لمس

اس روز جب میں بازار پہنچا تو ہر چیز روشن تھی۔لڑکیاں،جیولری،مہندی اور چوڑیوں کی دوکانوں پر اکھٹی ہوئی نظر آرہی تھیں۔نو جوان لڑکے گار کرتے پائجاموں کی خریداری کررہے تھے۔میں اب روڑ تک پہنچ چکا تھا، جو جہلم بازار کے نام سے شہر کی مشہورجگہ تھی۔میری نظر ایک لڑکی پر پڑی جو اپنی برقعہ پوش ماں کے ساتھ بڑی حسرت سے کپڑوں کو دیکھ وہی تھی۔اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔میں اس لڑکی کو تجسس سے دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔آگے چلتے ہوئے میں اپنی ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ ہم کتنے خوش ہوتے تھے جب نو عمر تھے۔ عید کا ہلال دیکھ کر دیوانہ ہوجایا کرتے تھے۔نو عمری زندگی کا  ایک نادر زمانہ ہوتا ہے۔ماں باپ اپنے بچوں کو پرنس سمجھتے ہیںاور وہ جو فرمائش کرے ماں باپ اس کو پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔بچپن میں عید کا جتنا زیادہ لطف آتا تھا اب وہ نہیں رہا ہے۔اب وہ احساسات ہی ختم ہوگئے اور اب عید ایک رسم سی بن گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔انہی خیالات میں ڈوبا ہوا یہ بھی بھول گیا کہ میں بازار کے آخری سرے سے بھی آگے بڑھ چکا تھا۔ میں رک گیااور گھر جانے کیلئے واپس مڑا۔بازار میں خریداروں کی بھیڑ دو گنی ہوچکی تھی۔وہاں گزرتے ہوئے میں نے پھر اس لڑکی اور اس کی ماں کو اسی دوکان پر دیکھا۔۔۔میں نے دیکھا کہ لڑکی کی ماں دکاندار سے لڑکی کے پسندیدہ ڈریس کا ریٹ کم کروارہی تھی جبکہ دکاندار اس کا ریٹ کم کرنے پر بالکل تیار نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
اب میں نے لڑکی کے چہرے پر پہلی والی خوشی کے بجائے مایوسی کے آثار پائے ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ رونے کے قریب ہے۔۔۔۔۔۔۔دکاندار نے غصے سے اپنا ڈریس اس لڑکی کے ہاتھوں سے کھینچ لیا ۔۔۔لڑکی کے صبر کا پیمانہ ختم ہوچکا تھا اور اس کے معصوم چہرے پر ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔۔ماں اپنی لڑکی کے آنسو دیکھ کراب دکاندار پر ملامت کر رہی تھی ۔۔مجھے پورے معاملہ کا اندازہ ہوگیا تھا ۔۔۔میں نے دکاندارسے کوئی اور بات کرنے کے بجائے اس ڈریس کی قیمت پو چھی تو اس نے ڈریس میرے سامنے رکھ دیا اور کہا بارہ سو روپے۔۔۔لڑکی اور اس کی ماں میری طرف تجسس سے دیکھ رہی تھیں اور ڈر رہی تھیں کہیں میں یہ ڈریس نہ خرید لوں ۔۔۔میں نے بغیر کسی بحث کے دکاندار کو بارہ سو روپے ادا کردئیے ۔۔۔دکاندار نے فوراً پر ڈریس پیک کرکے میرے حوالے کردیا۔۔۔ڈریس کے چلے جانے کے دکھ سے اب لڑکی زارو قطار سے رورہی تھی۔
میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا’’آپ کا نام کیا ہے‘‘ اس نے جواب دیا انشاء
’’آپ کو یہ ڈریس پسند ہے ‘‘میں نے لڑکی سے پو چھا 
’’ہاں‘‘ اس نے جواب دیا۔۔
میں نے ڈریس اس کے حوالے کردیا ۔۔وہ یہ دیکھ کر ششد ر ہوگئی اور کہا ’’نہیں‘‘
’’میں تمہارے بڑے بھائی کی طرح ہوں،تم اپنے بھائی سے یہ ڈریس لے لو۔۔‘‘میں نے کہا
اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔۔۔میں اس کی ماں کی طر ف متوجہ ہوا اور کہا ’’خالہ کیا میں آپ کے بیٹے جیسا نہیں ہوں؟‘‘اس کی آنکھوں سے جھر جھر آنسوں نکل پڑے۔اس نے اپنی رضامندی کا اظہار سر ہلا کرکیا اور لڑکی نے میرے ہاتھوں سے ڈریس لے لیا۔۔۔۔۔۔وہ مجھے بتانے لگی گذشتہ شورش میں فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بے تحاشہ پیلٹ فائرنگ کی جس میں اس کا شوہر بھی شدید زخمی ہوگیا ۔کئی دنوں تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد میڈکل انسٹی چیوٹ میں دم توڑ بیٹھا۔میں وہ گھروں میں کام کرکے اپنا اور بیٹی کا پیٹ پالتی ہے۔وہ کہنی لگی’’بیٹا جیتے رہو اللہ تمہیں خوش رکھے‘‘
مجھے اب گھر دیر ہو رہی تھی میں نے ان سے جانے کی اجازت لی تو لڑکی نے پوچھا ’’بھیا  آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
میں نے پلٹ کر جواب دیا ’’انشاء کا بھائی‘‘
لڑکی کا چہرہ گلاب کی مانند کھل اُٹھا۔اب مجھے یاد آیا کہ مجھے اپنے لئے جوتا خریدنا تھا لیکن میری جیب میں اب کوئی رقم نہیں تھی۔۔۔میں نے گھر واپسی کیلئے اپنے قدم تیزی سے بڑھانے شروع کردیئے اور سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگا۔۔۔مجھے ایسا لگا جیسے آسمان پر ستارے بھی مسکر ا رہے ہیں۔میں نے عجیب سی خوشی کا لمس محسوس کیا جیسا اس سے پہلے کبھی نہیںہوا تھا۔
رعناواری سری نگر،،ربطہ نمبر:9697330636
salimsuhail3@gmail