لکھن پور ،لور منڈااور جموں ریلوے سٹیشن پر سکریننگ برائے نام

 بیرون ریاست شہریوں کو کھلی چھوٹ

 
 جموں // جموں میں کورونا وائرس کے 2مشتبہ مریضوںکی تصدیق کے باوجود حکومتی اعلانات کے برعکس جموں کے داخلہ مقامات پر سکریننگ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے اور باہر سے آنے والے بیشتر لوگ بنا کسی طبی جانچ کے جموں اور کشمیرمیں داخل ہورہے ہیں۔جموں ایئر پورٹ پر سکریننگ کا کچھ انتظام تو ہے لیکن لکھن پور اور جموں ریلوے سٹیشن پر خدا ہی حافظ ہے ۔ اسی طرح کی صورتحال سرینگر ائر پورٹ پر بھی ہے۔خیال رہے کہ سیاحوں کے علاوہ ماتا ویشنو دیوی کٹراہ کی وجہ سے ہزاروں لوگ روزانہ باقی ریاستوںسے جموں اور کشمیر میں داخل ہوتے ہیں ۔جموں ائرپورٹ پر ایک فارم دستیاب رکھا گیا ہے جس سے پُر کروایا جارہاہے ۔اس فارم میں مسافر اپنی تفاصیل لکھتے ہیں جبکہ تھرمومیٹر سے بخار بھی چیک کیاجاتا ہے تاہم اگرکوئی مسافر کہتا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ کسی ملک سے آیا ہے تو اس کو الگ کر کے اس کی مکمل جانچ کی جاتی ہے ۔دو روز قبل ائرپورٹ سے آٹھ لوگوں کا بخار چیک کرکے انہیں جموں میڈیکل کالج لے جایا گیا تاہم ان سبھی کے رپورٹ منفی آئے ۔محکمہ صحت کی جانب سے ائرپورٹ پر 4رکنی ٹیم تعینات ہے، جو صبح سے لیکر شام 4:30بجے تک آخری پروازکے اڑان بھرنے تک وہاں ٹھہرتی ہے ۔خیال رہے کہ جموں ایئرپورٹ سے روزانہ 18سے20پروازیں اڑان بھرتی ہیں۔لکھن پور میں اگر چہ میڈیکل چک پوسٹ قائم ہے تاہم و ہ برائے نام ہے کیونکہ لوگوںکی کوئی جانچ نہیں ہورہی ہے اور صرف غیر ملکی سیاحوں کو روکا جاتا ہے ۔میڈیکل چیک پوسٹ میں ایک ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ کے کچھ اہلکار تعینات تو ہیں لیکن کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔سنیچر تک  3مارچ سے 452افراد کو یہاں سکرین کیاگیا جن میں64غیر ملکی بھی شامل تھے ۔
لکھن پور انٹری چیک پوسٹ پر مقامی گاڑی روکی نہیں جاتی ہیںاور ملک کے دیگر حصوں سے آنے والی سبھی لوگ بنا کسی سکریننگ کے جموں وکشمیر کے حدود میں داخل ہوجاتے ہیںجبکہ صرف سیاحوںکو چیک کیاجاتا ہے۔چیک پوسٹ پر صرف جموں وکشمیر سے باہر کی رجسٹریشن نمبرات والی گاڑیوں کو کبھی کبھار روکا جاتا ہے اور انکی چیکنگ ہوتی ہے جبکہ اکثر و بیشتر گاڑیاں کسی چیکنگ کے بغیر ہی داخل ہوجاتی ہیں۔گزشتہ روز یہاں 150لوگوںکو سکرین کیاگیاتھا تاہم ہر کسی باہر سے آنے واکو سکرین نہیں کیاجاتاہے۔یہاں تعینات ایک لیڈی ڈاکٹر کے مطابق سیاح خاص کر غیر ملکی سیاحوںکو روکا جاتا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ غیر ملکی سیاح بھی ہاتھ ملا رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں اس وائرس کے حوالے سے زیادہ بیداری نہیں ہے۔جموں ریلوے سٹیشن پر روزانہ کم از کم30ریل گاڑیاں آتی اورجاتی ہیں ۔ایک ٹرین میں1500سے2000لوگ ہوتے ہیں اور یوں روزانہ اوسطاً تیس ہزار لوگ جموں ریلوے سٹیشن پر ہوتے ہیں۔جموں ریلوے سٹیشن کی مین انٹری پر ہیلپ ڈیسک تو قائم کیاگیا ہے اور بینر بھی کورونا وائرس کے تعلق سے آویزاں کئے گئے ہیں تاہم وہاں کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں ہے اور صرف نیم طبی عملہ کے کچھ لوگ وہاں ہوتے ہیں ۔ریلوے سٹیشن میں پلیٹ فارم نمبر1 کے قریب مین انٹر ی پر کل سے ایک میڈیکل ٹیم بیٹھ رہی ہے جوبسا اوقات بخار چیک کرتے ہیں۔یہ ٹیم صبح8سے شام6بجے تک یہاں بیٹھتی ہے تاہم باہر سے آنے والے سبھی لوگوں کی جانچ نہیں ہوپارہی ہے اور شام 6بجے سے اگلی صبح کے 8بجے تک جو لوگ باہر سے ریلوں کے ذریعے جموں ریلوے سٹیشن پہنچتے ہیں،ان کی کوئی طبی جانچ نہیں ہوتی ہے اور دن کے اوقات میں جو جانچ ہوتی ہے ،وہ بھی نہ کے برابر ہے کیونکہ جموں ریلوے سٹیشن پانچ پلیٹ فارموںپر مشتمل ہے اور ایک پلیٹ فارم پر طبی جانچ سے بات بننے والی نہیں ہے ۔
سرینگر جانے والے مسافروں کا بھی یہی حال ہے۔ سرینگر جانے والے مسافروں کی بھی کہیں جانچ نہیں ہوتی ہے بلکہ مقامی لوگوں کی کہیں پر بھی جانچ نہیں ہوتی چاہیے وہ بیرون ممالک سے ہی کیوں نہ آئے ہوں۔ شکور احمد بیرون ملک سے سرینگر آیا، لیکن کہیں پر بھی اسکی جانچ نہیں ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ ائر پورٹ پر صرف غیر ملکیوں سے ہی سرسری پوچھ تاچھ کی جاتی ہے جبکہ بھارت کی مختلف ریاستوں سے آنے والے افراد کی کوئی سکریننگ نہیں ہوتی ہے بلکہ انکی تعداد نوٹ کی جاتی ہے۔