ابو نعمان محمد اشرف بن سلام
خالق کائنات کی نعمتوں کا شمار اسی طرح محال ہے جیسے سورج کی روشنی میں ستارے گننا۔اللہ تعالیٰ نے جو سب سے بڑھا احسان دونوں عالموں پر فرمایا وہ اپنے محبوب امام الا نبیاء، خاتم النبیین حضرت احمد مجتبیٰ محمدرسول اللہ ﷺ کو عالم دنیا میں مبعوث فرما کر کیا ہے۔آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ربیع الاول (موسم بہار)میں دنیا میں بھیجا۔عربی زبان میں’’ ربیع‘‘ بہار کے موسم کو کہتے ہیں، فطرت کا یہ کتنا حسین امتزاج ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی خزاں اپنی بساط لپیٹ کر رخصت ہوچکی تھی۔مشاطہ بہار عروس چمن کو آراستہ وپیراستہ کرنے میں محوتھی اور بے رنگ خاکہ دہر میں قدرت کی رنگینیاں بھری جاری تھیں۔ پیغمبر آخر الزمانﷺکی آمد پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے ساری زمین کو سرسبز کردیا اور روئے زمین کی خشک اورگلے سڑے درختوں کو بھی پھلوں پھلولوں سے لاد دیا۔ ہرسمت رحمتوں اور برکتوں کی بھر مار کردی اور قحط زدہ علاقوں میں رزق کی اتنی کشاد گی فرمادی کہ وہ سال خوشی اور فرحت والاسال کہلایا۔ ولادت مصطفیٰﷺکے پورے سال اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول جاری رہا، جب ظہورقدسی کی وہ سعید ساعتیں جن کا ان گنت صدیوں سے انتظار تھا،گردش ماہ و سال کی کروٹیں لیتے لیتے اس لمحہ منتظرمیں سمیٹ آئیںجس میں خالق کا ئنات کے بہترین شاہکار کو منصہ غاکم پر اپنی ضیا پاشیوں سے جلوہ گر ہونا تھا تو مشاطہ فطرت نے ایسی ایسی آرائشوں اور زیبائشوں کا اہتمام کیا جس کی نظیرازل سے ابدتک نہ کبھی تھی اور نہ کبھی حیطہ خیال میں آسکتی ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی آخری تہائی ملک عرب کا مشہور اور مقدس شہر مکہ میں رحمت الہی کے فیصلے کے مطابق صبح صادق کے وقت قبل از طلوع آفتاب ۱۲ ربیع اوّل ۵۷۰ء میں پیر کی وہ مبارک صبح جب وہ نور افلاک ، باعث تخلیق امام الا نبیاء،حضرت احمد مجتبیٰ محمدمصطفےﷺ نے اپنے نورانی قدم سے اس ظلمت کدہْ عالم کو منور فرمایا۔ اس نور نبوتﷺ نے جب اْجالاشروع کیا ہے تو دنیا طرح طرح کی تاریکیوں اور گہرے اندھیروں میں اٹی ہوئی تھی۔ جہالت نے ایک خدا کی خدائی میں کتنوں کو ساجھے دار بنا دیا تھاا سکا شمار نہیں۔ خاتم النبیینﷺ نے اپنی عظیم الشان اصلاحات کا سنگ بنیاد عقیدۂ توحید پر رکھا۔ آپﷺ نے بندہ اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کر دیا اور درمیانی واسطوں کو مٹایا۔’’ور فعنالَکَ ذِکرَکَ‘‘ یہ ذکر کل بھی بلند تھی‘ آج بھی بلند ہے اور کل بھی بلند رہے گا۔ یہ ذکر ازل سے بلند ہے اور ابد تک بلند رہے گی۔ یہ ذکر اس گھڑی تک بلند رہے گا جب تک اللہ کا نام بلند ہے اور اس وقت تک موجود رہے گا جب تک اللہ موجود ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میلاد شریف کو موجودہ شکل میں منانے کا آغاز ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں اِربل کے حکمران سلطان صلاح الدین ابوبیؓ کے بہنوئی سلطان مظفر کے دور میں ہوا۔ہم میلاد النبیﷺ کے جلوس کااہتمام کر تے ہیں ،دل سے محبت رسولﷺ کا مظاہرہ کریں ۔ میلاد کی خوشیوں کو جزوایمان سمجھیں۔یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے مگر انہیں اس کے تقاضوں کوبھی بہرحال مدنظر رکھنا چائیے ۔ میلادلنبی ﷺ موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ رسول رحمتﷺکی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، امام الانبیاؐ کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ رابطہ ۔اوم پورہ ،بڈگام ،(9419500008)