لاک ڈائون میں بھٹکا ہوا ایک اجنبی مسافر گہرے اندھیرے میں رات گزارنے کیلئے ٹھکانے کی تلاش میں لالچوک سے گزر رہا تھا…اُسے دو لوگوں کی آپس میں باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور وہ ان آوازوں کا تعاقب کرتے ہوئے آگے کی جانب چل رہا تھا۔
گھنٹہ گھر کے قریب پہنچ کر کسی نے اُسے پکارا …
’’ارے بھائی رات کے اندھیرے میں کہاں جارہے ہو، یہاں تو آج کل دن میں بھی کوئی بھٹکتا نہیں ہے‘‘۔
اجنبی مسافر نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن اُسے کوئی بھی انسان دکھائی نہیں دیا، اُس نے سوچا کہ شائد یہ اُس کا وہم ہے اور اُس کے کان بج رہے ہیں۔ وہ آگے بڑھنے لگا لیکن پھر سے آواز آئی… ’’ارے بھائی ادھر دیکھو میں بول رہا ہوں‘‘…
مسافر دم بخود ہوگیااور ڈر کے مارے اُس کے پسینے چھوٹنے لگے… اُس کی ٹانگیں جیسے جم گئیں اور چاہ کر بھی آگے بڑھ نہیں پارہا تھا…!اسی اثناء میں پھر سے آواز آئی…’’ڈرو مت، ادھر آکر میرے تھڈے پر بیٹھ کر تھوڑی سی تھکان دور کرلو۔‘‘
مسافر نے دیکھا یہ آواز گھنٹہ گھر سے آرہی ہے اور وہ پتلے کی مانند اس کی طرف دیکھنے لگا۔گھنٹہ گھر کے اندر سے پھر سے آواز آئی…’’ارے بھائی میں ہی بول رہا ہوں، آکر یہاں بیٹھ جائو میں تمہیں نقصان نہیں پہنچائوں گا‘‘۔
ڈرا سہما مسافر آہستہ آہستہ گیا اور گھنٹہ گھر کے تھڈے پر بیٹھ گیا اور پوچھا ’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’ میں گھنٹہ گھر ہوں‘‘ …وہاں سے جواب آیا۔
’’میرے آنے سے پہلے آپ کس کیساتھ بات کررہے تھے؟‘‘…مسافر نے دریافت کیا۔
’’ہا…ہا…ہا… میں …میں تو لالچوک کیساتھ بات کررہا تھا‘‘۔ گھنٹہ گھر نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میرا واحد اور وفادار دوست ہے، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، میں نے خود کو اس کیساتھ پایا ہے اور تب سے لیکر آج تک ہم دونوں ایک ساتھ ہیں، ہماری یاری 4دہائیوں پر محیط ہے اور ہم نے اس لمبے عرصے میں ساتھ مل کر بہت سارے نشیب و فراز دیکھے ہیں، لیکن کبھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا‘‘۔
’’بھئی تم اپنی کچھ بتائو، تمہارا نام کیا ہے؟کہاں سے ہو؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو‘‘… گھنٹہ گھر نے مسافر سے پوچھا۔
مسافر نے بولا’’وقت اور حالات کی ٹھوکروں نے مجھے یہاں لاکھڑا کیا، میرا نام سنت رام ہے، میں آسام کا رہنے والا ہوں اور بنگلور کی ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں، ملک بھر میں لاک ڈائون سے پریشان مزدوروں کی طرح میں نے بھی اپنے گھر جانے کیلئے بنگلور سے ’وندے بھارت مشن‘ کے تحت چلائی جارہی ’شرمک ٹرین‘ میں آسام کیلئے سفر باندھا لیکن ریل راستہ بھٹک گئی اور جموں پہنچ گئی ، میں جموں کے ریلوے سٹیشن پر کھانے کی تلاش میں نیچے اُترا اور بدنصیبی نے میرا ساتھ یہاں بھی نہیں چھوڑا ۔ پیچھے سے ٹرین نکل گئی اور مجھے کھانا بھی نہیں ملا۔‘‘
’’جموں میں ٹرین چھوٹ گئی تو یہاں کیسے پہنچ گئے، وہیں سے گھر کیلئے ٹرین کیوں نہیں لی‘‘… گھنٹہ گھر بولا
’’میرے پاس اب اتنے پیسے نہیں بچے تھے کہ میں گھر پہنچ سکتا اور میری بدقسمتی بھی ساتھ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ اس لئے میں کشمیر آنے کا فیصلہ کیا ۔ سوچا یہاں کام بھی ملے گا اور کشمیریوں کی فراخ دلی کے قصے بہت سنے ہیں۔ ‘‘مسافر نے جواب دیا۔
گھنٹہ گھر حیران ہوکر پوچھا’’پر بنا Quarantineکے تمہیں کیسے جانے دیا گیا۔‘‘
