لاٹھی پہ ٹِکاوجود

ڈاکٹرمشتاق احمد وانی

انتیس دسمبر کی وہ ایک سہانی دوپہر تھی ۔آسمان پر دُور دُور تک بادلوں کا نام ونشان نہ تھا۔موسم سرماشروع ہوچکا تھا ۔ایسے موسم میں جب خُنک ہوائیں پورے جسم میں جُھر جُھری سی پیدا کردیتی ہیںتو آدمی اپنے آپ کو گرم رکھنے کے سامان ڈھونڈتا ہے ۔گنجان شہر کے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے کوٹھوں پہ چٹائیوں اور کمبلوں پر بیٹھے دھوپ کا آنند لے رہے تھے لیکن اسّی سالہ رٹائرڈمحمد دل پولیس محکمہ میں ایک بڑی پوسٹ پر ریٹائر ہوئے تھے، اپنی شریک حیات دلنشیںبیگم کے ساتھ اپنی چار منزلہ کوٹھی کی پہلی منزل کے برآمدے میں بیٹھے اپنی گذشتہ زندگی کے البم دیکھ رہے تھے۔اُنھوں نے نہ جانے کیوں آج اپنے سب سے چھوٹے بیٹے سلامت اللہ سے اپنی پُرانی اٹیچی سے تین البم منگواکر اُنھیں دیکھنا شروع کیا تھا۔وہ آلتی پالتی مار کر نیچے ایک گدے پر بیٹھے تھے ۔اُن کی پیٹھ کے پیچھے نرم موٹاتکیہ تھا اور اُن کی دائیں جانب اُن کی شریک حیات دلنشیں بیگم بھی اُسی انداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔محمد دل نواز کے سر کے بال برف کی مانند سفید ہوچکے تھے۔اُن کے گال پچکے ہوئے ،چہرے پہ جھریاں قابض تھیں اور ماتھے پہ رونق کے آثار نظر نہیں آرہے تھے ۔کسی بھی چیز کو چھوتے اور اُٹھاتے ہوئے اُن کے ہاتھوں کی کپکپی یہ ظاہرکررہی تھی کہ اُن کے جسمانی نظام میں سے قدرت کی بہت سی نعمتیں غائب ہوچکی ہیں۔دلنشیں بیگم بھی اپنی زندگی کی ستّر بہاریں دیکھ چکی تھی ۔البتہ اُس کے خزاں رسیدہ وجود میں اب بھی کسی حد تک دم خم موجود تھا۔یہ دونوں بوڑھے میاں بیوی کے نازک رشتے کو نبھاتے نبھاتے اب عمر کے اُس مرحلے میں داخل ہوچکے تھے جہاں انسان کے حواس خمسہ بھی تنگ آکر اُس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ محمد دل نواز نے پہلا البم کھولا اور بیوی کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے

’’دیکھتی ہو!کہاں سے میری زندگی کا سفر شروع ہوا تھا ۔اب وقت اور حالات نے مجھے کس مقام پہ لاکے چھوڑا ہے ۔یہ میرے بچپن کی تصویر ہے جب میں بہت چھوٹا تھا ۔امّاں نے مجھے اپنی گود میں اُٹھایا ہے۔ساتھ میں ابّا کھڑے ہیںاور آگے میری ایک بہن اور میرے دوبڑے بھائی نیچے بیٹھے ہیں۔میرے ابّا چونکہ شہر کے ایک مشہور فوٹو گرافر تھے اس لئے اُنھوں نے میرے بچپن اور لڑکپن کے فوٹو بڑے شوق سے اس البم میں محفوظ رکھے ہیں‘‘
دلنشیں بیگم انگریزی میں ایم اے تھی ۔ اُس نے مسکراتے ہوئے اپنا ردعمل ظاہر کیا کہنے لگی
’’یقین نہیں آتا کہ یہ آپ ہی ہیں ۔دیکھئے وقت کے دریا میں بہتے بہتے ہم سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔بچپن ،لڑکپن ،جوانی اور اب بڑھاپا۔زندگی کے کتنے ہی مراحل اور مسائل سے گزر کر آج ہم کہاں آپہنچے ہیںناکارہ وجود کی صورت میں !اُف! ہائے! کہاں گئے وہ بچپن کی بے فکری کے دن !مجھے کسی شاعر کا وہ شعر یاد آرہا ہے کہ یادِ ماضی عذاب ہے یارب…چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘
محمددل نواز اپنے بچپن اور لڑکپن کی تصویروں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے ۔اسکول اور کالج کی زندگی کی تصویریں ۔اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ سیر وتفریح اور کھیل کود کی تصویریں ۔پہلے البم کو دیکھنے کے بعد جب انھوں نے دوسرے البم کو ہاتھ میں لیا تو پہلے ہی پنے پر اُن کی نظر کالج کے اُس گروپ
فوٹو پر پڑی جس میں کالج کی الوداعی تقریب میں وہ گانا گا رہے تھے ۔اس کے علاوہ دوسری تصویر میں کالج کے پرنسپل صاحب ،مختلف مضامین کے پروفیسر
صاحبان اوربی اے فائنل کے اُن کے تمام ساتھی موجود تھے۔ اُنھوںنے البم کا ورق پلٹا تودوسری تصویر میں وہ ایک خوب صورت دلکش صحت افزا مقام پہ ایک چتکبرے گھوڑے پرسوار فلمی ہیرو کی طرح دکھائی دے رہے تھے ۔تصویروں کو ترتیب وار البم میں رکھا گیا تھا۔بی اے کرنے کے بعد اسی البم میں محمد دل نواز کی وہ تصویر بھی تھی جب وہ قانون کی ڈگری ریاستی گورنر سے حاصل کررہے تھے۔اُس کے بعد جب وہ محکمۂ پولیس میں ڈی ایس پی کی پوسٹ پہ تعینات ہوئے تھے تو وہ اُن کی بھر پور جوانی کا زمانہ تھا ۔وہ صحت مند تھے،خوب صورت تھے ۔پولیس وردی نے اُن کے حُسن میں مزید اضافہ کردیا تھا۔دوسرے البم کے متعدداوراق میں اُن کی پولیس محکمے میں سروس کے دوران کی وہ تصویریں شامل تھیں جو اُن کی بہترین کارکردگی اور نمایاں خدمات انجام دینے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ان تصویروں میں کہیں اُنھیں وزیر اعلیٰ اور کہیں ریاستی گورنر میڈل اور اسناد پیش کرتے دکھائی دے رہے تھے۔البم کے وسطی حصے میں اُن کی شادی کی تصویریں تھیں ۔وہ دُلہابنے براتیوں کے ساتھ روپیوں اور پھولوں کے ہاروں سے لیس اپنی چمچماتی گاڑی میں بیٹھنے جارہے تھے۔ایک تصویرمیں اُن کی نکاح خوانی ہورہی تھی اور دوسری تصویر میں دلنشیں بیگم دُلہن کےروپ میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ گلے لگ کررورہی تھی ۔دعوت ِ ولیمہ کی تصویر میںمحمد دل نواز ایک بہت بڑے شادی پیلس میں اپنی شریک ِ حیات دلنشیں بیگم کے ساتھ بڑی قیمتی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔بہت بڑے ہال میں اُن کے دوست واحباب ،خاندان کے افراد اور آس پاس پڑوس والے مختلف طرح کے لذیذکھانے تناول فرمارہے تھے ۔اس موقعے پر محمد دل نواز نے دلنشیں بیگم کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا
’’ادھر دیکھو!یہ ہماری شادی کی تصویریں ہیں ۔یہاں تُم تب کتنی خوب صورت تھیں ۔تمہارے مہندی سے رچے ہاتھ،گلے میں سونے کا لاکٹ،سرمئی آنکھیں،ہونٹوں پہ لالی،تمہاری خوب صورت ناک پہ سونے کی نتھ،تمہارے چمکتے دمکتے رُخسار، بائیں ہاتھ کی اُنگلی میں پکھراج کی انگوٹھی ،تمہاری کلائیوں میں یہ سونے کے کنگن تُمہاری پُر جوش وپُرمسرت جوانی پہ کتنے دلکش معلوم ہورہے ہیں ۔میں سوچتا ہوں تُم میں اور مجھ میں یہ سب حُسن کی رعنائیاں آخر کہاں گئیں !دلنشیں بیگم نے اپنی شادی کی تصویروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا پھر کہنے لگی
’’ہم اپنے آپ کو جوان رکھنے اور سدا بہار زندگی جینے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں لیکن وقت انسان کے وجود کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے !‘‘
