سید مصطفیٰ احمد، بڈگام
ہر انسان سکون کی تلاش میں یہاں سے وہاں پھرتا رہتا ہے۔ کبھی مادی چیزوں کا سہارا لے کر وہ جسمانی اور روحانی تسکین کی خاطر ہر کوئی جتن کرتا ہے۔ پیسے،گاڑیاں، زمینیں، اولاد،عہدےوغیرہ کے سہارے انسان دائمی سکون کی تلاش میں دربدر پھرتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل سکون کونسا ہے۔ جسمانی سکون یا پھر روحانی سکون، جس کو ہم روحانی سکون کے نام سے بھی جانتے ہیں، ان دونوں میں کس سکون کی خاطر ہم سب کو جینا چاہیے۔ زندگی کی تین دہائیاں گزارنے کے بعد مجھ پر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ سکون تو بس وہی ہے جو اندر کی دنیا میں ایک خاموشی کے علاوہ اطمینان کی گہرائیاں پیدا کریں۔ایسا اطمینان جو خوشی اور غم کے مواقع پر ایک ہی ڈگر اور ایک ہی نگر کی طرف چلے۔ ایسا دل یا قلب جو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کو خدا نے عنایت فرمایا تھا۔ ایسا قلب جو خوشامد اور مادیت کی گندگی سے کوسوں دور تھا۔ اس قسم کی تسکین ہی کل سرمایہ ہے۔ ایسا قلب جس کو حاصل ہوتا ہے اس کی دل کی آنکھوں میں ایسی بینائی پیدا ہوتی ہے کہ اندھیرے اور روشنی کے درمیان ایک نمایاں لکیر دکھائی دیتی ہے جس سے حق اور باطل کی تمیز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ ایک صوفی گلوکار صوفی کلام کو گاتے ہوئے ہتے ہیں کہ جس انسان کی دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، تب آنکھوں سے دِکھنے والی چیزوں کے علاوہ پوشیدہ چیزوں کی حقیقی روشناسی ہوتی ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے قلب سکون کے کٹھن مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔ اب وہ کونسے محرکات ہیں جس سے ایک انسان کے اندر طوفانوں کے بھرمار ہونے کے باوجود بھی سکون اور اطمینان کی ملائم ہوائیں چلتی ہو۔ کچھ کا مختصر ذکر آنے والی سطروں میں آرہا ہے۔
پہلا محرک ہے نفس کی پاکی۔ جو انسان نفس مطمئنہ کی معراج پر پہنچ گیا ہو، وہ قلب سکون کی معراج تک بھی بنا کسی شک کے پہنچ جاتا ہے۔ جب اطمینان جینا اور مرنا بن جاتا ہے تب قلب سکون کے علاوہ روحانی سکون بھی میسر ہوتا ہے۔ جو انسان خالق کے اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھتاہے لیکن مخلوق سے رشتے ناطے توڑتا رہتا ہے، تب جاکر وہ دل کے حقیقی اطمینان سے اس کا پیالہ لبریز ہوتا ہے اور گہری نیند سے جاگنے کا بھی موقع میسر ہوتا ہے۔ دوسرا ہے اپنی مستی میں رہنا۔ جس انسان کو اپنی مستی میں جینے کا رَس پیدا ہوگیا، اس انسان کو دنیا کے باقی قسم کے رَس میں کوئی بھی سکون حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ایک شاعر لکھتا ہے کہ میں اپنے دھن میں رہ کر قلب سکون کی نفیس مسکراہٹوں اور نزاکتوں سے اتنا مطمئن ہوجاتا ہوں کہ ہر چیز سے کٹ کر خود کے ساتھ ملاقات کرکے ایک الگ ہی قسم کی دنیا سے روشناس ہوجاتا ہوں۔ تیسرا ہے بغض کی نجاست سے پاکی۔ جس انسان کا نفس بغض کی گند سے صاف ہوجاتا ہے وہ قلب سکون کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ جب خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر دل سے شکر گزاری کرنے کے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں تب جاکر قلب ایک ایسی دنیا سے روشناس ہوجاتا ہے جہاں پر مطمئن اور اطمینان جیسے الفاظ کی بھرمار ہوتی ہیں۔ جو خدا کی خاطر جیتا ہے وہ پھر خود کے لئے جینے کا بھی اہل ہوجاتا ہے اور جب ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تب دل سکون کی وادیوں میں جھومنے لگتا ہے۔
جیسے کہ مضمون کی ابتداء میں بیان کیا گیا ہے کہ قلب سکون ہی کل سرمایہ ہے، تو ہم سب کو اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ یہ مشکل کام ضرور ہے لیکن اس کی منزل خوبصورت ہونے کے علاوہ بہت ہی روشن اور دائمی خصائل کا ایک ٹھوس مجسمہ ہے۔ مادیت بذات خود غلط نہیں ہے لیکن مادیت کو ہی زندگی کا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہر قسم کے سکون کے منافی ہے۔ زندگی میں حقیقت قرار پانے کے لئے دنیا کے قرار کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ اپنی بےقراری کا حساب رکھا جائے اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ کیسے میں اپنی بےقرار دنیا میں سکون کے ٹھوس قلعے تعمیر کروں۔ وقت کی بھی ضرورت ہے کہ عارضی مسرتوں اور سکون کو یکطرف کرکے اس سکون کی طرف من اور تن سے دوڑنا شروع کرے جو ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہے اور جس کا رنگ کبھی بھی پھیکا نہیں پڑتا ہے۔ ہر انسان کو معرفت الٰہی سے لبریز لوگوں کے ساتھ رشتے ناطے جوڑنے چاہیے تاکہ رحمت کے دربار میں ہورہی معرفت خدا کی بارش کےکچھ چھینٹے ہمارے ریگستانوں کی جھلسا دینے والی گرمی کی تپش کو کم کرے۔ ان محفلوں کی روح کی پاکیزگی کے علاوہ ان دلوں میں قرار آتاہے جو جمع شدہ پونجی کے کھوجانے کے ڈر سے حد سے زیادہ دھڑکتے رہتے ہیں۔اولیاء اللہ کی محفلیں دنیا کی خوبصورت محفلوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی صحبت اللہ کی وحدانیت سے روشناس ہونے کے علاوہ اپنی اندر چھپی ہوئی گند کو پہچاننے میں نمایاں رول ادا کرتی ہے۔ تو آئیے ہم اپنی انفرادی سطح پر اپنے قلب کو اطمینان کے نور سے روشناس کرانے کی بھرپور کوششیں کریں۔ اللہ ہم سب کو قلب سکون کی نعمت سے مالا مال کرے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]