ظفر محی الدین
یہ ایک خوش آئند بات یا پہلو ہے کہ مختلف ممالک کی بیشتر غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے علاقوں میں ٹنوں کے حساب سے پھینکے جانے والا کوڑا کرکٹ جس میں پلاسٹک کا سامان، کانچ کی بوتلیں، پرانے ٹائر، کاغذی ردی اور دیگر بیکار سامان ہوتا ہے۔ اس کو جمع کر کے اور انہیں الگ الگ کرے، سائیکلنگ یا دوبارہ قابل استعمال اور کارآمد بنانے والے کارخانوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح اس کام سے وابستہ افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کوڑا چننے کا کاروبار ایک طرح سے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔
آسٹریلیا، جاپان ،امریکہ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت بیشتر دیگر ممالک میں کوڑا کرکٹ سے دوبارہ قابل استعمال مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں۔ ایک محتاط جائزہ کے مطابق کوڑا کرکٹ دوبارہ کارآمد بنانے والی صنعت ایک سو ارب ڈالر سالانہ کما رہی ہے۔ کوڑا کرکٹ کا سب سے بڑا حصہ چین کا ہے۔ پھر امریکہ، بھارت، برازیل اور یورپی ممالک ہیں۔ چین میں ہزاروں افراد اس خود ساختہ پیشہ سے وابستہ ہیں اور ٹنوں مختلف بیکار اشیاء دوبارہ کار آمد بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ کو دوبارہ کارآمد بنانے والے کارخانے اربوں ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔
کوڑا کرکٹ کو دوبارہ کا بل استعمال بنانے کے لئے مزید ممالک میں بھی سنجیدگی سے کام کیا جا رہا ہے۔ گتے کے خالی ڈبے، لکڑی کے بعض اشیاء اور کاغذی ردی کو دوبارہ کا آمد بنا کر ان سے نئے گتے کے ڈبے، اخباری کاغذ اور کاغذ کی دیگر اشیاء تیار کی جا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے مالز اور اسٹورز میں دوبارہ کارآمد بنائی جانے والی اشیاء کے اسٹال الگ اور نمایاں طور پر ڈسپلے کئے جاتے ہیں اور ان ممالک کے صارفین دوبارہ کارآمد بنائی جانے والی اشیاء کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں جو خوش آئند ہے۔ ان صارفین کا کہنا ہے کہ ہم اس طرح قدرتی ماحول کے تحفظ کی کوشش میں اپنا بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔
قدرتی ماحول کو بہتر بنانے آلودگی میں اضافہ کی روک تھام کیلئے جو اقدام کئے جا رہے ہیں ان میں سولر کاروں اور الیکٹرک کاروں کی تیاری اور ان کاروں کی طلب میں اضافہ بھی خوش آئند ہے کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں سدھار لانے اور بگاڑ کرنے کے اقدام کی روک تھام میں ایک روشنی کی کرن ہے۔ جوں جوں آگہی میں اضافہ ہو گا انسانوں کو اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کا موقع پر آئے گا۔ اس طرح انسان قدرتی ماحول کے تحفظ میں سنجیدہ ہوتا جائے گا۔ مگر خیال ہے کہ انسان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے جو کرنا ہے وہ کام جلد شروع کر دے۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔
�������������������