محمد دل نواز کبھی اپنی شادی کی تصویروں کودیکھتے اور کبھی اپنے اور اپنی بیوی کے وجود پر نظریں دوڑاتے ۔اُن کے اس حسر ت آمیز عمل سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ عمررفتہ کو آواز دینا چاہ رہے ہوں ۔وہ اپنی یادوں کے البم میں چھُپی اور بھی تصویروں کو دیکھنا چاہتے تھے کہ اسی اثنا میں اُن کا سات سال کا پوتا وحید اُن کے قریب آکر کہنے لگا
’’دادُوجی! مماں کھانا کھانے کے لئے اندر بُلا رہی ہیں‘‘اُسے دیکھتے ہی پوتی عرشیہ بھی اندر سے باہر آئی اور دادی سے کہنے لگی’’دادی جی!مماں کہہ رہی ہیں کھانا کھانے آجاؤ‘‘
ان دونوں بوڑھوں نے بچّوں کو پکڑ کر پیار کرنا چاہا لیکن وہ اُن کے قریب نہیں آئے ۔فوراً رسوئی کی طرف اپنی ماں کے پاس چلے گئے ۔وہ ترستے رہ گئے ۔محمد دل نواز لاٹھی کے سہارے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔آہستہ آہستہ اندر کمرے میں پہنچے ۔اُن کے پیچھے پیچھے دلنشیں بیگم بھی اندر چلی گئی ۔بہُو شریفہ اختر نے کھانا پروس کے رکھ دیا تھا ۔دونوں دستر خوان کے سامنے بیٹھ کے کھانا کھانے لگے ۔سلامت اللہ بجلی کے محکمے میں انجینئر تھا ۔وہ ابھی آفس سے گھر نہیں آیا تھا
اُس کے دو بڑے بھائی تھے ۔سب سے بڑا بھائی پٹواری تھا۔ اُس سے چھوٹا محکمہ صحت میں کلرک تھا ۔محمد دل نواز کے دونوںبڑے بیٹے اُن کی شادی ہونے کے دو سال بعد ہی والدین اور چھوٹے بھائی سے الگ ہوکر مکان کی اوپری منزلوں میں رہنے لگے تھے ۔اُن دونوں کے دو دو بچّے تھے ۔اُن کی بیویاں گھر ہی میں کام کرتی تھیں ۔سلامت اللہ کی بیوی گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھی ۔ساس اور سسر کے ساتھ اُس کی کم ہی بنتی تھی ۔اُس کے چہرے سے اپنے سسر اور ساس کے تئیں روکھا پن ظاہر ہوتا تھا ۔دلنشیں بیگم کو کھانا کھاتے ہوئے سالن میں تیز مرچی لگی تو وہ سُو سُو کرنے لگی اور محمد دل نواز نے سالن میں زیادہ نمک محسوس کیا ۔
کھانا کھانے کے بعد محمد دل نواز اور دلنشیں بیگم نے ظہر کی نماز پڑھی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ دوبارہ باہر بر آمدے میں آکر البم دیکھنے لگے ۔یادوں میں بٹی زندگی کا ایک طویل سلسلہ محمد دل نواز کے ذہن ودل پہ سوار تھا ۔اُنھوں نے البم میں چھُپی اُن تصویرون کو دیکھنا شروع کیا جو اُن کی سروس کے دوران کی تصویریں تھیں ۔وہ جب اپنے آفس سے کسی دورے پر نکلتے تھے تو اُن کی بڑی قیمتی اور آرام دہ گاڑی کے آگے پیچھے پولیس کے حفاظتی دستوں کی گاڑیوں کی ایک قطار سڑک پر چلنے لگتی ۔سائرن کی آواز سے سڑک پر چلتی دوسری گاڑیوں والے احتراماً سڑک کی ایک طرف اپنی گاڑیاں وقتی طورپر روک لیتے ۔کیا زندگی تھی! عزت،عہدہ،پیسہ ،ٹھاٹ باٹھ سب کچھ تھا ۔گھر اور دفتر میں نوکر چاکر اُن کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے لیکن اب اُن کے پاس یہ سب کچھ نہیں تھا!دلنشیں بیگم خوب صورت جوانی کے ساتھ گھر کی ہر چیز پر نظر رکھتی تھی ۔گھر میں کام کرنے والی عورت سے ہر چیز کو صاف ستھرا رکھواتی تھی ۔اپنے ہاتھ سے اپنے شوہر محترم اور بچّوں کے لئے لذیذ کھانے تیار کرتی تھی ۔پورے گھر آنگن پر اُس کی حکومت ہوتی تھی لیکن بیٹوں کی شادی کے بعد جب گھر میں بہوئیں آئیں تو سب کچھ آہستہ آہستہ اُس کے ہاتھ سے چھن گیا۔اُن کا پوتا اور پوتی جب ٹیلی ویژن کی آواز اونچی رکھتے تو اُن دونوں بوڑھوں کو سخت ذہنی اذیت پہنچتی ۔تب وہ اُنھیں ڈانٹتے ۔