لوک سبھا ضمنی انتخابات: اننت ناگ ضمنی چناؤ تقر یباً منسوخ

سرینگر //اننت ناگ لوک سبھا نشست کیلئے ضمنی انتخاب اب آئندہ سال اپریل مئی میں ہونے والے ملک کے عام انتخابات تک نہیں ہونگے۔ ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ اسکی وجہ سبھی کو معلوم ہے کیونکہ جنوبی کشمیر میں صورتحال موافق نہیں ہے۔غالباً ریاست کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہوگا کہ غیر موزون صورتحال کی وجہ سے ریاستی حکومت کو مجبوراً کسی پارلیمانی حلقہ انتخاب میں ضمنی چنائو کرانے کا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا ہے، جو نشست 21ماہ سے خالی پڑی ہے۔مذکورہ آفیسر کا کہنا ہے کہ ہر 15روز کے بعد حلقہ انتخاب کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے اور ریاستی حکومت الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اس بات کی سفارش نہیں کرسکتی کہ جنوبی کشمیر کی نشست کیلئے ضمنی چنائو کرایا جائے۔ریاستی حکومت کے ترجمان اور وزیر تعمیرات نعیم اختر کا کہنا ہے’’ایسی کوئی تجویز نہیں کہ ضمنی چنائو کرایا جائے‘‘۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اننت ناگ، کولگام، شوپیان اور پلوامہ اضلاع اس وقت نئی ملی ٹینسی کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں ، جنہیں لوگوں کی غیرمعمولی حمایت حاصل ہے۔اس صورتحال کی وجہ سے مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی موجودگی ان علاقوں میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ریاستی چیف الیکٹورل آفیسر شلین کابرا نے کہا’’ اننت ناگ حلقہ انتخاب میں ضمنی چنائو کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہے‘۔ریاستی الیکٹورل آفس میں ایک سنیئر آفیسر نے کہا ہے کہ عوامی نمائندگی قانون کے تحت الیکشن کمیشن آف انڈیا از خود چنائو کرانے کی کوئی سرگرمی نہیں کرسکتا جب کسی حلقہ انتخاب میں ضمنی چنائو کرانے میں محض ایک سال کا عرصہ  عام انتخابات میںرہ گیا ہو۔سرینگر میں گزشتہ برس 9 اپریل کو پارلیمان کے ضمنی انتخابات کے دوران کئی پولنگ مراکز پر بائیکاٹ کیلئے احتجاجی مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔اس دوران 8 احتجاجی مظاہرین کو فورسز نے ہلاک کیا،جس کی وجہ سے سرکار کو مزید احتجاجی مظاہروں کے امکانات کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے اننت ناگ میں ضمنی انتخابات کو بھی ملتوی کرنا پڑا۔ سرکار کی طرف سے یہ احاطہ کیا گیا کہ اس حلقہ انتخاب میں مزید ہلاکتوں کا امکان ہے،اور ووٹ شرح بھی6 فیصد،جو کہ سرینگر پارلیمانی حلقے میں تھی،سے بھی کم ہو سکتی ہے۔2016میں حزب کمانڈر برہانی وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد جنوبی کشمیر کے4اضلاع میں احتجاجی لہر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے،جبکہ2016میں 100کے قریب ہوئی ہلاکتوں میں سے قریب60ہلاکتیں جنوبی کشمیر میں ہی ہوئیں تھیں،جبکہ پیلٹ سے سینکڑوں لوگ آنکھوں کی بصارت سے بھی محروم ہوئے ۔ گزشتہ16ماہ کے دوران ان اضلاع میں قریب250 جنگجوہلاکتیں بھی پیش آئیں،تاہم اس دوران مقامی نوجوانوں کی طرف سے جنگجوئوں کے صفوں میں شامل ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے،جبکہ جائے جھڑپوں کے نزدیک شہریوں کیساتھ تصادم آرائی نے سرکاری فورسز کیلئے صورتحال کو ابتر بنا دیا ہے۔