لایکن(Lichen) جسے اردو میںکائی نما گھاس بھی کہتے ہیں ،قدرت کا ایک حیرت انگیز تحفہ ہے جو انسانی استعمال میں آنے والی مختلف چیزوں کا ایک اہم حصّہ ہے۔سائنس کے مطابق لایکن ایک پائیداراور پیچیدہ حیاتیات کا ایک گروہ ہے جو دو یا دو سے زیادہ زندہ شراکت دار جیسے فنگس، تحالب یا سائنوبکٹیریا کے ایک ساتھ مل کر رہنے سے بنتا ہے۔ فنگس ساتھی کو مائکوبائینٹ کہتے ہیں اور الگل ساتھی کو فوٹو بائنٹ کہتے ہیں۔ لہٰذا لایکن دوہری حیاتیات ہیں اور ان کا جسم جامع تھیلس کے نام سے جانا جاتا ہے۔حیاتیات کا سب سے زیادہ دلچسپ گروہ ہونے کے ناطے یہ فطرت کا سب سے زیادہ کامیاب، ناقص باہمی اور حیرت انگیز حیاتیات بھی ہیں۔ لایکن تقریباً ہر جگہ آباد رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ عملی طور پر ہر خشک گاہوں میں انٹارکٹک سے لے کر گرم سیرعلاقوں تک اور بہت سے صحراؤں میں پائے جاتے ہیں جہاں وہ طویل عرصے تک زندہ رہنے اور مستحکم کمیونٹیز تشکیل دینے کے اہل ہیں۔ اس کے علاوہ لایکن ننگے پتھروں پر سب سے پہلے اگتے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں لایکن آلودگی ماپنے کے طور پر انتہائی کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔
اقسام:
لایکن اپنی شکل ، ناپ ، رنگ ، ساخت اور بو میں نمایاں تغیر دکھاتے ہیں۔ ان کی شکل نفسی کی بنیاد پر ، انہیں کرسٹوز(crustose) جس میں تھیلس کسا ہوا اور بغیر کسی آزاد مارجن کو چھوڈے سطح سے مل جاتا ہے۔ فولیوس (foliose)لایکن کو پتے دار لایکن سے بھی جانا جاتا ہے۔جہاں تھیلس کم سے کم مارجن پر سطح کے ساتھ ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ فرتیکوس(fruticose) ایسے لایکن جن میں تھیلس لٹکتا ہوا یا سیدھی ڈنڈی کی تشکیل کرتا ہے اور ایک حصّہ سطح سے جڑا رہتا ہے اور باقی بڑا حصّہ یا تو سیدھا کھڑا رہتا ہے یا لٹکتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ عام طور پر ایک چھوٹی جھاڑی کی شکل اختیارکرتا ہے۔سائنسی اصول کے مطابق لایکن کا ایک ہی سائنسی نام ہے جو صرف اور صرف ان میں موجود فنگس کی بنیاد پر ہے کیونکہ فنگس اس انجمن میں زیادہ حصہ لیتا ہے اور طحالب یا سائنوبیکٹیریا کی ذات کے مطابق درجہ بندی نہیں کی جاتی ہے۔تحالب اور ساینوبکٹیریا کا اپنا الگ الگ سائنسی نام ہوتا ہے۔
افزائش نسل:
جہاں تک افزائش نسل کا تعلق ہے، لایکن دو اہم حکمت عملی کے ذریعے پھیلتا ہے۔جنسی اور غیر جنسی۔جنس بازی میں فنگس دوبارہ اکیلے پھلتا ہے اور ایک نیا تھیلس بنانے کے لئے تحالب یا سائنوبکٹیریا کی موجودگی پر انحصار کرتا ہے۔غیر جنسی میںلایکن پروپوگیولز(propagules)میں فوٹوبائینٹ اور مائیکوبائینٹ دونوں شامل ہوتے ہیں۔یہ پھیلاؤ سوریڈیا، اسیڈیا اور تھیلس کے ٹکڑوں کے ذریے ہو سکتا ہے۔ اگر چہ لایکن عام طور پر اسی ایک حکمت عملی کے ذریعے پھیلتے ہیں لیکن کچھ انواع دونو ںذریعوں سے پھیل سکتی ہیں۔
مجموعی لایکن تنوع:
واضح طور پر زمینی یا خاکی علاقہ کے 12 فیصد سے زیادہ حصے پر لایکن کا قبضہ ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں ان کی اب تک تقریباً 20000 مختلف قسم کی انواع پائی گئی ہیں- ہندوستان لایکن تنوع کا ایک بھرپور ذخیرہ ہے اور پوری دنیا میں ریکارڈ شدہ کل 20000 لایکن انواع میں سے ہندوستان تقریباً 14.5 فیصد کا حصہ تعاون کرتا ہے۔ اس برصغیر سے اب تک ہندوستان میں تقریباً 2900 انواع پائی گئی ہیں۔
جموں وکشمیر مختلف پودوں ،طول ارض میں فرق، خطوں کی تنوع اور مختلف آب و ہوا کی وجہ سے ہندوستان میں لایکن تنوع کا ہاٹ سپاٹ مانا جاتا ہے۔ اس ریاست میں لایکن پر تحقیق اتنی گہرائی میں نہیں کی گئی ہے۔ اس شعبے میں صرف چند محققین نے تحقیق کی ہے جس کے نتیجے میں ریاست جموں وکشمیر میں لایکن کی اب تک400 سے زیادہ انواع پائی گئی ہیں۔
معاشی اہمیت:
