قدرت کا قانونِ مکافات

گھڑی کی ٹک ٹک سے تنگ آکر ندیم نے Time Pieceہاتھ میں لیکر بند کر دیا۔دراصل یہ Alarm  اُس نے آج صبح فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونے کے لیے رکھا تھا۔ندیم یوں تو پنجگانہ نماز کا پابندتھا لیکن نہ جانے کبھی کبھی فجر کی نماز کے وقت اُسے کیا ہوجاتا تھا جو وہ Alarmبند کر کے پھر سے نیند کی آغوش میں چلا جاتا۔دو گھنٹے کی نیند پوری کر کے جب ندیم کی آنکھ کُھلی تو جیسے اُس کی سب سے قیمتی چیز کسی نے چرا ئی ہو’’یہ میں نے کیا کردیا‘‘
’’میں اب اپنے اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا‘‘۔
’’کس طرح اپنے مالک سے نعمتوں کا مطالبہ کروں گا۔‘‘
اس سب سے ندیم کافی دلگیر ہو گیا۔ماں نے ندیم کی حالت بھانپ کر کہاں ’’کیا ہوا میرے لعل ،کیوں اس قدر اُدا س ہو۔کچھ نہیں ماں ،بس کوئی خاص وجہ نہیں ،میں یوں ہی کسی بات کو لے کر تھوڑا سوچ رہا تھا۔ ندیم یوں تو اللہ کی عبادت کرتا تھا لیکن اُسے ابھی تک اپنے والدین کو راضی رکھنا اور ان کی خدمت کرنے کا سلیقہ نہ آتا تھا۔وہ والدین کے کام کو کبھی بھی اپنی ذمہ داری نہ سمجھتا تھا۔ ’’آجاؤ بیٹا چائے پیو ،زیادہ سوچنا صحت کے لیے مُضر ہے ۔چائے پی کے کالج بھی جانا ہے آپ کو بیٹا’’ہاں اور ایک بات یہ میری عینک ہے اسے بھی ٹھیک کروا کے لانا،وہ مجھے حدیث کتاب کا مطالعہ ضروری کرنا ہوتا ہے،ہا ہا ہاہا۔۔۔۔۔۔ندیم کا بے وقت قہقہ جیسے ماں کی روح میں اُتر گیا۔
’’ماں آپ کو بڑھاپے میں کیا پڑھنا ہوتا ہے ،آج کل تو کمسن لوگوں کو پڑھائی بوجھل لگتی ہے اور آپ کیا خواہ مخواہ اس جھنجا ل میں آپھنستے ہیں۔ندیم شکل و صورت سے اس قدر خوش شکیل تھا کہ کوئی اس بات کا اندازہ نہ لگا سکتا تھا کہ شکل وصورت سے اس قدر خوبرو دکھنے والا کبھی کبھی اس طرح کی باتیں کیا کرتا ہوگا۔ندیم کا گھرانہ صرف پانچ افراد پر مشتمل تھا۔جن میں ماں باپ دادا دادی اور ندیم تھا۔
ماں مجھے چائے دو مجھے تجمل کے یہاں پڑھنے جانا ہے۔ماں اگر آپ اجازت دیں تو میں کل اُسے یہیں بلالوں ۔ٹھیک ہے بیٹا جیسا تمہیں اچھا لگے ۔You are worlds best mom ۔ما ں سے بغل گیر ہو کر ندیم نے اپنے دوست اور ہم جماعت ساتھی تجمل کے گھر کی راہ لی۔
’’چلو چلو تجمل ، آج میں تمہارے گھر رُکوں گا لیکن کل سے ہم میرے گھر میں اکھٹے پڑھیں گے ،میں نے ماں سے اجازت لے لی ہے اور اب تم بھی گھر والوں کو بول کر کل سے میرے ہمراہ جانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔تجمل نے بھی اپنے والدین سے ندیم کے گھر جانے کی اجازت چاہی۔
’’ٹھیک ہے تجمل جاؤ لیکن آپ لوگ پڑھنا، صرف مستی میں ہی وقت صرف نہ کرنا،تجمل کی والدہ کی آواز میں خوشی کے ساتھ ساتھ ایک فکر بھی لاحق تھی۔‘‘
دوسرے دن سے ان دونوں کا معمول بن گیا کہ وہ دونوں اسکول اکھٹے جاتے اور شام کو ندیم کے گھر میں دونوں مطالعہ کرتے۔ندیم کی والدہ نے بھی پہلے ہی دن اپنے بیٹے سے وہی سب کچھ کہا جو تجمل کی والدہ نے کہا تھا’’ہاں ہاں ٹھیک ہے ندیم عیش سے اکٹھے پڑھو لیکن صرف پڑھائی کرنا نہ کہ اپنا وقت ضائع کرنا‘‘۔خیر دونوں بچوں کا معمول ایک ساتھ پڑھنا بن گیا۔دونوں بچے عمر کی دہلیز اتنی جلدی پار کر کے کب بڑے ہوگئے اس بات کا علم ہی ان کے گھر والوں کو نہ ہوسکا۔