مسافر بولا’’جس بس سے میں نے جموں سے سرینگر سفر کیا اُس میں سے کچھ سواریوں نے پہلے ہی قرنطینہ سے بچنے کیلئے سفارش چلائی تھی اور جو کچھ باقی رہ گئے وہ ٹی آر سی پہنچ کر ایسے غائب ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ، سرکاری اہلکار اُن کی تلاش میں گئے اور واپس نہیں لوٹے اور پھر میں بھی چل دیا۔‘‘
اب تک مسافر کے دل سے سارا خوف جاچکا تھا اور وہ بہت ہی نارمل ہوکر گھنٹہ گھر کیساتھ بات چیت میں محو تھا۔
’’آپ اپنی کچھ سنائیں، آپ تو نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہیں‘‘ …سنت رام نے گھنٹہ گھر سے پوچھا۔
’’ارے کیا بتائوں… میں تو اُسی دن مشہور ہوگیا جب میری تعمیر ہوئی… مجھے 1980میں ملک کے نامی گرامی سرمایہ دار بجاج الیکٹرکلس نے تعمیر کیا اور میرا نام بجاج ٹائور رکھا گیا۔ لیکن میرے نام پر بہت بڑا بھوال مچ گیا۔ معاملہ اتنا سنجیدہ ہوگیا کہ وادی کے ایک مؤقر روزنامے نے میرے نام کو لیکر10دن تک مسلسل خبریں شائع کیں اور اسے تاریخی لالچوک کا نام ختم کرنے کی مہم قرار دیا۔ بالآخر حکومت وقت نے گٹھنے ٹیک دیئے اور میرے نام سے بجاج ہٹاکر گھنٹہ گھر رکھ دیا۔ میں پہلے سفید رنگ کا تھالیکن 2010میں میری تعمیر و تجدید کرکے میری ہیت تبدیل کی گئی اور مجھے بھی لال چوک کے لال رنگ میں ڈھال دیا گیا۔ میں عالمی سطح پر اُس وقت بہت زیادہ مشہور ہوگیا جب پُرآشوب دور کے دوران 1992میں بھاجپا کے اُس وقت کے صدر مرلی منوہر جوشی نے یوم جمہویہ پر کے موقعے پر میرے سامنے ترنگا لہرانے کا اعلان کیا ۔ جس دن جوشی نے میرے سامنے ترنگا لہرایا اُس دن پورے لالچوک کو فوجی چھاونی میں تبدیل کیا گیا تھا اور یہاں کسی جانور کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے بعد2009تک مسلسل یوم جمہوریہ اور یوم آزادی پر فورسز کمپنیاں میرے سامنے ترنگا لہراتی رہیں۔ بہت سارے لوگوں کو میرے سامنے ترنگا لہرانے کی خواہش رہی ہے اور کچھ کو تو اس چکر میں سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیلا گیا۔2011میں جب یہاں نیشنل کانفرنس اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی تو بھاجپا نے ایکتا یاترا شروع کی اور 26جنوری کو یہاں ترنگا لہرانے کا اعلان کیاگیا۔ لیکن اس یاترا کو لکھن پور سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس کی قیادت کررہے ارون جیٹلی اور سشما سوراج جیسی ہستیوں کو گرفتار کرکے تھانے میں بند کیا گیا۔2008اور2010کی ایجی ٹیشنوں کے دوران لالچوک چلو کال کے وقت میرے اوپر احتجاجی مظاہرین نے سبز ہلالی پرچم بھی لہرائے ۔ میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک سمیت کئی مزاحمتی لیڈران نے میرے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں سے خطابات بھی کئے اور یہاں کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔ 2015میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی مفتی محمد سعید حکومت کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے میرے سامنے ہل والا لال جھنڈا لہرایا۔ بھارت کے سابق وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے نے جب لالچوک کا پیدل دورہ کیا تو انہوں نے میرے پاس بھی کچھ وقت گزارا۔تمام احتجاجی مارچ، خواہ وہ مزاحمت سے جڑے ہوں، ملازمین کے مسائل سے جڑے ہوں، طلباء و طالبات کے جلوس ہوں یا کوئی اور سب کے سب میرے سامنے پہنچ کر اختتام کو پہنچتے ہیں۔ میرے ساتھ اتنے واقعات جڑے ہیں کہ بتاتے بتاتے رات نکلی جائے گی، پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ میری کوئی تاریخی حیثیت نہیں…!‘‘
