! قومیت: ایک فطری جذبہ ہے

لفظ قومی ریاست سے خود واضح ہے کہ وہ ریاست جو قومیت کے نام پر بنی ہو، یعنی ایک وسیع جغرافیائی علاقہ جہاں کے کثیر آبادی ایک ساتھ رہتے ہو، جنکا مذہب ایک ہو،وہ ایک زبان بولتے ہوں، جنکی تہذیب و تمدن ایک ہو ،اگرچہ وہاں کی قلیل آبادی کا تعلق کسی دوسرے قوم سے ہو ،تو ایسی ریاست قومی ریاست کہلاتی ہے۔آج کی دنیا میں جتنے بھی ریاستیں ہیں، وہ سب کے سب قومی ریاستیں ہیں ۔سلطانی دور میں سلطنت کا دائرہ دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوتا تھا اور ا س میں مختلف اقوام ایک ساتھ رہا کرتے تھے، لیکن جب سلطانی دور کا زوال شروع ہوا اور لوگوں کے اندر قومیت کا احساس اور جذبہ پیدا ہوا تو عوام سلطان کے خلاف بغاوت پر اتر آئی اور اپنے لئے ایک الگ ملک کا مطالبہ کرنے لگی اور وہ بعد میں اس مطالبہ کے حصول میں کامیاب بھی ہو گئی۔
پاکستان ایک قومی ریاست ہے، محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور کہا کے مذہب کے نام پر ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قوم ہیں۔ بنگلادیش بھی ایک قومی ریاست ہے حالانکہ پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے عوام مسلمان ہیں لیکن بنگلہ دیش کے لوگ زبان اور کلچر کے حساب سے مغربی پاکستان کے عوام سے الگ ہیں۔ 
ریاست کے اندر ریاست یعنیwithin  state  State   کا بھی وجود عمل میں آتا ہے۔ جیسے ہمارا ملک ایک ریاست ہے اور اسکے اندر بھی چھوٹی جھوٹی ریاستیں ہیں۔یہاں بھی قومیت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ جیسے بنگالیوں کے لئے بنگال، پنجابیوں کے لیے پنجاب، مراٹھی کے لیے مہاراشٹر وغیرہ۔قومیت کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے،قومیت کا نظریہ مغربی ممالک نے پیش نہیں کیا بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومیت کا نظریہ مغربی ممالک میں فرانسیسی انقلاب کے بعد نمایاں طور پر سامنے آیا اور شدت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا اور اس جذبہ کو بہت زیادہ تقویت اور فروغ حاصل ہوا، مسلمان بھی جو خلافت عثمانیہ کے تحت زندگی بسر کر رہے تھے ،وہ بھی اس احساس سے بیدار ہوئے، یہاں تک کے عرب والے اپنے آپ کو ترکوں سے ایک منفرد قوم سمجھنے لگے، قومیت کسی قوم کی شناخت ہے ۔قومیت اس وقت خطرناک ہوتی ہے جب ایک قوم دوسرے قوم کو نفرت کرنے لگے، حقیر سمجھنے لگے اور اس پر بالادستی قائم کرنے لگے۔ قومیت کی یہی انتہا پسندی ایک بڑی وجہ تھی، جس کے باعث پہلی جنگ عظیم ہوئی۔
قومیت کا جذبہ لوگوں کے اندر مقابلہ کا شوق پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی قوم کسی دوسرے قوم کو علوم و فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس کے اندر بھی اسی چیز کے حصول کا شوق پیدا ہوتا ہے۔قومیت ایک قدیم احساس ہے، قبائلی نظام میں لوگ اپنے آپ کو مختلف قبائل کے نام سے جانتے تھےاور قبائلی عصبیت ہی ایک طرح سے قومیت تھی ۔قران مجید میں بھی لفظ قوم متعدد بار استعمال ہوا ہے۔
 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے نوح علیہ السلام کو اسی کے قوم میں، ہود علیہ السلام کو قوم عاد میں، صالح علیہ السلام کو قوم ثمود میں، شعیب علیہ السلام کو مدین کی قوم میں، لوط علیہ السلام کو اسی کے قوم میں ،موسیٰ علیہ السلام کو قوم فرعون میں مبعوث فرمایا۔ یہاں جتنے بھی رسولوں کا ذکر کیا گیا، سبھوں نے اپنے اپنے مخاطبین کو، اے میرے قوم! بول کر مخاطب کیا۔ بنی اسرائیل بھی ایک قوم ہے۔ ہمارے پیارے نبی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسماعیل کے لیے خصوصی طور پر اور سارے جہاں کے لوگوں کے لیے عمومی رسول بنا کر بھیجا، قران مجید کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قوم لفظ کا استعمال مذمت کے ساتھ نہیں کیا گیا ہے۔