دونوں کی شادیاں بھی ہوگئیں ،ندیم نے کب سارے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں پتہ ہی نہیں چلا،ندیم کے یہاں بیٹا بھی ہوگیا۔ندیم کی والدہ یوں تو گھر میں نئے مہمان کے آنے سے خوش ہوگئی لیکن نہ جانے وہ کیوں ایک عجیب طرح کا اکیلا پن جو اُس نے اسے پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا ،کرنے لگی۔
’’یہ میں کس طرح کی باتیں سوچ رہی ہوں ،میرا بیٹا ندیم نہیں بدل سکتا‘‘
’’وہ صرف اور صرف میرا بیٹا ہے ،اُس پر سب سے زیادہ حق میرا ہے ،اُسے میں نے پال پوس کے بڑا کیا ہے‘‘
’’میں نہ جانے کیوں یہ فضول باتیں سوچنے لگی’’۔ماں ادھر دیکھیں میں آفس جا رہا ہوں اور وہاں سے آکے ہم مدیحہ کے میکے جائیں گے،وہ کئی دنوں سے وہاں نہیں گئی۔آپ اپنا خیال رکھنا ماں ہم دو دن بعد واپس آئیں گے۔دو دن کا کہہ کر جب یہ تینوں ہفتے بعد بھی گھر نہ آئے تو ماں کو فکر لاحق ہوگئی۔
’’میں ندیم کو فون کرتی ہوں ،پڑوسیوں کے فون سے ،کچھ دن کا کہہ کر نہ جانے کیوں وہ اتنے دنوں وہاں بیٹھ گیا۔
پڑوسیوں کے یہاں فون ملانے کے لیے آخر کا رماں کو اس کے قدم خود بخود لے گئے۔کیسے ہو بیٹا سب خیریت تو ہے نا ،آپ سب واپس کیوں نہ آئے ،ماں اب کون سی آفت آن پڑی ۔صبر نہیں کر سکتے تھے آپ؟ہم کل واپس آرہے ہیں ۔اب ضروری تھا کیا  پورے محلے کو ہمارے جانے کی خبر دینا؟بیٹا وہ میں نے سوچا کہ دو دن کا کہہ کر اتنے سارے دن  کیوں لگا دئے،خیریت تو ہے نا اور بیٹا مجھے تمہیں دیکھے بغیر چین نہیں آتا نا ،اس لیے سوچا تمہیں فون کروں ،اچھا اچھا اب دلیلیں مت دو ،اب باقی باتیں کل کریں گے۔
دوسرے دن صبح سے ہی ندیم کی والدہ اپنے بیٹے کا انتظار کرنے لگی ،لیکن ندیم اس کی بیوی اور اس کا بیٹا شام کو گھر آئے۔ ندیم کی والدہ کی جیسے جان میں جان آگئی وہ دن بہ دن جیسے بچہ بنتی جارہی تھی اور اس کا لگاؤ اپنے بیٹے سے دن بہ دن اور سنگین ہوتا جارہا تھا۔اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے کافی وقت گزرتا گیا ،ندیم کا بیٹا بھی شادی کی عمر کو پہنچ گیا اور ندیم کی والدہ کی بھی عمر کافی ہوئی تھی۔ندیم کا بیٹا احمد اب اچھی نوکری کے ساتھ ساتھ شادی شدہ بھی بن گیا ۔احمد کام پر جانے لگا تو اُس کے والد ندیم جو کہ کئی دنوں سے بستر پر پڑے تھے،جاتے وقت بیٹے سے کہنے لگا’’بیٹا میری گھڑی بھی ٹھیک کروانا ،یہاں بیٹھے بیٹھے مجھے وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ،کئی دنوں پہلے ا س کمرے کا کلاک بھی تمہاری بیوی نے نکالا ،اس لیے مجھے دِقت ہوتی ہے۔با با آپ اب کون سا آفس جاتے ہیں جو آپ کو گھڑی کی ضرورت پڑے گی،وقت پوچھناہو تو ماں کو یا نجمہ کو پوچھا کرو،میرے پاس ان فالتو کاموں کے لیے بالکل بھی وقت نہیں۔مدیحہ ساتھ بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی ندیم کی بوڑھی ماں بھی ۔ندیم نے اپنا ہاتھ جلدی سے واپس لے لیا اوراُسے لگا جیسے کوئی قہقہ زن ہے اُس کی اس حالت پہ۔اُس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے لیکن اُ سکے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا ۔وہ برف کی طرح سرد پڑ گیا اور کب اُس کا وجود بستر پر ہی ماضی بن گیا ،کسی کو بھی علم نہ ہو سکا۔
���
بارہمولہ کشمیر، ریسرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر
ای میل:۔[email protected]