آصف اقبال
کل علی الصبح سے وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں ایک خبر آگ کی طرح پھیل گی کہ سرینگر میں سکینڈل طشت ازبام ہوا، جس میں سادہ لوح عوام سے 59کروڑ ہڑپ کئے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعہ ایساکوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اسے پہلے بھی کئی سارے واقعات بھی رونما ہوئے لیکن یہ سلسلہ تھمنے کا نام لے رہا ہے بلکہ ہر نئے دِن کے ساتھ اسکا دامن تیزی سے وسیع ہوتا گیا۔ ظاہر ہے ان جھانسوں کے طوفان میں سرزمین کشمیر ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے۔آخرکیوں عام لوگ سادگی کا مزاج اپناتے ہوئے اپنا قیمتی پیسہ ضایع کرتے ہیں اور پھر کفِ افسوس ملتے رہتے ہیں۔
اسی بیچ کل سرینگر میں اسی نوعیت کے ایک واقعہ کا پردہ فاش ہوا، جس سے معلوم ہوا کہ گُزشتہ نو مہینے سے Curative Services pvt limitedکے نام سے ایک کمپنی نے سرینگر اور دیگر کئی علاقوں میں دفاتر کھولے اور لوگوں کو منظم طریقے سے کمپنی کا تعارف دیا گیا۔کمپنی میں کئ سارے ملازمین کام کر رہے تھے اور کال سینٹرس کے طرز پر لوگوں کو کمپنی میں پیسہ لگانے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔کمپنی میں پیسہ لگانے کے لئے باضابط طور رجسٹریشن کی جاتی تھی اور اُسکے بعدپاس وارڈمل جاتا تھا۔اکاونٹ کھولنے پر پانچ ہزار روپیے کمپنی کے اکاونٹ میں جمع کرانے پر رقم دوگنا ہونے کا فرضی دعویٰ کرکے لوگوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری تھا۔ کمپنی کئ مہینوں سے وادی میں کام کررہی ہے اور ایک مربوط نظام سے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر خوب پھلتی پھولتی رہی ہے۔ کمپنی کی تشہیر کے لئے وادی میں موثر یوٹیوبرس اور کچھ صاحب اثر(Social media Influencer)کو اپنے جھانسے میں پھنسا کر اپنا مقصد پورا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے رہے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ تشہیر کے لئے اِن یوٹیوبرس اور Influencersکے ساتھ ڈیل ہوجاتی ہے اور سوشل میڈیا پر کمپنی کے فوائد کی دھوم مچ جاتی ہے۔روزانہ سوال کا جواب دینے پر پیسہ،پیسہ جمع کرنے پر رقم دوگنا ہونے کا وعدہ اور کئی سارے آفرس ملنے کا اشتہارسوشل میڈیا پر مذکورہ یو ٹیوبرس نہایت خوبصورتی کے ساتھ چلاتے ہیں۔سادہ لوح عام خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں،بناء کسی تحقیق کے کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں،پیسہ جمع کرتے ہیں،امیر بننے کے خواب میں اپنی جمع پونجی کمپنی کو حوالہ کرتے ہیں ۔ہزاروں روپیے سے لاکھوں روپئے کمپنی میں جمع کراتے ہیں تاکہ اُنہیں دوگنا رقم مل جائے لیکن باآلاخر جمع پونجی ایک جھانسے کے سنمدر میں ڈوب جاتی ہے۔
گُزشتہ کئی سال سے کشمیر میں مُختلف نوعیت کے سکینڈل طشت ازبام ہوئے لیکن عام لوگ ہوش کے ناخن نہیں لیتے ہیں۔ سرکاری ملازمت دینے کے جھانسے میں ابھی تک کتنے لوگوں نے اپنا پیسہ ضایع کیا،موبائل کے ذریعے ایک چھوٹی مسیج یا ایک کال کے ذریعے کتنے لوگوں نے سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افسوس کے سواء کچھ حاصل نہیں کیا۔ فرضی کمپنیوں کے نام پر ہزاروں لوگوں کو لوٹا گیا،لاٹری کے نام پر ہزاروں لوگوں پر ڈھاکہ ڈالا گیا۔ اسطرح سے منظم طریقے سے آئے روز لوگوں کو بہلاکر مختلف طریقے سے بے وقوف بناکر لوٹا جارہا ہے۔
مگر اِن سب واقعات کے باوجود اہلیان کشمیر سبق نہیں سیکھتے ہیں بلکہ امیر بننے کے خواب میں خستہ حال ہوتے ہیں۔اِن جھانسوں میں پڑھے لکھے ،ان پڑھ ،امیر اور غریب یکسان طور متاثر ہیں۔آخر لوگوں میں بیداری کی حِس کب پیدا ہوگی اور کب بیدار مغزی سے اِن جھانسوں کو چلانے والوں سے نجات ملے گی۔ محنت سے پیسہ کمانے کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے اور لمحوں میں کروڑ پتی بننے کا مزاج تیزی سے فروغ پارہا ہے، جسکے نتیجے میں لوگ آنکھ بند کرکے اِن جھانسوں میں پھنس جاتے ہیں۔پولیس کی سائبر سیل کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی تیزی سے پھیلنے والی اس وباء سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہوشیار رہنا ہوگا اور وادی کے یو ٹیوبرس کو بھی اندھی تقلید سے اجتناب کرکے کسی کمپنی کی تشہیر کے سلسلے میں پہلے پولیس سے باضابط طور ویری فیکشن رپورٹ لینا چاہیے۔
آخر جس قوم میں بے روزگای کا بھوت سوار ہو،مہنگائی کا جِن بوتل سے باہر آچکا ہو اور پھر ایک خطیر رقم قریباً ساٹھ کروڑ روپیہ جھانسے کی صورت میں ضائع ہوجائے تو اُسکو قوم کی معاشی حالت کس قدر کمزور ہوسکتی ہے۔ اگر ہوش کےناخن نہیں لئے جائیں تو کل اسی نوعیت کے واقعات رونما ہوجائینگے اور کچھ دنوں تک آہ و فغان کی صدائیں فضاء بسیط کے ساتھ گشت کرنے کے ساتھ عوام ان واقعات کو نسیاً منسیاً کریںگے اور سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے گا۔اس خطرناک صورتِ حال میں ملوثین کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی ضرورت ہے اور جن لوگوں نے بھی دانستہ طوراس دھندے کو تشہیر دی، انہیں بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
ای میل۔[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