گھنٹہ گھر ماضی کے جھروکوں سے کچھ یادیں سنت رام کو سنا رہا تھاکہ اتنے میں لالچوک بھی بول پڑا اور کہا’’کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میں اس بات کا گواہ ہوں تم جدید تاریخ کالازم و ملزوم حصہ ہو اور تمہاری ایک تاریخی حیثیت ہے، 40سال کم نہیں ہوتے‘‘۔
’’آپ بھی اپنے بارے میں کچھ بتایئے…‘‘ سنت رام نے لال چوک سے اسرار کیا۔
’’میں اپنے بارے میں کیا کہوں؟ میں اتنے حالات و واقعات کا گواہ ہوں کہ میری یاداشت کا پور پور اُن سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے یہاں بچوں کی کلکاریاں، نوجوانوں کی موج مستیاں، گولیوں کی گن گرج، بموں کے دھماکے، آگ کے شعلے، لاشوں کے ڈھیر، لوگوں کی چیخ و پکار، زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں، احتجاجی جلوسوں کے فلک شگاف نعرے، ٹیر گیس شلوں کا دھواں،لیڈروں کی تقریریں ، عید شاپنگ کا رش ،کرفیو و ہڑتالوں کی سنسانیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھا اور سُنا ہے۔ ‘‘ لالچوک نے بہت ہی جذباتی انداز میں جواب دیا۔
’’آپ کیسے وجود میں آئے اور آپ کا نام لال چوک کیسے پڑا۔ ‘‘… سنت رام نے پوچھا
میں کسی زمانے میں ایک وسیع و عریض میدان، جو شنکر آچاریہ یا کوہ سلیمان کے دامن سے دریائے جہلم کے کناروں تک محیط تھا، کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا۔ پھر جب مغلوںکے بعد افغان اور ڈوگرہ حکومتوںکا اقتدار مجھ پر غالب ہوا تو اُنکی سیاسی، انتظامی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر میرے گرد و نواح میں بستیاں قائم ہوتی گئیں۔ میری ایک جانب افغانوں کا انتظامی مرکز شیر گھڑی قائم ہوا، جو بعد میں سکھوں اور ڈوگروں کے دور میں عروج کو پہنچ گیا، تو دوسری جانب برطانوی سلطنت کی سیاسی علامت ریزیڈنٹ دفتر اور رہائش گاہ، جو آج بھی ایمپوریم کے نام سے مشہور ہے، قائم ہوا۔مائسمہ تو بہرحال ڈوگروں کی پہلی فوج کشی کا میدانِ جنگ رہا، جس میں ڈوگرہ فوج کا سالار مارا گیا اور اس کی سمادی آج بھی آزاد بھارت کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد سے مصنون مولانا آزاد روڑ پر نصف صدی تک سیاسی اقتدار کا مرکز رہے پرائیویٹ آفس کے سامنے موجود ہے۔ ریذیڈنٹ کے دفتر سے متصل بڑے بڑے افسروں اور اثر و رسوخ کے حامل لوگوں کی رہائش گاہیں تعمیر ہوتی گئیں۔ یہ بستیاں کوئی عام بستیاں نہیں تھیں، یہاں وقت کے اُمرا، بیروکریٹ، بڑے افسران اور لکھاری رہتے تھے۔ اس کے آگے چل کر جہاں آج سٹیٹ بینک آف انڈیا کی مین برانچ موجود ہے، وہاں بھی کچھ گھرانے آباد تھے، اس کے بعد آبی گزر کا تاریخی گھاٹ اور پھر شیخ باغ تھا۔ شیخ باغ سِکھ سلطنت کے فوجی جنرل شیخ امام الدین کے نام سے منسوب ہے۔ شیخ امام الدین نے ہی اُس وقت ڈوگرہ افواج کیخلاف جنگ لڑی تھی جب سکھوں اور انگریزوں کے درمیان معاہدے کے تحت کشمیر کو بینامہ امرتسر کے تحت ڈوگروں کو فروخت کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں لاشیں اتنی تعداد میں گریں کہ قریب میں واقع ایک علاقے میں اُنہیں دفن کیا گیا اور اُس جگہ کا نام شہید گنج پڑگیا۔شیخ باغ میں ہی عیسائیوں کا قبرستان قائم ہوا اور فتح کدل سے منتقل ہوکر بسکول اور میلنسن سکول بھی یہیں قائم کئے گئے ۔