چیف سیکریٹری بی وی آر سبھرا منیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں گزشتہ روز بتایا گیا کہ بانہال قاضی گنڈ ٹنل کو مارچ کے آخر میں آمدورفت کیلئے کھول دیاجائے گااور یوں بانہال اور کشمیر کے درمیان ہمہ موسمی رابطہ یقینی بن جائے گا۔یہ اعلان واقعی خو ش آئند ہے کیونکہ عرصہ دراز سے لوگ اس کا انتظار کررہے ہیں ۔اس ٹنل کے افتتاح کے نتیجہ میں یقینی طور پر جموںسرینگر قومی شاہراہ پر سفر کرنے والے لوگوں کی مشکلیں کسی حد تک کم ہوسکتی ہیں تاہم بنیادی مسئلہ پھر بھی جوں کا توں ہی رہے گا۔قومی شاہراہ کی اصل پریشانی رام بن ۔بانہال اور رام بن ۔ادھم پور سیکٹر ہیں ،جن کا کام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے ۔بلا شبہ چیف سیکریٹری کو کل کی میٹنگ میں بتایا گیا کہ ادھم پور ۔رام بن سیکٹر کا کام بھی 2021کے آخر تک مکمل کیاجائے گا تاہم زمینی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ادھم پور سے ناشری ٹنل تک تعمیری کام سرعت کے ساتھ جاری ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہراہ کے اس حصہ کا تعمیری کام مکمل ہونے میں ابھی بھی بہت وقت درکار ہے اور جہاں تک ناشری سے رام بن سیکٹر کا تعلق ہے تو اس حصے کا خدا ہی حافظ ہے ۔معلوم نہیں کہ متعلقہ حکام نے کیا سوچ کر چیف سیکریٹری کو رواں سال کے اختتام تک اس حصہ پر کام مکمل ہونے کی یقین دہانی کرائی جبکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ اس ذیلی سیکٹر کے بیشتر حصہ پر ابھی کام بھی شروع نہیں کیاگیا ہے اور جہاں کام شروع کیاگیا ہے ،وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ۔اس سیکٹر میں ساری شاہراہ پہاڑوںکو کاٹ کر بنانی ہے اور ابھی کٹائی کا عمل شروع ہونا باقی ہے۔ایسے میں یہ کس طرح دسمبر تک مکمل ہوگی ،سمجھ سے بالاتر ہے ۔
اب جہاں تک رام بن ۔بانہال سیکٹر کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر یہی سیکٹر شاہراہ پر سفر کرنے والے لوگوں کیلئے مصیبت بن چکا ہے ۔پہاڑوںکی بے ہنگم کٹائی نے شاہراہ کے اس حصہ کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ٹنلوںکی تعمیر سست رفتاری کے ساتھ جاری ہے ۔یہی شاہراہ کا وہ حصہ ہے جو مسلسل پسیوںکی زد میں رہتا ہے اور جہاں بارہ کے بارہ ماہ اب پتھر کھسکنے کا عمل ہی جاری نہیں رہتا ہے بلکہ پسیاں بھی آتی رہتی ہیںجس کے نتیجہ میں روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک کی معطلی معمول بن چکی ہے ۔چیف سیکریٹری کو میٹنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سیکٹر میں اراضی حصولیابی کا عمل تقریباً مکمل کیاگیا ہے جبکہ ڈپٹی کمشنر رام بن سے کہاگیا کہ وہ مارچ کے آخر تک اراضی حصولیابی کا عمل مکمل کریں ۔یہ ہدایت یقینی طور پر حوصلہ بخش ہے اور اس کے نتیجہ میں کافی حد تک تعمیری کام میں حائل اڑچنیں دور ہوجائیں گی تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس سیکٹر میںبیشتر اراضی محکمہ جنگلات کی ہے اور اگر سرکاری محکمہ ہی اراضی کی منتقلی میں لیت و لعل کا مظاہرہ کرے تو عوام سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔اتنا ہی نہیں،اس سیکٹر کے کئی مقامات پر کام چل بھی رہا ہے لیکن بے ترتیب تعمیری سرگرمیوں کی وجہ سے پیش رفت حاصل نہیں ہوپارہی ہے ۔شاہراہ کی تعمیر کا کام جن کمپنیوں کو دیاگیاتھا،انہوںنے رام بن کے مقامی ٹھیکیداروںکو ٹھیکے دئے ہیںاور وہ کسی انجینئر نگ سپورٹ کے بغیر ہی کٹائی کے عمل میں لگے ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑوںکا رسائو اب رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے، جس کے نتیجہ میں گزشتہ برس محکمہ کو شاہراہ کی سر نو الائنمنٹ کرنا پڑی کیونکہ ان حصوں میں شاہراہ کی تعمیر ناممکن بن چکی تھی ۔اگر یوں کہا جائے کہ شاہراہ کے اس حصہ میں کار نجار بدست گلکار والا معاملہ ابھی بھی چل رہا ہے تو بیجا نہ ہوگا ۔
ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کہیں بھی پہاڑوںکو چیر کر عظیم شاہرائیں تعمیر نہیںکی گئی ہیں۔ہمارے پڑوس میں چین اس کی زندہ مثال ہے جہاں عظیم پہاڑی سلسلوں سے ہمہ موسمی شاہرائیں نکالی گئیں جو مکمل طور قابل انحصار ہیں اور جن پر کبھی ٹریفک کی روانی میں خلل نہیں پڑتا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہمارے یہاں پہنچ کر یہی ٹیکنالوجی بے کار کیوں ہوجاتی ہے حالانکہ یہاں بھی شاہرائیں تعمیر کرنے میں مہارت رکھنے والی تعمیراتی کمپنیوں کی کمی نہیں ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ ایک کے بعد ایک ڈیڈلائن گزرتی ہی چلی جارہی ہے لیکن یہ شاہراہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔
آج صنعتکاری کو فروغ دینے کے کتنے بھی جتن کیوں نہ کریں لیکن جب تک آپ کی شاہرائیں قابل انحصار نہ ہوں،یہ تگ ودو بے معنی ہے کیونکہ ہمہ موسمی شاہرائیں ہی ترقی کی شہ رگ کہلاتی ہیں اور جب آپ کی شہ رگ ہی غیر فعال ہو تو تعمیر و ترقی یا صنعتی انقلاب کے خواب دیکھنا بے معنی ہے ۔ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت ذرا سنجیدگی کا مظاہرہ کرے کیونکہ یہ شاہراہ محض آمدرفت یا نقل و حمل کا ہی ذریعہ نہیںہے بلکہ یہ براہ راست قومی سلامتی سے جڑا معاملہ بھی ہے ۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ کم از کم قومی سلامتی کا ادراک کرتے ہوئے اس شاہراہ کو ترجیحی بنیادوںپر مکمل کرنے کے جتن کئے جائیں گے جس کا فائدہ پھر عام لوگوںکو بھی ملنا یقینی ہے ۔