وادیٔ کشمیر میں خراماں خراماں بہا ریں لو ٹ رہی ہیں۔اس حیا ت بخش مو سم کی اپنی ہی ایک دلآویزی اوردلکشی ہو تی ہے ۔ہر یا لی ،پھو ل ، شگو فے اورطا ئران خو ش نوا کی چہک یہ سب مل کربا د بہا ری کو اپنا ہی ایک رنگ وآہنگ عطا کر تے ہیں۔ موسم بہارکی موافقت پر یہاں کی معیشت ، تعلیمی سال اور سماجی زندگی کا ساراا نحصار ہوتا ہے ۔ یہ اچھا رہا تو معاشی سر گرمیوں کا محور چلتا رہتا ہے اور تعلیم وتدریس کی گہماگہمی قائم رہتی ہے اور سماجی تقریبات کا خرخشہ چلتا ہے لیکن خدانخواستہ اگر ا س میں کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب کچھ چوپٹ ہو کر رہ جاتاہے ۔ وادی کی ایک دیرینہ روایت یہ بھی ہے کہ پُربہار موسم کے شروع میں ہی دربا ر اپنے تما م جا ہ و جلا ل کے ساتھ جمو ں سے ارض ِجنت نظیر کو منتقل ہوتا ہے اور سربراہ حکومت سمیت تمام اعلیٰ سرکا ری عہدیدار اگلے چھ ما ہ تک اپنا ڈیرا وادی میں جماتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ۱۸۶۴ء میں جب بیع نامہ امرتسر کی رُوسے کشمیر کی خر ید وفروخت ہوئی تو ڈوگرہ شاہی نے اپنی شا ہا نہ عیا شیو ں سے بلا خلل لطف اندوز ہونے کے ضمن میں دربار مو کا نرالا نسخہ وضع کیا۔ شخصی راج کے کار پردازوں کو وادی میں اکتو بر کی خنک ہو اوں کے جھونکے چلتے ہی سب کچھ سُونا سُونا لگتا ، دل اُچا ٹ جا تا اور جنت نظیر کا سرد موسم اور خنک ہوائیں عذاب و عتاب محسوس ہو نے لگتیں ، وہ فوراً جموں کی گرمی میں اپنا کاروبارِ حیات جاری رکھنے کے لئے سرمائی دارالحکومت کو کوچ کرجاتے۔ اس دوران بے یار ویاور اہل ِ کشمیر کے مصائب دو چند ہونا ظاہر سی بات تھی۔ اگر چہ شخصی راج کا خاتمہ بالخیر کب کاہو چکا ہے مگر یہ روایت آج بھی قائم ودائم ہے ۔ بہر کیف حسب دستور دربار کی ودای واپسی کا بگل بج گیا ہے تواس کے استقبا ل میں شہر سرینگر میںسیکرٹریٹ سے لے کر سول لا ئنز ائر یا کی حدود میں تزئین و آ را ئش کے لئے مطلو بہ اقداما ت کئے جا رہے ہیں، نا لیو ں کی صفا ئی ستھرا ئی اور رنگ روغن کا کام زوروں پر جا ری ہے ۔یہ سارا اہتمامِ شوق اس لئے ہے تا کہ ان مصرو ف شاہر اؤ ں سے گزرنے والے وزرا ء اور بیر وکر یٹو ں کے قا فلو ں کو یہ گما ن ہی نہ ہو کہ وادی تو وادی سری نگر کا بھی کس طرح ہمچو قسم کے مسائل کے جنگل میںدم گھٹ رہا ہے ۔حکو متی اکابرین ویسے اس حقیقت سے انجان نہیں ہوسکتے کہ روز سیکر ٹر یٹ جاتے ہو ئے جن چنیدہ سڑ کو ں سے ان کا گز ر ہو تا ہے، ان کے اغل بغل میں کتنے گھمبیر بلد یا تی مسا ئل ڈ یرا جما ئے ہو ئے ہیں۔ لا ل چو ک اور گردو نو ح میں ہی نہیں بلکہ شہر خا ص میں گندے پا نی کے نکاس کے لئے نا لیو ں کی صفا ئی شاذونادر بھی نہیں ہو تی، کو ڑ ے کرکٹ کے ڈ ھیر شہر کے قلب کوبد نما بنا نے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑ تے، آوارہ کتے فوج درفوج ہر گلی کوچے میں اپنا مورچہ سنبھالے ہیں ، فٹ پاتھو ں پر مستقلا ً چھا پڑ ی فرو شو ں اور ریڑ ھی بانوں کا’’ قبضۂ جا ئز ‘‘جماہوا ہے، ڈرا یئورو ں کی من ما نیوں اور سوا ریو ں کی بے تر تیبی سے ہر جگہ لمبے لمبے ٹر یفک جام لگنا معمول بناہوا ہے، زیادہ تر دوکاندار اپنا مال تجا رت دو کانو ں کے سامنے سڑکو ں پر سجانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے، اگرچہ اس سے را ہ گیرو ں کو چلت پھر ت میں دقتیںا ور رکاوٹیں بھی آئیں یا گا ڑ یو ں کو مجبوراًسڑ کو ں پردوڑنے کی بجا ئے رینگنا پڑ ے۔ لال چوک کے قرب و جوار میں چوری چھپے منشیا ت کے بازار بھی سجتے ہیں جو نئی نسل کے اخلاق کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، یہاں اوبا ش لونڈے راہ چلتی اسکو لی بچیو ں اور دوشیزاؤ ں کی چھیڑ خو انیا ں کر کے سما جی بے حسی اور پولیس کے تجاہل عافا نہ کا کھلا مذاق بھی اڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ سار ے عیوب اور امراض دیکھنے کے لئے کسی خوردبین کی ضرورت نہیں بلکہ عیا ں را چہ بیان کے مصداق ان کو دور سے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے ، مگر افسوس ریاست کے انتظام اور انصرام پر ما مو ر لو گو ں کی عدم تو جہی یا اُن کی شان ِ بے نیا زی کے صدقے مسائل ا ور جرائم کے منہ بولتے ثبو تو ں کے با وصف ان کی رگِ حمیت کبھی پھڑ کتی ہی نہیں ۔ شہر کے با لا ئی اور نشیبی علا قوں میں بلد یاتی مسائل ،جرائم ، اخلاقی امراض، غیر قانونی تعمیرات وتجاوزات اور دیگرناہنجاریوں کا آج تک ارباب ِ اقتدار سے سد باب نہ ہوا ۔ بہر صورت چند ہی دنو ں میں سری نگر میں سیکر ٹر یٹ کھل رہا ہے ، بہت ہی بہتر ہو تا اگر مخلوط حکو مت اپنی انتظا می مشنری کو حر کت میں لا کر ان تمام مسائل کا تر جیحی بنیا دو ں پر قرار واقعی نپٹارا کر تی۔ بخلا ف اس کے اگر حسب سا بق ان سلگتے عوامی مسائل کی اَن دیکھی کی گئی اور حکومت کی نقل و حرکت سکرٹریٹ کے فلا ئی اَور سے لے کر ڈل کنا رے روح پرور راج بھون تک محدود رہی تو بلاشبہ ایک عام آدمی کے رگ و پے میں یہی منفی احساس بدستور دوڑتا رہے گاکہ وہ شخصی راج سے بھی گئے گزرے دور میں جی رہا ہے اس کے لئے یہ با ت با لکل بے معنی ہو کر رہے گی کہ چاہے دربار کا انتقال سری نگر ہو جموں ،اس کے کسی بھی ایک درد کا در ما ں نہیں ہونے و الا۔ وہ یہ سوچنے میں بھی حق بجا نب ہو گا کہ حکام با لا اس کے لئے بجز اس کے کو ئی مطلب نہیں رکھتے کہ وہ خزانہ ٔ عامرہ کو بادشاہوں کی مانند مال مفت دل بے رحم کے مصداق کبھی جمو ں کی گر میو ں میں اُڑا ئیںاور کبھی کشمیر کی بہا رو ں میں پھونک دیں ۔ باایں ہمہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سے اُمیدہے کہ وہ اگلے چھ ماہ وادی کشمیر کے جملہ عوامی مسائل کا موثر نپٹارا کر نے کے لئے ایک صحت مند انتظامی حکمت عملی کی بناڈالیں گی تاکہ عام آدمی کی توقعات پر کھرا اُتر یں۔