شیخ باغ سے آگے کا یہ علاقہ شیخ محمد اسحق نامی ایک شخص کا تھا، جس کے کچھ حصے پہ بعد میں ہائی کورٹ اور ذیلی عدالتوں کے دفاتر قائم ہوئے۔ کورٹ روڑ میں قائم ایک کسٹوڈین بلڈنگ آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محمد اسحق کے نام ہے۔ اس بلڈنگ میں آئی بی کا آفس بھی موجود تھا لیکن 1990میں دھماکے کے بعد آئی بی کے آفس کو یہاں سے منتقل کیا گیا۔ کورٹ روڑ بنڈ پر آج بھی اسحق گھاٹ کے نام سے ایک گھاٹ مشہور ہے۔
جبکہ دوسری جانب نیڈوز ہوٹل ، اس کے بعد عیسائیوں کا چرج اور اس سے تھوڑا آگے چلتے ہی سمندر باغ آباد تھا۔ اس علاقے کو ڈوگرہ شاہی کے جنرل سمندر خان سے منسوب کرکے اسے سمندر باغ کا نام دیا گیا۔ یہ بہت ہی پوش ائریا تھا، یہاں بڑے بڑے لوگ عالی شان مکانوں میں رہائش پذیر تھے۔ آج بھی اس علاقے میں کئی مکانات قدیم فن تعمیر کے اعلیٰ نمونے ہیں، ان میں سے کئی ایک کو سرکار نے اپنی تحویل میں لے کر سرکاری دفاتر بناڈالے، جن میں ایس پی کالج بلڈنگ، ریڈکراس، وارٹر ورکس، ایجوکیشن دفتر اور کالج آف ایجوکیشن قابل ذکر ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی ایک عالی شان عمارت بھی تھی، جسے ’’مونڈ پیلس‘‘ یعنی بیوائوں کے محل کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔یہاں ڈوگرہ مہاراجوں کے وقت بڑے بڑے اُمرا کی بیوائوں کیلئے قیام و طعام کا بندوبست ہوا کرتا تھا۔ اس عمارت کو 1950میں کشمیر کا پہلا ویمنز کالج بنایا گیا۔ اس کے آگے چل کر گائو کدل ، مائسمہ اور امیرا کدل ہے اور تینوں مقامات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ گائوکدل ہی وہ جگہ ہے جہاں شیخ محمد عبداللہ نوجوانی میں اُس وقت ڈوگرہ کوتوال کو ایک تھپڑ رسید کیا جب اُس نے ایک دودھ والے کو ڈنڈا مار کر اُس کا سارا دودھ گرادیا تھا۔اس سے پہلے دہائیوں تک کوتوال خوف و دہشت کی علامت ہوا کرتی تھا۔شیخ محمد عبداللہ پاس میں سائیکل کے مستری کے پاس اپنی سائیکل ٹھیک کروائے رہے تھے اور اُن سے کوتوال کا ظلم دیکھا نہیں گیا ،انہوں نے کوتوال کو ایک تھپڑ دے مارا اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور شیخ لیڈر بن گئے۔گائوکدل میں ہی 20جنوری 1990کو احتجاجی جلوس پر گولیاں برسا کر قتل عام کیا گیا اور اسے گائوکدل میسیکر (Massacre)کے نام سے جانا جاتا ہے، اس واقعہ کو کشمیر کی تاریخ کا سب سے خونین واقعہ سمجھاجاتا ہے۔ اس قتل عام کے دوران ایک شہری فاروق احمد نے فورسز کی LMGکی نلی کے سامنے اپنی چھاتی رکھ دی اور کئی افراد کی جان بچا کر خود اپنی جان دے دی۔ مائسمہ، جس کا ذکر پہلے بھی آیاہے، تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے اور یہاں اکھاڑا بلڈنگ کے نام سے ایک عمارت آج بھی موجود و مشہور ہے جس کے اندر ایک قدیم مندر بھی ہے ،جس میں قدیم مورتیاں موجود ہے۔ تاریخی امرناتھ یاترا یہی پر پوجا کرکے شروع کی جاتی ہے۔رہی بات امیرا کدل تو یہ پل بھی کشمیر کے اہم تاریخی واقعات کا گواہ رہا ہے۔ اس پل کو سرینگر کے تاریخی پلوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ سرینگر جسے سات پلوں کا شہر(City of Seven Bridges) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، امیرا کدل کو First Bridge(پہلا پل) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ افغان دور کے گورنر امیر خان شیر جوان نے1774سے 77تک تعمیر کرایا تھا اور اس پُل کا نام موصوف کے نام سے ہی منسوب کیا گیا۔
