القدر میں ایک بھی شہابِ ثاقب نہیں گرتا ہے۔کارنار نے انکشاف کیا ہے کہ ’ناسا‘ کو دس سال سے لیلہ القدر کی حقیقت کا علم تھا لیکن انہوں نے اس کو اس لئے مخفی رکھا کہ کہیں پوری دنیا مسلمان نہ ہوجائے۔! (دیکھیں کویتی اخبار’الوطن)
لیلتہ القدر کی تعیین نہیں کی گئی ہے ، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر چہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، البتہ اس حوالے سے رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ ’’میں تمہیں لیلہ القدر کے بارے میں بتانے آیا تھا تو فلاں فلاں دو لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی ‘‘۔ اس میں امت مسلمہ کے لئے واضح ہدایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے اختلافات سے دور رکھیں جو خیر سے محرومی کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور آپسی اختلافات ، جھگڑے اور دلوں کی نفرت ،ذلت وپستی اور زوال کے اسباب ہیں، بے جا اختلافات کے نتیجے میں امت کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیںاور آپسی اختلافات غیروں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، یہاں تک کہ رسول اللہ ؐکے فرمان کے مطابق ایسی عظیم رات میں آپسی اختلافات اور بغض رکھنے والوں کو مغفرت تک سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا تمام امور سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لیلتہ القدر کا امت مسلمہ کے عروج وزوال کے حوالے سے نہایت اہم مقام ہے، آج پوری دنیا عمومی طور پر اور مسلم امہ خاص طور پر جن اندوہناک حالات سے گذر رہی ہے، ہر طرف خونِ مسلم کی ارزانی ہے، مسجدِ اقصی کی پکار ہو، فلسطینی مظلوم بے گناہوں کی آہیں ہوں،غزہ کے معصوموں کی خون میں لت پت جھلسی ہوئی لاشیں ہوں، اسرائیل کی درندگی اور جارحیت ہو، عراق، شام، مصر اور مسلم امہ کا حال ہو، اغیار کی جرأت اور اپنوں کی بے غیرتی وبے حمیتی ہو، کفر کی تمام طاقتوں کا اتحاد ہو۔۔۔۔۔۔۔ خون کے آنسورْلا دینے والے یہ حالات بتا رہے ہیں کہ پوری امت اس تقدیر ساز رات میں اپنے مقدر کا ستارہ چمکا سکتی ہے بشرطیکہ وہ من حیث الامہ اس رات میں نازل شدہ کتابِ الٰہی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا عزمِ مصمم کر لے اور اس کے مطابق اپنے رویوں کو تبدیل کر کے نصرتِ الہٰی کی مستحق بنے، آپسی بے جا اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر شیطان اور اس کے تمام کارندوں کا سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کرے، اور پوری دنیا کو امن وسکون اور سلامتی فراہم کرنے کے لئے اللہ کے قوانین کو عملی طور پر نافذ کرنے کئے لئے اٹھ کھڑی ہو، انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ و انابت کے بعد صرف اور صرف اسلام کو اپنے لئے طریقہ زندگی کی حیثیت سے منتخب کرے، اللہ کی مدد اور نصرت اس کے ساتھ ہوگی اور تقدیر ساز رات میں اس کی داستانِ زوال وہزیمت، عروج واقبال اور فتح وکامرانی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