قرآن سے دوری معاشرتی خرابی کا موجب فکروفہم

ہارون ابن رشید، ہندوارہ

ہماری نوجوان نسل قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ غیر ذمہ دارانہ رویے اور بے حسی نے اس قدر شکنجے میں جکڑ گئے ہیں کہ اپنے سامنے ہورہی برائیوں اور سماج میں پنپ رہی بے حیائیوں ،فحاشیوں ،عریانت، منکرات اور منہیات کو عام قضیہ شمار کرتے ہوئے اپنے دامن کو جھاڑکر نکل جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد جب ان کے سامنے کسی کی جان حلق سے نکل رہی ہوتی ہیں ،آں وقت بھی اپنے انسان ہونے کا ثبوت پیش نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے موبائل سے ویڈیوز سازی کرکے سوشل میڈیا کے واسطے سے اپنی شہرت کا سامان فراہم کرنے کا وسیلہ تیار کر رہے ہیں۔ ان کی عقل کے نہاں خانوں میں یہ بات جاگزیں نہیں ہوتی کہ موت و حیات کی کشمکش میںمبتلا انسان کی مدد کرکے اپنی انسانیت کا رول ادا کریں۔ یقیناً یہ انسانیت و طریقت کے خلاف نہایت ہی قبیح اور منکر عمل ہے۔ نوجوان نسل کی بے راہ روی کا اصلی سبب یہ ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت میں موجو دستیاب ہدایات و ارشادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان کے پاس قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے معنی فہمی کے لیے وقت نہیں ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں ہوشمندی کا مظاہر کرنے کی ضرورت ہے موجودہ دنیا ہی فتنہ پرور اشیاء اور غیر شائستہ اطوار سے گلو خلاصی کے لئے قرآن و سنت کے احکامات و فرمودات کو اختیار کرنا غایت درجہ ضروری ہے کیونکہ وہ ہمارے رشد و ہدایت کی سوت ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوجوان نسل ہی عزت دار معاشرہ تعمیر کرنے کے ضامن ہوتی ہے ،اگر نوجوانوں میں بگاڑ ہو یا وہ انسانی اور اخلاقی اقتدار کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہوں یارو گرداں و خود غرض ہوں تو انسانی معاشرہ کی بہتری کے تئیں حساس لوگوں کا خیال تبدیل ہونا متوقع ہے کیونکہ نوجوان حالات کو بدل سکتا ہے۔ اس کے پاس وقت ،سوچ اور ہمت ہوتی ہے، جس کام کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کو عملانے کیلئے طاقت ،سوچ اور ہمت و صبر کے صفات کو بروئے لانے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوجوان مست و مدہوش رہ کر اپنی زندگی کے ساتھ ہی کھلواڑ نہیں کر سکتا ہے بلکہ اس کے اس طرز عمل سے سماج میں برائیاں اور بدعات پنپتے رہتے ہیں۔ نوجوان کا بلند قامت اور مضبوط جسامت ہونا سماج کیلئے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ اس میں شعور کی تازگی اور انسانی و اخلاقی اقدار سماج کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے، سماج افراد کے حرکات و سکنات سے ہی تعمیر ہوتا ہے، اگر افراد اچھے حرکات انجام دیں گے اور بہتر طریقہ کار اپنائیں گے تو سماج میں اچھے اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ عصر حاضر میں چھوٹے بڑے سبھی لوگ مفاد پرستی کی طرف گامزن ہیں، اسی لئے ہمارے سماج میں روز ایسے فتنے سامنے آجاتے ہیں جو قبیح ہوتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کی بہتر تعمیر میں نوجوان نسل اپنا کلیدی کردار ادا کریں اور دور جدید سماج میں پنپ رہی برائیوں و بدعات کا قلع قمع کرنے کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس میں جہاں نوجوان کا رول ہوگا وہیں بزرگ اور حساس افراد کو اپنے تجربات و مشاہدات کو بروئے کار لا کر نوجوانوں کی رہبری کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]