قضیہ زمین کا

 سر زمین جموں کشمیر میں بہت سارے قوانین (ایکٹ) مقبول عام ہیں اور ان سبھی ایکٹوں کے بارے میں یکساں بات یہ ہے کہ ان کی مقبولیت منفی وجوہات کی بنا پر ہے۔ یہاں کا ہر باشندہ پبلک سیفٹی ایکٹ سے واقف ہے کیونکہ وہ کوئی محلہ نہیں جس کے کسی نہ کسی شہری کو اس ایکٹ کے تحت پابند سلاسل نہ بنایا گیا ہو۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روکتھام سے متعلق ایکٹ بھی ایسا ہی ایک قانون ہے جس کے تحت یہاں طویل عرصہ سے گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ نے تو یہاں کے عوام کا ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ایک ’روشنی ایکٹ‘تھا جس کی مقبولیت کی وجہ ابھی ماضی قریب تک مثبت تھی۔ لیکن برا ہو یہاں رائج بد عنوانی کا جس نے یہاں کے سماج میں بہت ہی گہرائی تک سرایت اختیارکی ہے کہ اس ایکٹ کو سرکاری سطح پر ہی منسوخ کرکے اس کے تحت عمل میں لائی گئی مبینہ بدعنوانیوں سے پردہ سرکایا گیا۔ حالانکہ کئی حلقے اس سلسلے میں سرکاری دعوئوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی آڑ میں سیاسی کھیل کھیلنے کے الزام بھی عائد کررہے ہیں لیکن حکومت کا ماننا ہے کہ روشنی ایکٹ یا روشنی اسکیم کا قیام ہی بد عنوانیوں کیلئے عمل میں کیا گیا تھا۔   
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی 2014میں جاری رپورٹ کے اندر پہلی بار ’روشنی ا سکیم‘کو25ہزار کروڑ روپے کا ’سکینڈل‘ قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا گیا کہ اس اسکیم کے تحت سرکاری زمینوں کی قیمتیںاس لئے کم کی گئیں تاکہ سیاست دانوں اور دیگر با اثر افراد کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔اس سے قبل حکومت کی طرف سے روشنی ایکٹ کی منظوری کے فوراً بعد سٹیٹ ویجی لینس آرگنائزیشن نے بعض لوگوں کیخلاف ایک ایف آئی آر درج کرکے الزاما عائد کیا تھا کہ اُنہوں نے مذکورہ اسکیم کے تحت معیار اور قواعد کیخلاف ورزی کرتے ہوئے زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کئے ہیں۔ اس مقدمے کے پس منظر میں ہی گلمرگ زمین گھپلہ کیس کافی چرچے میں رہا۔ اس گھپلہ کے تحت یہ بات منظر عام پر آگئی کہ سیاحتی مقام گلمرگ میں با اثر شخصیات نے انتہائی قیمتی زمینوں کے مالکانہ حقوق اپنے نام منتقل کروائے ہیں۔اسی طرح کا ایک کیس جموں میں بھی دائر کیا گیا اور وہاں بھی کشمیر کی طرح ہی کسی ملزم کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔اسی تناظر میں عدالت عالیہ کے سامنے ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں روشنی ایکٹ کے تحت مبینہ طور کی گئی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی درخواست کی گئی۔
سال2018کے ماہ اکتوبر میں اُس وقت کے جموں کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے روشنی ایکٹ کو ہی منسوخ کردیا۔بعد ازاں ملک نے ستمبر2019میں انسداد رشوت ستانی بیورو کے ہاتھوں تحقیقات کا حکم صادر کیا جس کے بعد عدالت عالیہ کے سامنے ایک اور درخواست پیش ہوئی جس میں معاملے کی سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