انیسویں صدی میں کون کون سے قومی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا :
 1789 ء کے فرانسیسی انقلاب سے پوری دنیا میں قوم پرستی اور حریت پسندی کا لہر پھیل گئی، لوگ بادشاہی نظام کے مقام پر جمہوری حکومت کے نظام کا مطالبہ کرنے لگے۔ سلطنت کے توسیعی دور میں ہر سلطنت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جد وجہد میں لگے تھے، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اپنے سیاسی مفاد کے حصول کے لیے کسی کو اپنا حریف بناتی تو کسی کو اپنا حلیف،روس ترکی کا روایتی حریف رہا ہے۔ اسکا مقصد مغرب کے طرف گامزن ہونا اور قسطنطنیہ پر قبضہ کرنا تھا۔ انگلینڈ روس کے بڑھتے ہوئے اس پیش قدمی کو روکنا چاہتا تھا اور اس واسطے اس نے ترکی کو اپنا حلیف بنایا اور وقتاً فوقتاًاسکی حمایت بھی کرتا رہا۔
فرانس کو سزا:۔1815میں  Congress of Vienna   کا اجلاس ہوا ۔اس میں چار ممالک انگلینڈ، روس پروشیا اور آسٹریا شامل تھے۔ جو اس وقت کی بڑی قوتیں  Great Powers تھیں، ان کا کام یورپ کے نقشہ کو از نو سر ٹھیک کرنا تھا۔ جسے نپولین نے بگاڑ رکھا تھا اور فرانس کے جارحانہ اقدام کو روکنا،اس غرض کی خاطر کانگریس نے فرانس کے سرحد میں تخفیف کر کے اسکی حدبندی کی۔ نپولین نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت اپنے ملک کی سرحدوں کو پرتگال، اسپین جرمنی، اٹلی تک بڑھا چکا تھا، فرانس کے سرحد کی گھیرابندی کے لیے کانگریس نے دو الگ الگ اقوام پر مشتمل بلجئیم (Belgium) اور ہالینڈ (Holland) کو ایک ساتھ جوڑ کر ایک مملکت بنایا تاکہ یہ ایک Bulwark state   کے طور پر فرانس کے بڑھتے قدم کو روک سکے۔ دوسری طرف ڈنمارک(Denmark)  سے ناروے (Norway)  کو کاٹ کر سویڈن (Sweden)  کے ساتھ جوڑ دیا، کیونکہ ڈنمارک نے جنگ میں فرانس کا ساتھ دیا تھا اور سویڈن نے Allied powers   کا ساتھ دیا تھا۔ روس کو پولینڈ کا کچھ حصہ ملا اور آسٹریا کو اٹلی کا Venetia   اور Lombardy   کا حصہ ملا۔ فاتح طاقتوں کی یہی پالیسی رہی ہے کہ مفتوح ممالک کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ کرکے اسے فاتح طاقتوں کے درمیان  بطور انعام تقسیم کر دینا۔
بیلجیم (Belgium) کی آزادی :۔فرانس کے جولائی 1830 ء کے انقلاب کا اثر بیلجیم پر ہوا، وہاں کے عوام کو بیلجیم کا ہالینڈ کے ساتھ الحاق منظور نہیں تھا، کیونکہ بیلجیم اور ڈچ دو الگ الگ اقوام تھیں، جن کی زبان، مذہب،تمدن اقتصادی زندگی اور اصول میں فرق تھا، وہاں انقلاب برپا ہوا۔لندن میں Conference of powers   کی ایک میٹنگ ہوئی، جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ بیلجیم کو ایک الگ ریاست بنایا جائے گااور 1831 ء میں بیلجیم جو 1815 ء میں ہالینڈ کا ایک حصہ تھا، اب ایک الگ مملکت بن گیا۔ بیلجیم کی آزادی قومیت کے اصول کی جیت تھی۔
یونان کی جنگ آزادی (Greek war of independence)  
