جموں//ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہیرانگر کے رسانہ گائوں میں ایک 8سالہ خانہ بدوش بچی کو بیتے برس اجتماعی جنسی زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل ایک لرزہ خیزداستان ہے جو ملزمان کے حق میں احتجاجی ریلیوں، پولیس کے غیر پیشہ وارانہ طریقہ کار، وزیر اعظم کی تین ماہ تک معاملہ پر خاموشی اور ریاست میں مخلوط سرکار کی برخاستگی سے رقم کی گئی۔
خوفناک جرم
ریاستی پولیس کے محکمہ کرائم کی جانب سے دائر5600الفاظ کی چارج شیٹ کے مطابق محمد یوسف نامی ایک شخص نے 12جنوری 2018کو ہیرانگر پولیس تھانہ میںشکایت درج کروائی کہ اس کی آٹھ سالہ بچی 10جنوری سے لاپتہ ہے ، وہ دوپہر `12بجے گھوڑے چرانے کیلئے گئی تھی اور آخری بار2بجے دیکھی گئی ہے ۔ معمول کے مطابق وہ 4بجے گھر لوٹ آتی تھی لیکن اس روز نہیں آئی۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کی، ایک ہفتہ کے بعد 17جنوری کو بچی کی نعش ملی ، پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر پوسٹمارٹم وغیرہ کروایا۔ 22جنوری کو تحقیقات کرائم برانچ کے سپرد کر دی گئی۔ 9اپریل کو پولیس نے سی جے ایم کٹھوعہ کی عدالت میں چارج شیٹ پیش کی جس دوران کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن نے شدید مزاحمت کی اور چارج شیٹ پیش کرنے کی اجازت نہ دی۔ مابعد چارج شیٹ جج کی رہائش گاہ پر پیش کی گئی، جس کے مطابق سانجھی رام اس جرم کا ماسٹر مائنڈ تھا جس نے اپنے نابالغ بھتیجے اور چھ دیگر افراد کو بچی کے اغواء، آبر وریزی اور قتل کے لئے اکسایا تا کہ خانہ بدوش بکروال کنبوں کو خوفزدہ کر کے ہیرا نگر چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے ۔ کرائم برانچ کی تحقیقات کے مطابق بچی کو ایک مقامی دیو استھان پر یرغمال بنا کر رکھا گیا، سانجھی رام اس مندر کا پجاری ہے۔ بچی کو نشہ آور ادویات دے کر اس کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی گئی اور پھر اس کا سر کچل کر اسے ہلاک کر دیا گیا۔ فورنیسک ماہرین کا کہنا ہے کہ مندر میں پائے گئے بال مقتولہ کے ثابت ہوئے ہیں۔ چارج شیٹ کے مطابق سانجھی رام کا بیٹا وشال نابالغ ملزم کے بلانے پر میرٹھ سے رسانہ آیا تا کہ وہ بھی اپنی ’پیاس ‘ بجھا سکے ۔معاملہ میں ملزم بنائے گئے ایک پولیس اہلکار نے بچی کو ہلاک کرنے سے قبل دیگر ملزمان کو انتظار کرنے کے لئے کہا تا کہ وہ آخری بار بچی کے ساتھ منہ کالا کر سکے ۔سانجھی رام نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لئے پولیس والوں کو ڈیڑھ لاکھ روپیہ ادا کیا۔ سانجھی رام، اس کا بیٹا وشال، سب انسپکٹر آنند دتہ، دو ایس پی او دیپک کھجوریہ اور سریندر ورما، ہیڈ کانسٹبل تلک راج کے علاوہ ایک نوجوان پرویش کمار مختلف دفعات کے تحت ملزم نامزد کئے گئے۔
ملزمان کے حق میں احتجاج
15فروری کو بھاجپا کے کچھ لیڈروں کی پشت پناہی میں ’ہندو ایکتا منچ ‘ کی طرف سے احتجاجی ریلی نکالی گئی ، ترنگے جھنڈے لئے ہوئے مظاہرین ملزمان کی حمایت میں نعرے لگا تے رہے ۔مخلوط سرکار کے دو وزیر، لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا 4مارچ کو ہندو ایکتا منچ کی ایک ریلی میں شریک ہوئے جس کی چوطرفہ تنقید ہوئی اور دونوں وزراء کو کابینہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ 31مارچ کو ملزمان کے قرابت دار چند عورتیں رسانہ میں مرن برت پر بیٹھ گئیں ، اب معاملہ کی تحقیقات کرائم برانچ کے بجائے سی بی آئی سے کروانے کی مانگ زور پکڑ گئی تھی۔آس پاس کے دیہات سے بھی درجنوں خواتین دھرنا میں شامل ہو گئی۔ جموں بار ایسو سی ایشن کی طرف سے مسلسل ہڑتال رکھی گئی۔
پولیس کا مشکوک کردار
کرائم برانچ کے ایڈیشنل ڈی جی کی طرف سے ریاستی پولیس سربراہ کو تحریر کردہ ایک مکتوب کے مطابق مقتولہ کے مٹی اور خون سے لتھڑے ہوئے کپڑے فورنیسک لیبارٹری میں بھیجنے سے قبل کٹھوعہ پولیس تھانہ کے اندر دھوئے گئے ۔ پولیس نے جائے جرم کو محفوظ نہ رکھا۔ گمشدگی رپورٹ درج کرنے کے باوجود پولیس نے بچی کی سنجیدگی سے تلاش نہ کی۔
وزیر اعظم کی خاموشی
اگر چہ یہ معاملہ 17جنوری کو منظر عام پر آنے کے بعد قومی بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں جگہ پا چکا تھا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی 13اپریل تک اس معاملہ پر خاموشی اختیار کئے رہے ، جب تک کہ کرائم برانچ کو چارج شیٹ پیش کئے بھی چار دن بیت چکے تھے۔
معاملہ کی منتقلی
۔7مئی کو سپریم کورٹ نے معاملہ کی سماعت جموں کشمیر سے پنجاب منتقل کر دی ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا ،ڈی وائی چندرا چوڑ اور اندو ملہوترہ کی خصوصی بنچ نے پٹھانکوٹ کے ڈسٹرکٹ جج کو از خود اس کی سماعت کا حکم دیتے ہوئے یہ بات یقینی بنانے کیلئے کہا کہ وہ سماعت کسی دیگر عدالت کو تفویض نہیں کریں گے۔
مخلوط حکومت کی برخاستگی
۔13اپریل کو پی ڈی پی نے بی جے پی کے دو وزراء کی طرف سے ملزمان کے حق میں ریلی کئے جانے پر مخلوط سرکار سے کنارہ کشی کی دھمکی دی تھی۔ اس دھمکی کے 67روز بعد بی جے پی نے حمایت واپس لے لی اور ریاست میں گورنر راج نافذ ہو گیا۔
معاملہ کی سماعت
جموں کشمیر سرکار نے پنجاب کے ایک 70سالہ معروف وکیل سنتوکھ سنگھ بسرا کو اس معاملہ کی پیروی کیلئے خصوصی وکیل مقرر کیا ہے اور ان کی مدد کے لئے کرائم برانچ نے بھوپندر سنگھ اور ہرمیندر سنگھ نامی چیف پراسیکوٹنگ افسران لگائے گئے ہیں ۔کشمیر عظمیٰ کی طرف سے گزشتہ روز رابطہ قائم کرنے پر بسرا نے بتایا کہ معاملہ میں 114گواہان کے بیانات مکمل ہو چکے ہیں اور اس وقت عدالت میں تعطیلات ہیں ، اس کے فوراً بعد سماعت پھر شروع ہو جائے گی۔