عدالت عالیہ نے کئی سماعتوں کے بعد رواں برس کے ماہ اکتوبر میں روشنی ایکٹ کو ’’غیر آئینی اور غیر مستحکم‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے تحت کی گئی الاٹمنوں کو غلط ٹھہرایا۔عدالت عالیہ نے معاملے کی تحقیقات سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کو سونپتے ہوئے زمین گھپلے میں ملوث با اثر شخصیات، سرکاری افسران اور تاجروں کے نام ولدیت و سکونت اور دیگرذاتی تفاصیل کے ساتھ ظاہر کرنے کی بھی ہدایت جاری کی۔ 
روشنی ایکٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے ۔اس کو 2001میں فاروق عبد اللہ کی سربراہی والی سرکار نے بنایا اور بعد میںمفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کی سربراہی والی حکومتوں نے اس کے اندر معمولی ترامیم عمل میں لاکر اس کو بقول انکے مؤثر بنایا۔قارئین کو شاید یاد نہ ہو کہ متذکرہ بالا تینوں حکومتوں نے اپنے اپنے وقت میں روشنی ایکٹ کے حق میں طویل بیانات دئے اور یہ تاثر پیدا کیا کہ اس کے ذریعے جموں کشمیر کے ہائیڈل پروجیکٹوں کو ترقی دیکر یہاںبجلی کی کمی کو ہمیشہ ہمیشہ دور کیا جائے گا۔حکومت کے پاس جو منصوبہ تھا اُس کے مطابق روشنی ایکٹ سے حاصل رقومات کو انہی پروجیکٹوں پر خرچ کیا جانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ایکٹ کا نام’’روشنی‘‘ رکھا گیا تھا۔
حکومت کے پاس منصوبہ تھا کہ 20.46لاکھ کنال سرکاری اراضی کو(16.02کنال جموں میںاور4.44کنال کشمیر میں)  منتقل کیا جائے گا جس سے25ہزار کروڑ روپے کی آمدن حاصل ہوگی۔تاہم بعد میں صرف6.04لاکھ کنال سرکاری اراضی (5.71 لاکھ کنال جموں میں اور 33392 کنال کشمیر میں)کی منتقلی کو ہی منظوری دی گئی ۔
جموں میں سرگرم بعض دائیں بازو کی انجمنوں کو اول روز سے اعتراض تھا کہ اس سرکاری اسکیم کا مقصد جموں ضلع کی ہندو اکثریتی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اسی لئے صرف جموں میں25ہزار زمین منتقلی کے آرڈر جاری کئے گئے جبکہ کشمیر میں صرف4500ایسے آرڈر جاری ہوئے۔ مبصرین پوچھتے ہیں کہ اب جبکہ اس اسکیم کو کالعدم قرار دیکر زمین کو واپس حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو کیا جموں میں رہائش پذیر دوسرے فرقے سے وابستہ افراد آبادی کے تناسب کوبگاڑنے کا الزام عائد نہیں کرسکتے  ہیں؟اور حکومت کے پاس مذکورہ فرقے کو مطمئن کرنے کیلئے کیا ہے ؟
زمین کا استعمال کرکے آبادی کا تناسب بگاڑنے کے خدشات خطہ کشمیر میں طویل عرصہ سے ظاہر کئے جارہے ہیں۔با الفاظ دیگر صوبہ جموں ہو یا وادی کشمیر، یہاں کی زمین کا قضیہ دہائیوں پرانا ہے۔اسی زمین کی وجہ سے دو ہمسایہ ممالک میں کم و بیش دو جنگیں بھی ہوئی ہیں اور اسی کی خاطر یہاں سیاسی اکہاڑے بھی جمے ہیں اور اب تین دہائیوں سے انسانی خون بھی بہہ رہا ہے۔اب تو سٹیٹ کا رویہ دیکھ کر عوام کی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں ورنہ زمین تنازع کو لیکر2008کی ایجی ٹیشن کو کون بھول سکتا ہے، اور تو اور، فی الوقت جو ضلع ترقیاتی کونسل کے انتخابات منعقد ہورہے ہیں ان میں بھی زمین کو ہی ایشو بناکر عوام سے ووٹ بٹورے جارہے ہیں۔ ایک سیاسی حلقہ زمین کی رکھوالی کا نعرہ بلند کررہا ہے اور دوسرا زمین کو استعمال کرکے ترقی کی یقین دہانی کررہا ہے۔ 