لایکن کی معاشی اہمیت مندرجہ ذیل ہے۔معاشی طور پرلایکن اپنی افادیت کی وجہ سے قدیم زمانے سے استعمال ہوتا آرہا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ لایکن کھانے کے طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں پارمیلیہ(parmelia) کی اقسام،جنہیں شیل پشپ کہا جاتا ہے، کھایا جاتا ہے۔امبیلی کیریاایسکولنٹا(Umbilicaria Esculenta)کے تھیلس کو سوپ یا سلاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گرم مصالحہ ، سامبرمصالحہ اور گوشت مصالحہ میں لایکن ایک اہم جزو ہے۔پرمیلیا اور ہیٹروڈرمیا کی انواع کو مرکب میں بڑے پیمانے پر ہندوستانی مصالحہ لہ دار ڈش 'بریانی' کا ذائقہ بڑھانے کے لئے کشمیر سے کنیاکماری تک استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ پولینڈ کے ممالک میں قطبی ہرن کے لئے کلیڈونیا رنگیفیانہ(Cladonia rangiferiana) اہم کھانا ہے۔ سٹیریوکاؤلن، ایورونیا،پرمیلیا اور لیکانورا(Stereocaulon,avernia,Parmelia and Lecanora) کی انواع بھی چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ کچھ پرندے اپنے گھونسلے بنانے میں لایکن کا استعمال کرتے ہیں۔ کولمبیا میں ہمنگ برڈ اپنے گھونسلوں کے بیرونی حصے کو لایکن سے ڈھکتے ہیں۔
ادویاتی اہمیت:
جہاں تک لایکنوں کی ادویاتی اہمیت کا تعلق ہے تو انکا ذکر آیورویدک اور یونانی نظام طب میں پایا گیا ہے اور انکو قدیم زمانے سے ہی یرقان ، بخار ، اسہال ، مرگی ، ہائیڈروفوبیا اور جلد کی مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا کیا جا رہا ہے۔ پرمیلیہ پرلیٹا(Parmeila Perlata) یاداشت ختم ہونے کی بیماری اور سانپوں اور بچھو کے زہر کے علاج میں فائدہ مند ہے۔ اسنیا(Usnea) اور کلیڈونیا(Cladonia) کی انواع سے اسنیک ایسڈ حاصل ہوتا ہے، جو ایک وسیع اینٹی بائیوٹک ہے ۔ لایکنز 1000 سے زیادہ قدرتی مرکب تیار کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر انٹی انفلامیٹری ، اینٹی آکسیڈینٹ، اینالجسک اور اینٹی وائرل ہیں۔اتراکھنڈ کا بھوٹیا قبیلہ تھامنولیا ورمیکلیرس (Vermicylaris Thamnolia)لاکین انواع کو جلا کر دھو یں کا استعمال دودھ رکھنے والے برتنوں میں جراثیم کو مارنے کے لئے کیا جاتا ہے۔بہت سے لایکن رنگ پیدا کرتے ہیں اور قدیم زمانے سے ہی وہ سرخ ، نیلے اور جامنی رنگ کے رنگ بنانے میں استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ اورچیل ، نیلا رنگ جو روسیلا اور لیکونارا سے حاصل کیا گیا ہے ، وہ اونی ملبوسات اور ریشم کے کپڑے رنگنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ لایکن خوشبو کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کاسمیٹکس کے لحاظ سے اورنیہ (avernia) اور رمالینا(Ramalina) کی متعددانواع مستحکم تیلوں کا ایک اچھا ذریعہ ہیں ، جو خوبصورتی کے صابن بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عطر بنانے میں سیوڈ اورنیہ فر فریسیا(Pseudevernia Furfuracea)اور اورنیہ پرونسٹری (Avernia Prunestri)بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔ تقریباً 800 سال سے اوتو نامی عطر جسے حنا عطر بھی کہتے ہیں، اتر پردیش کے کنوج قصبہ میں لایکن کا استعمال کرتے ہوئے تیارکی جاتی ہے۔
کچھ لایکن کی طویل عمر، سست اور مستقل نشوونما کو ماضی کے واقعات یعنی لایکنومیٹری(Lichenometry) کے بارے میں جاننے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔بہت سے لایکن ماحولیاتی خرابی کے لئے بہت حساس ہیں اور وہ آلودگی ، اوزون کی کمی اور دھات کی آلودگی کا سختی سے اندازہ کرنے کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان میں دن بدن پھیلتی ہوئی انسانی آبادی اورماحولیاتی آلودگی، جو تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، کی وجہ سے ان وسائل کی بقا کو اب خطرہ ہے۔لہٰذا ہندوستان میں ٹیکسونومک مطالعات کے ساتھ ساتھ خاص طور پر لایکن کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے جن میں ہندوستان میں لایکن سے بھرپورعلاقوں کی ایجاد کرنا ، مختلف لایکن جماعتوں میں مخصوص خطرات کی نشاندہی کرنا ، بیداری اور ان کے تحفظ کی حکمت عملیوں کے بارے میں مناسب آگاہی پیدا کرنا شامل ہیں تا کہ قدرت کے اس اہم تحفہ کی بقا اس سر زمین پرقائم رہ سکے۔
��������
رابطہ :
وشال کمار، ڈاکٹر یشپال شرما،شعبہ باٹونی جموں یونیورسٹی
ڈاکٹر سنجیوا نائیکا،سی ایس آئی آر، لایکنولوجی لیبارٹری، نیشنل بوٹینکل ریسرچ ا نسٹی ٹیوٹ لکھنو