کبھی بچّے باتھ رُوم یا واش بیسن کا نل کھلا چھوڑ دیتے تو محمد دل نواز کو اونچی آواز میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا پڑتا ۔رات کواکثر اُنھیں کھانسی آتی تھی جس سے اُن کی بہو،پوتی،پوتے اور بیٹے کی نیند میں خلل پڑتا تھا ۔محمد دل نواز جب آئینے میں اپنی شکل وصورت دیکھنے لگتے تو اُنھیں اپنے چہرے کی جھُریوں اور ڈوبتی ہوئی آنکھوں سے ڈر لگنے لگتاتھا۔دونوں بوڑھے دوائیوں اور ڈاکٹروں کے سہارے سے جی رہے تھے ۔سلامت اُللہ والدین کی خدمت میں کوئی بھی کسر اُٹھائے نہیں رکھتا تھا لیکن اُس کی بیوی اپنے سسر اور ساس سے تنگ آچکی تھی ۔ایک روز اتوار کواُس نے سلامت اللہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’والدین کی خدمت کیا صرف آپ ہی کے حصے میں آئی ہے؟آپ کے بڑے بھائیوں کو بھی تواپنے والدین کی خدمت انجام دینی چاہیے‘‘
سلامت نے کہا
’’ہم خوش نصیب ہیں کیونکہ ہمیں والدین کی خدمت نصیب ہورہی ہے‘‘دوسرے کمرے میں جب محمد دل نواز اور دلنشیں بیگم کے کانوں تک اپنے بیٹے اور بہُو کی باتیں پہنچیں تو دونوں بہت دُکھی ہوئے۔والدین اپنا خون پلا کر اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں ۔راتوں کو اُن کے لئے جاگتے ہیں ۔کیا کچھ نہیں کرتے لیکن اولاد والدین کو بڑھاپے میں اپنے لئے بوجھ سمجھ کر اُنھیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔یہی احساس محمد دل نواز اوراُن کی رفیقہ ٔ حیات کو ہورہا تھا۔اُن دونوںنے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ ہم بڑے بیٹے کے پاس تیسری منزل پہ چلے جائیں گے۔وہ تقریباً چار بجے دن کو اپنے بڑے بیٹے کے پاس چل پڑے۔محمد دل نواز نے لاٹھی ہاتھ میں لی اور بغیر کسی کو کہے کمرے سے باہر نکل آئے۔دلنشیں بیگم ابھی کمرے ہی میں تھی۔محمد دل نواز نے اپنے مکان کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں ۔ابھی وہ کچھ ہی سیڑھیاں چڑھ پائے تھے کہ اچانک اُن کے پاؤں میں نائلن کی چپل سنگ مرمر کی سیڑھیوں سے پھسل گئی اور وہ مُنہ کے بل گر پڑے ۔اُن کے ناک ،ماتھے اور مُنہ پر شدید چوٹیں آئیں ۔ناک سے خون بہنے لگا ۔سامنے والے دو دانت ٹوٹ گئے ۔منہ سے بھی خون بہنے لگا ۔
۔وہ زور سے چیخ پڑے ۔اُن کی دلدوز چیخ سُن کر اُن کا بیٹا سلامت اللہ یکدم اندر سے باہر آیا ۔باپ کو لہو لہان پاکر وہ زور سے رواُٹھا۔اُس نے باپ کو فوراً اُٹھایا ۔اتنے میں تمام بہوئیں ،دلنشیں بیگم ، اُن کے دو بڑے بیٹے اور اُن کے بچّے بھی محمد دل نواز کے پاس پہنچ گئے ۔تینوںبیٹوں نے باپ کو فوراً گاڑی میں ڈال کر اسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں پہنچایا ۔جہاں محمد دل نواز کو داخل کیا گیا۔پورے دوہفتے وہاں رہنے کے بعد جب وہ بالکل صحتیاب ہوئے تو ڈاکٹروں نے اُن کے بیٹوں کو یہ خوشخبری سُنائی کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہیں اور اُنھیں دو دن کے بعد گھر بھیج دیا جائے گا ۔یہ خوشخبری جب سلامت اللہ نے گھر میں آکر اپنی بیوی کوسنائی تو اُس کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئیں۔ وہ حیرت سے سلامت اللہ سے پوچھنے لگی
’’کیا سسر جی واپس گھر آرہے ہیں!‘‘
سابق صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
7889952532