روس خلافت عثمانیہ کا روایتی حریف تھا، وہ مغرب میں اپنی سلطنت کے توسیع کے لئے قسطنطنیہ کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا تھا۔ روس نے ترکی سے مطالبہ کیا کہ اسے ترکی میں مقیم صلیبی باشندوں کا محافظ (Protectorate)  تسلیم کیا جائے، علاوہ ازیں روس نے یورپ کے جنوبی مشرق میں واقع بلقان کا علاقہ(Balkan states)  میں موجود بلقانی باشندے جو Slav   نسل کے تھے ،انکے اندر Pan slavism   کا نظریہ پیش کر دیا اور انہیں الگ ریاست کے مطالبہ کے لئے متحرک کر دیا۔ اسکے نتائج میں1820 ء میں سربیا کے عوام ترکی حکومت کے خلاف بغاوت (Revolt in Serbia)  پر اتر آئی،اسکے بعدیونانیوں کی جنگ آزادی شروع ہوئی۔ 1821ء  سے 1827ء تک انگلینڈ، آسٹریا اور پروشیا نے ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کیا اور اسکی سا لمیت کو برقرار رکھنے پر فیصلہ کیا۔ Metternich   نے تو یہ کہا کے یونان کی حکومت کے خلاف بغاوت ناجائز ہے۔ لیکن بعد میں انگلینڈ ، روس اور فرانس نے ترکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ یونان کو خودمختاری دے دیں، لیکن ترکی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا، اس پر 1828 ء میں روس نے تنہا ترکی پر حملہ کر دیا اور 1829 ء میں ترکی کو (Treaty of Adrianople)  کا معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا، جس کے تحت یونان  ایک آزاد قومی ریاست بنا۔
کریمیا کی جنگ (Crimean war)  :۔ 1854 ء میں روس اور ترکی کے درمیان کریمیا کی جنگ شروع ہوئی ۔ اس سے پہلے روس چاہتا تھا کہ سلطان ترکی کے علاقوں میں مقیم یونانی صلیبیوں کا اسے محافظ تسلیم کر لے، جسے ترکی نے خارج کر دیا۔ جس کے جواب میں روسی افواج نے دریا ڈینوب کے علاقے Moldavia   اور Wallachia   پر قبضہ کر لیا۔روس کی یہ حرکت انگلینڈ اور فرانس کو پسند نہیں آیا اور دونوں ہی طاقتوں نے ترکی کا ساتھ دیا اور تینوں مل کر روس پر حملہ کر دیا۔یہ جنگ کریمیا کا جنگ کہلاتی ہے۔ 1856 ء میں پیرس کا امن معاہدہ (Peace of Paris)  ہوا ،اسکی رو سے روس کو مالداویہ اور والاچیا سے دستبردار ہونا پڑا اور ان دونوں علاقوں کو ایک کرکے رومانیہ(Roumania)  کے نام سے ترکی کے ماتحت ایک خودمختار ریاست بنادیا گیا، لیکن اس میں خرابی یہ تھی کے دونوں ہی علاقوں کے لئے الگ الگ دستور بنانے گئے، چونکہ دونوں علاقوں کے لوگ ایک ہی نسل کے تھے اور دونوں کی زبانیں ایک تھی اور دونوں ہی ملکوں کے لوگوں میں قومیت کا جذبہ بھرا ہوا تھا، وہ ایک آزاد متحد ریاست چاہتے تھے۔کچھ سال بعد روس نے دوبارہ ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا شروع کر دیا۔ 1870 ء میں روس نے ترکی سے مطالبہ کیا کہ بلغاریہ (Bulgaria) کے عوام کے لیے ایک علیحدہ مذہبی ریاست کو تسلیم کرے۔ دوسری طرف ترکی کے بلقان عوام Slav   نسل کے تھے،بلقان کے اس نسل کے تمام باشندے چاہتے تھے کہ انکے لیے ایک علیحدہ بڑی ریاست بنائی جائے۔ روس اس نسلی اتحاد کو ہوا دے رے رہا تھا، اسی دوران 1875ء میں بوسنیا اور ہرزیگووینا (Bosnia Herzegovina)  کی عوام نے ترکی حکومت کے خلاف بغاوت کر دیا ۔اسکے پیچھے پیچھے بلغاریہ(Bulgaria)  میں بغاوت ہو گئی۔ سلطان نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا، یہاں کے زیادہ تر لوگ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے، بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ اس سے یورپی ممالک میں ترکی کے خلاف لوگوں میں غصہ پیدا ہوا، روس نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور1877 ء میں ترکی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ۔ (Russo-Turkish war)  جنگ میں ترکوں کو شکست ہوئی۔1878 ء  میں Treaty of Sanstefano   کا معاہدہ ہوا، اس معاہدہ کے تحت Serbia   اور Montenegro   کی مکمل آزادی کو تسلیم کیا گیا۔رومانیہ (Roumania) کو بھی آزاد تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدہ کی سب سے اہم خاصیت یہ تھی کہ ترکی کے ماتحت ایک خودمختار بلغاریہ اعظم  Big Bulgaria   کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
(جاری)
(رابطہ۔9968012976)