فی الوقت یہ اضلاع مین سٹریم جماعتوں کیلئے تقریباً خطہ ممنوع بن چکے ہیں،کیونکہ وہ ان علاقوں میں سیاسی جلسے نہیں کرپاتے،اور انتخابی مہم چلانے کی تو بات ہی نہیں ہے۔یہ نشست4جولائی2016کو اس وقت خالی ہوئی،جب وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی،جنہوں نے اس حلقہ انتخاب سے2014میں جیت درج کی تھی،اس نشست سے اسمبلی حلقہ سے ضمنی انتخاب کے دوران جیت حاصل کرنے کے بعد مستعفی ہوئیں۔ ضمنی انتخابات4جنوری2017 تک6ماہ کے اندر کرانے تھے،تاہم اکتوبر2016 میںجب کشمیر احتجاجی لہر کی چپیٹ میں تھا،حکومت نے انتخاب کو موخر کرنے کا اعلان کیا،کیونکہ انتخابات کیلئے صورتحال موزون نہیں تھی۔ جموں کشمیر کی تاریخ میں یہ دوسری مرتبہ تھا ’’ امن و قانون میں خلل‘‘ کی وجہ سے انتخابی ادارے کو6ماہ کی ڈیڈ لائن کے بعد تک انتخابات کو مو خر کرنا پڑا ہے۔ نومبر2016میں چیف الیکٹورل افسر کی طرف سے انتخابی کمیشن کو پیش کئے گئے رپورٹ میںاننت ناگ اور سرینگر میں بیک وقت اپریل میں انتخابات کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔مگر اپریل میں انتخابات کی منسوخی کے بعد انتخابات کی تاریخ 25مئی مقرر کی گئی تاہم سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے پھر بھی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اپنی نوٹس میں مزید کہا ہے کہ ریاستی سرکاروں نے اپنی رپوٹوں میں کمیشن کو بتایا تھا کہ چند افراد نے آنے والے انتخابات کے خلاف مہم شروع کی ہے۔ الیکشن کے ملتوی کو علیحدگی پسند قیادت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے مین سٹریم لیڈران بشمول سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ انتخابات کی معطلی علیحدگی پسندوں کی جیت ہے ، سال 1991کی یاد تازہ دلاتا ہے جب ریاست میں الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابات کرانے میں ناکام رہا تھا۔ 18اپریل سال 1991میں بھارت کے صدر نے قانون میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کو انڈیاکو اجازت دی تھی کہ وہ جموں و کشمیر کی پارلیمانی نشستوں کے بغیر انتخابات کا انعقاد کریں۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات 6سال تک اسوقت منعقد نہیں ہوسکے جب اسوقت کے ریاستی گورنر جگموہن نے اپنے متنازعہ اقدام کے تحت  1990میں ریاستی اسمبلی کو تحلیل کردیا تھا ۔  1995میں جموں و کشمیر میںصدارتی راج  کے دوران مرکزی سرکار نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کہا تھا کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میںانتخابات کا انعقاد کرائے تاہم  1995میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی تین رکنی ٹیم نے متفقہ طور پر ریاست میں انتخابات کو خارج از امکان قرار دیا تھا ۔ ریاست میں انتخابات اسکے 6سال بعد  1996میں منعقد کرائے گئے۔ 1996میں مرکزی سرکار نے انتخابی عملہ دیگر ریاستوں سے لایا جب مقامی عملے نے انتخابات کی ڈیوٹی انجام دینے سے انکار کیا۔ ریاستی سرکار کے ایک سینئر وزیر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جنوبی کشمیر میں انتخابات منعقد کرانے کیلئے صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ مذکورہ وزیر نے کہا ــ ــ’’وہاں صورتحال کے بارے میں زیادہ بات چیت نہیں ہوئی ، ہم سب جانتے ہیں کہ جنوبی خطے میں لوگوں میں غصہ ہے جو عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