وقت گزرتے جوں جوں ان مقامات کی توسیع ہوئی میرا وجودبھی قائم ہوتا گیا، حقیقی معنوں میں 1930کے بعد میں آباد ہوا تاہم1944تک میرا کوئی نام نہیں تھا۔ کچھ لوگ مجھے امیرا کدل کہتے تھے تو کچھ شیخ باغ کا حصہ مانتے تھے ۔میرا نام 1944میں لالچوک رکھا گیا۔ میرا نام روس کے شہر ماسکو کے Red Squareکے نام سے متاثر ہوکر رکھا گیا کیونکہ یہ Red Squareاُس روسی انقلابی کی علامت مانا جاتا تھا جب عوامی تحریک میں روس کے شہنشاہ زار کا تختہ پلٹ کر کارل مارکس کی قیادت میں پہلی عوامی حکومت بنی اور یہاں ڈوگرہ شاہی کیخلاف جدوجہد کرنے والوں نے اس سے متاثر ہوکر میرا نام لالچوک رکھ دیا۔ تاہم کچھ لوگ مانتے ہیں کہ شیخ محمد عبداللہ نے پنڈت نہرو کے کہنے پر میرا نام لالچوک رکھا۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جواہر لعل نہرو نے 1942سے ہی یہاں کمیونسٹ نظریہ عام کرنے کیلئے کام شروع کیا اور اس کیلئے جھیل ڈل میں موجود ہائوس بوٹوں میں خصوصی تربیتی کورسز بھی کرائے جاتے تھے اور ان کلاسوں میں شیخ محمد عبداللہ کی علمیت کے بغیر اُن کے قریبی ساتھی بھی جایا کرتے تھے اور اسی لابی نے شیخ محمد عبداللہ کو میرا نام روس کے کمیونسٹ انقلاب علامت Red Squareپر رکھنے کیلئے قائل کیا۔ میں شروع سے ہی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ ڈوگرہ شاہی کیخلاف ، ورکر میٹنگوں، جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد بھی یہیں ہوا کرتا تھا اور 1948میں کشمیر کابڑا جلسہ بھی یہیں پلیڈیم سنیما، جو اب کھنڈرہے، کے سامنے منعقد ہوا تھا جس سے شیخ محمد عبداللہ اور جواہر لعل نہرو نے خطاب کیا تھا۔ اسی جلسے میں نہرونے
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جان شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
کہہ کر کشمیریوں کو گلے لگانے کا اعلان کرکے جموں وکشمیر کے عوام کو ریفرنڈم کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہاں جلسے جلوس نہیں ہوا کرتے تھے۔ 18ویں صدی کے اواخر میں مائسمہ کے سبحام حجام(جو پیشے سے حجام تھا) نے مائسمہ میں جسم فروشی کیخلاف آواز اُٹھائی جس نے ایک تحریک کا رُخ اختیار کیا اور اس دوران ایک بہت بڑا جلوس برآمد ہوا جو یہاں تک پہنچا۔ البتہ جہاں تک میری یاداشت ہے یہاں سب سے بڑا جلسہ1975میں اندرا عبداللہ اکارڈ کے بعد ہوا، جب بڈشاہ پُل سے آبی گزر تک لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا اور کہیں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی۔ بھئی اور کتنا سنائوں ، رات نکل جائیگی لیکن میری باتیں ختم نہیں ہونگی‘‘۔لالچوک نے تاریخ کے کچھ پنے کھول کر سنت رام کو سنا دیئے۔
’’سنت رام سو جائو، بہت دیر ہوگئی ہے اور تم سفر کے دوران تھکے بھی ہونگے۔‘‘ لالچوک اور گھنٹہ گھر نے ایک ساتھ کہا
سنت رام نے دونوں کی بات مان لی اور وہیں تھڈے پر سو گیا۔
صبح ہوئی تو پولیس اہلکار نے سنت رام کو جگایا اور کہا کہ ’’بھئی یہ سونے کی جگہ نہیں…‘‘
سنت رام جاگ گیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا، کبھی وہ گھنٹہ گھر کو دیکھتا تو کبھی لالچوک کی سڑکوں کواور سر کھجاتا ہوا سوچ رہا تھا کہ ’’میں رات کو خواب دیکھ رہا تھا حقیقت میں میری گھنٹہ گھر اور لالچوک کیساتھ گفتگو ہوئی۔‘‘
����
موبائل نمبر؛9906630470