 بعض حلقے تو یہاں تک خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ روشنی اسکیم کے تحت تقسیم کی گئی زمین کو واپس لیکر حکومت اس پر غیر ریاستی باشندوں کو آباد کرکے یہاں کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔تجزیہ نگار بھی پوچھ رہے ہیں کہ اراضی منتقلی کیلئے سابقہ حکومتوں نے جو مبینہ بد عنوانی عمل میں لائی تھی تو اُس کو ’روشنی اسکیم‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ حاصل آمدن کو بجلی پروجیکٹوں کی ترقی پر خرچ کیا جائے گا،اب جبکہ مذکورہ اراضی کو واپس حاصل کیا جارہا ہے تو اس کا مصرف کیا ہوگا؟
پھر یہ بھی پوچھنے والی بات ہے کہ جن با اثر شخصیات یا عام شہریوں (قلیل تعداد) نے روشنی اسکیم کا فائدہ اٹھاکر سرکاری زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کئے ہیں اُنہوں نے ایسا کرتے ہوئے قواعد کی مکمل پاسداری کی ہے۔با الفاظ دیگر جس وقت مذکورہ افراد نے سرکاری اراضی اپنے نام منتقل کروائی اُس وقت انہوں نے نافذ العمل روشنی ایکٹ کے تحت سبھی قانونی لوازمات پوری کی تھیں ،اب جبکہ مذکورہ ایکٹ کو ہی کالعدم قرار دیا گیا تو مناسب یہ ہوگا کہ اس کو کوئی’ گھپلہ‘’یا گھوٹالہ‘قرار نہ دیکر سادہ اصطلاح استعمال میں لاکر کہا جائے کہ’ روشنی ایکٹ کے تحت حاصل زمینوں کو واپس لیا جارہا ہے‘۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ سرکاری طور اس بات کی وضاحت کی جائے کہ’ گھپلہ ‘ صرف اُن شخصیات نے کیا ہے جنہوں نے اپنی پوزیشن یا عہدے کا ناجائز استعمال کرکے زمینیں حاصل کی ہیں اور روشنی اسکیم کے عام مستفیدین کو ’گھپلے‘ کے زمرے میں نہ لایا جائے ۔  
جموں کشمیر سرکار کی طرف سے جاری وہ حالیہ حکمنامہ بھی یہاں کی زمین سے متعلق ہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنگل اراضی پر ’’غیر قانونی‘‘ تجاوزات کو ہٹانے جارہی ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر میں15ہزار ایکڑ جنگل اراضی پر غیر قانونی تجاوزات کھڑی کی گئی ہیں۔اس حکمنامے کی بجلی زیادہ تر گجر اور بکروال طبقے پر پڑنے والی ہے جنہیں’ جنگل کے محافظ ‘بھی قرار دیا جاتا ہے اور قواعد کی  رو سے اُنہیں جنگل اراضی استعمال کرنے کا پہلا حق حاصل ہے ،حالانکہ وہ خانہ بدوش لوگ ہیں اس لئے زیادہ وقت ایک مقام پر نہیں گذارتے ہیں۔اس کے علاوہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ بعض سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد نے بھی جنگل اراضی پر قبضہ جمایا ہے۔حکومت نے حال ہی میں جنوبی کشمیر میں بعض گجر اور بکروال شہریوں کے ڈھانچے منہدم بھی کئے جس کو لیکر کافی شور بھی مچا۔اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے ابھی تک جن غیر قانونی ڈھانچوں کی انہدامی عمل میں لائی اُن میں ایک بھی کسی با اثر شخصیت کا نہیں ہے حالانکہ حکومت نے اُن63ہزار افراد کی فہرست تیار کی ہے جنہوں نے بقول اُس کے جنگل اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔حکومت کے بقول یہ ناجائز تجاوزات 32فاریسٹ ڈویژنوں میں موجود ہیں جن میں12ڈویژن وادی کشمیر جبکہ 20جموں صوبے میں واقع ہیں۔بحرحال، جموں کشمیر کی زمین کا قضیہ کہاں تک طول پکڑے گا، اسکے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، اس لئے حدود کو پھلانگنے کی غلطی نہ حکومت کو کرنی چاہئے اور نہ گھپلا بازوں کو۔